ہندوستان کے مغل بادشاہ جلال الدین اکبرنے جب سوات،بونیر اور باجوڑ میں زین خان اور بیربل کی قیادت میں اپنی فوجیں بھیج کر یوسف زئی اور دیگر قبائل کا قتل عام کیا تو اس وقت حضرت اخوند درویزہ صاحب ؒیوسف زئیوں کے ساتھ دربدرٹھوکریں کھاکربھوک وافلاس، مصائب وآلام اور قیدوبندکے شکار ہوکر پشاور کی طرف جلا وطن نہ ہوکئے جاتے۔اگر ایجنٹ ہوتے تو آگے بڑھ کر اپناتعارف کرواکر نہ صرف خود بلکہ اپنے اہل وعیال اور ساتھیوں کو باعزت طورپر رہاکروادیتے،بلکہ اپنی خدمات پر انعام واکرام پاتے (8)اگرپیربابا ؒاورحضرت اخوند صاحب ؒمغل بادشاہوں کے ایجنٹ ہوتے تواخوندصاحب ؒایک آتش فشاں خطیب، شیریں بیاں مقرر، انتہائی نڈراورجرأت مند عالم دین تھے، اپنی لسانی طاقت کے بل بوتے پرمغل حکمرانوں کی طرف سے کسی نہ کسی انعام کے مستحق ضرورقرارپاتے،لیکن اگر کسی مائی کے لعل میں جرأت ہوتوایسی کوئی چیز دکھاکراپنے دعوے کو ثابت کردے،ہاں آخری عمر میں پشاور کے گورنر مہابت خان نے ہزارخانی میں پانچ سوایکٹر سے زیادہ وسیع وعریض قطعہ اراضی آپ کی خدمت میں پیش کیا تو آپ نے وہ تمام زمین قبرستان کے لئے وقف کردی،اس میں سے اپنی اولاد کو ایک اینچ زمین بھی نہیں دی اور نہ اپنے استعمال میں لائے، آج تقریبا ًچار سوسال بعد بھی پشاور کاسب سے بڑاقبرستان اخونددرویزہ کا وقف کردہ ہے اور پشاور کے لاکھوں لوگ امیر وغریب اس میں آسودہئ خواب ہیں (9)اگر حضرت اخوند درویزہ صاحبؒ مغل بادشاہوں کے ایجنٹ ہوتے تو آپ کے صاحبزادے محقق افغانستان (افغانستان سے مراد افغان حکومت نہیں بلکہ افغان یعنی پشتون قوم ہے)مولانا عبدالکریم (کریم دادباباؒ)اکبربادشاہ کے پاس مناظرے کے لئے نہ جاتے اور ان کے ہاتھوں گرفتارہوکرآگرہ میں دوسال کی قید نہ کاٹتے۔اکبر بادشاہ کی طرف سے ان کے ساتھ ظالمانہ اور غیرانسانی سلوک نہ ہوتا(10)اگر حضرت اخوند صاحب ؒ مغل بادشاہوں کے ایجنٹ ہوتے تو کبھی بھی ان کی مخالفت نہ کرتے حالانکہ حضرت اخوند صاحبؒ شروع سے اکبربادشاہ کے خلاف تھے،آپ نے باقاعدہ اس کے باطل عقیدے کا برملارَدکیا ہے (11)آپ کے باپ دادیوسف زئیوں کے وفاداراُن کے مذہبی پیشوا اور مغلوں کے مخالف رہ چکے ہیں بلکہ یوسف زئیوں کے ساتھ مل کر مغلوں کے خلاف لڑتے رہے ہیں،انہیں لڑائیوں میں حضرت اخوند درویزہ کے داداحضرت شیخ سعدی اوران کی اہلیہ محترمہ جام شہادت نوش کرچکے ہیں،آپ کے والد محترم شیخ شرف الدین المعروف شیخ گدائی قید کیا گیا ہے اورآپؒ نے یوسف زئیوں کی رفاقت میں جیل کاٹنے کے ساتھ ساتھ دیگر مشکلات برداشت کرتے ہوئے بیش بہا قربانیاں پیش کیں، مغل بادشاہوں کے ساتھ تو آپ کا دورکا بھی کوئی واسطہ نہیں تھااور نہ آپ نے کبھی کسی مغل حکمران کے ساتھ ملاقات کی ہے۔پھر کس بنیاد پر ان خداپرست ہستیوں کو مغل حکمرانوں کو ایجنٹ کہا جاتا ہے،صرف اس بنیاد پر کہ انہوں نے بایزید کے الحاد وزندقہ کا راستہ روکا؟ جس پر ساڑھے چارسوسال بعد قوم پرستوں کی چیخیں نکل رہی ہیں (12)کونسے مغل حکمران نے حضرت اخوند درویزہؒ یاان کے مرشد حضرت پیربابا ؒسے ملاقات کی ہے؟یا اپناکوئی ایلچی،قاصدملاقات کے لئے بھیجاہے؟یاانہیں کسی مغل حکمران کی طرف سے کسی خلعت،جاگیریا کسی اور چیزسے نوازاگیا،یہ کیسی ایجنٹی تھی جس میں کوئی مفاد نظر نہیں آیا؟(13)مغل حکمرانوں کا دور 1526ء سے شروع ہواہے،1530ء میں ظہیرالدین بابر کا انتقال ہوا ہے،ظاہر ہے ابھی اخوند درویزہ ؒپیداہی نہیں ہوئے تھے،1530ء سے 1565ء تک ہمایوں کی بادشاہت رہی ہے،اس دورمیں بھی اخوند درویزہؒ ۳۲سال کے تھے،یہ ان کی طالب علمی کاآخری دورہے، اس زمانہ میں پیربابایہاں نئے نئے تشریف لائے تھے ابھی تک ان کے ساتھ اخوند صاحبؒ کی کوئی شناسائی نہیں تھی،1556ء سے 1605ء تک جلال الدین اکبرکی بادشاہت رہی ہے،اس دورمیں حضرت اخوند درویزہؒ اکبر کے شدید مخالفین میں رہے ہیں،1605ء سے 1627ء تک جہانگیر کا دور رہاہے،1627ء سے 1658ء تک شاہجہان کی بادشاہت رہی ہے جبکہ 1638ء میں اخوندصاحب کا انتقال ہوا ہے،شاہجہان کے دورمیں بھی حضرت اخوند صاحبؒ بہت ضعیف کمزور اور زندگی کے آخری مراحل میں تھے،ظاہر ہے یہ دوراُن کا ذکر وفکر اور تصنیف وتالیف میں گزرا ہے۔ جبکہ81۔ 1582ء میں بایزیدپیرتاریک کا انتقال ہواہے،بعض نے اس کی تاریخ وفات 1575ء لکھی ہے۔ حضرت اخوندصاحبؒ اور پیرتاریک کے درمیان کشمکش جلال الدین اکبر کے دورمیں رہی ہے،حالانکہ یہ تاریخی شواہد سے ثابت ہے کہ حضرت اخوند صاحبؒ جلال الدین اکبر کے شدید مخالفین میں سے تھے اور اپنے اشعار میں اس کا برملا اظہار فرماتے تھے،اس دورمیں اخوندصاحب کے بڑے صاحبزادے مولاناعبدالکریمؒ اکبربادشاہ کی قیدمیں بھی رہے ہیں۔پھر ایجنٹی کا کردارکونسے دورمیں اَداہوا…..؟کس کے ذریعہ سے ہوا…کس مفاد کے لئے ہوا………؟یہ عجیب ایجنٹی تھی کہ مالی مفاد بھی کسی قسم کاحاصل نہیں کیا اور اپنے بیٹے کو بھی قید سے رہانہ کرواسکے؟الزام تراشی کرنے والے کچھ عقل وفہم اور دیانت داری سے کام لیتے تو ہرگز اس قسم کی گھٹیاالزام تراشی پرنہ اُترآتے۔ ہاں! اگر کسی کے پاس کوئی دلیل ہو تو پیش کردے،تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے، لیکن بغیر کسی دلیل اور ثبوت کے صرف خیالی تصورات،سنی سنائی باتوں،مفروضوں اور اپنے باطل جذبات کی تسکین کے لئے اللہ کے نیک بندوں،اللہ کے ولیوں،کروڑوں مسلمانوں کے مقتداؤں اور امت مسلمہ کے عظیم محسنوں پر الزم تراشی کونسی پختون ولی ہے اور کونسی قومی وملی خدمت ہے؟ساڑھے چار پانچ سوسال بعدان کی کردارکشی کرنا اپنے یمان کو ضائع کرنے کے سوااور کیاہوسکتا ہے؟مگر جس ملک کے نام نہادمسلمان راجہ داہر کو اپناہیرواور محمدبن قاسم کو ڈاکومانتے ہوں وہ حضرت پیرباباؒاور حضرت اخونددرویزہؒ جیسی شخصیات کو کیسے معاف کرسکتے ہیں؟ (14) عجیب بات یہ ہے کہ حضرت پیرباباؒ اور حضرت اخوند درویزہ ؒ پر جتنے لوگوں نے بھی الزام تراشی کی ہے انہوں نے اپنی کتابوں میں صاف لکھا ہے کہ یہ حضرات یعنی حضرت پیرباباؒ، حضرت اخونددرویزہؒ اور ان کے ساتھ دیگر علماء رحمہم اللہ بایزید ارمڑی (پیرتاریک)کو میدان مناطرہ میں شکست نہیں دے سکے لیکن یہ بات بھی وہ خود لکھتے ہیں کہ ان دونوں بزرگوں کی وجہ سے بایزید کو ان علاقوں سے بھاگ کر تیراہ میں پناہ لینی پڑی،انسانی تاریخ تو اس بات کی گواہ ہے فاتح آدمی میدان سے نہیں بھاگتا بلکہ شکست خوردہ کو میدان چھوڑ کر بھاگناپڑتا ہے لیکن یہاں تاریخ میں پہلی مرتبہ ہم دیکھتے ہیں کہ بایزید اُرمڑی پیرباباؒاور اخوند درویزہؒ کو شکست بھی دیتا رہا اور پھرعلاقہ چھوڑ کر بھاگ بھی گیا،اگر وہ مناظروں میں فتح حاصل کرتارہا تو پھر پیرباباؒ اور اخوند باباؒ کے پاس کونسی طاقت تھی جس نے اس کو بھاگنے پر مجبور کیا حالانکہ اس کے پاس تو ایک منظم اورمسلح جتھہ موجود تھاجس کے ذریعے وہ جگہ جگہ وارداتیں کرکے دہلی اور کابل کے بادشاہوں کو ڈرادھمکاتا رہااور قافلوں کو لوٹ کر اپنا گزراوقات کرتا رہا؟کیونکہ اس کے نذدیک اس کے ماننے والوں کے علاوہ تمام مسلمان مشرک اور قابل گردن زنی تھے،حضرت پیرباباؒاور حضرت اخونددرویزہ باباؒ کے پاس جو طاقت تھی وہ اللہ تعالیٰ کی مددونصرت کے بعد عوامی قوت وحمایت تھی جو مناظروں میں بایزیداُپرمڑی کو شکست پر شکست دینے اوراس کے غلط عقائد کے ظاہر ہونے کے بعد پیرباباؒ اور اخوندباباؒ کو حاصل ہوتی رہی جس کی بناپر بایزید کوعلاقہ چھوڑ کر بھاگنا پڑا۔مخالفین کی طرف سے سب سے بڑا اعتراض جو حضرت اخوند درویزہؒ پر کیا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ جب انہوں نے پیرتاریک بایزیدانصاری کے بیٹے جلال الدین کوجنگ میں گرفتار کیا تو اس کوبایزیدکی طرح خود قتل کیوں نہیں کیا،اسے اکبربادشاہ کے حوالے کیوں کیا،چنانچہ ”تاریخِ پختون“نامی کتاب میں اس کے مصنف اپنی طرف سے اس اعتراض کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں ”حتی کہ (اخوند درویزہ بابا)مغل سپاہیوں کے ہاتھوں گرفتار ہوئے اور آپ کے ہاتھ پاؤں پیچھے سے باندھ کر پشاور لاکر قید کردیاگیا،اب سوال یہ ہے کہ یہ جنگ شیخ عمر کی جنگ کے تقریباً ایک یادوسال بعد لڑی گئی ہے،اگر اخونددرویزہ باباؒ مغلوں کے ایجنٹ ہوتے تو آپ نے غیور یوسفزئی پختونوں کا ساتھ کیوں دیا؟اور مغلوں نے اپنے اس ایجنٹ کی اتنی بے عزتی کیوں کی کہ اس کے ہاتھ پاؤں باندھ کر پشاور میں پابند سلاسل کردیا،اگر آپ مغلوں کے ایجنٹ ہوتے تو فوراً اپنا تعارف کرواکر نہ صرف خود کو بلکہ اپنے تمام ساتھیوں کو باعزت طورپر رہاکرواسکتے تھے،اس واقعہ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اخوند درویزہ بابا مغلوں کے ایجنٹ نہیں تھے اور ان کی اور بایزید انصاری کے ساتھ لڑائی مذہبی تھی نہ کہ سیاسی……(جاری ہے)