خواتین کیلئے دینی تعلیم کی ضرورت (مولانا مجاہد خان ترنگزئی)

0

انسانی زندگی کی ابتداء ماں کے بطن سے ہوتی ہے، بچہ ماں کے پیٹ سے پیدا ہوکر دنیا میں آتا ہے اسی لیے ماں کی گود کو بچے کا پہلا مدرسہ کہا جاتا ہے۔ اسی لیے اگر کسی بچے کو ماں کی دینی گود ملے تو وہ بچہ خوش قسمت ہوگا کیونکہ پہلے مدرسے سے اس کو صراط مستقیم کی تعلیم میسر ہوگی تو آگے جاکر وہ اسی راستے پر چلے گا۔ اور اگر پہلا مدرسہ درست نہ ہوں تو آگے اس بچے کی زندگی بھی اجیرن ہوگی۔ اسلئے ماؤں کی گود کو دینی گود بنانے کی ضرورت ہے۔

عورتوں کو دنیوی تعلیم کے ساتھ دینی تعلیم دینا انتہائی ضروری ہے۔ اس کی اہمیت مجھے خود معلوم ہے۔ میں نے خود ایک دینی گود میں آنکھ کھولی ہے اور شروع سے میری والدہ نے ہمارے سب بہن بھائیوں کی بہترین تربیت کی ہے۔ میں نے جب شعور سنبھالا تو میں سمجھا کہ سارے خاندان کو جو فائدہ دینی اعتبار سے ملا ہے وہ میری والدہ کی برکات  سے ہیں۔ شاعر کہتا ہے۔

”خشت اول چوں نہد معمار کج

   تاثریا مے رود  دیوار  کج”

جب کوئی مستری کسی دیوار کی پہلی انیٹ ہی ٹیڑھی رکھ دیتا ہے تو وہ دیوار آسمانوں تک اُونچی چلی جائے اس کا ٹیڑھا پن بڑھتا ہی چلا جاتا ہے۔ بالکل اسی طرح اگر ماں کی اپنی زندگی میں دیندادی نہیں اور وہ بچے کی پرورش کررہی ہے تو وہ بچے میں دین کی محبت کیسے پیدا کر پائے گی۔ اس لیئے پہلی اینٹ کو ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔

علماء فرماتے ہیں کہ اگر کسی کے دو بچے ہوں ایک بیٹا اور ایک بیٹی اور اس کی حیثیت اتنی ہوں کہ دو میں سے ایک کو تعلیم دلواسکے تو اس کو چاہیئے کہ بیٹی کو تعلیم پہلے دلوائے اس لیئے کہ مرد پڑھا فرد پڑھا، عورت پڑھی خاندان پڑھا۔ آج کل کے مردوں میں ایک بات مشہور ہے کہ جی حدیث میں آیا ہے کہ عورتیں عقل اور دین میں ناقص ہوتی ہیں۔ یہ بات سو فیصد درست ہے کہ عورتوں کے عقل میں جذباتیت زیادہ ہوتی ہے، ذرا سی بات پہ بھڑک اُٹھتی ہیں، محسوس جلدی کرلیتی ہیں، اور بعض اوقات جذبات میں آکر دین کی باتوں کو بھی ٹھکرا بیٹھتی ہیں۔ اسلیئے حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ عورتوں کو عقل اور دین کے جیسا نہیں دیکھا، لیکن یہ ایسی ناقصات ہیں کہ بڑے بڑے عقل مند مردوں کے عقل کو اُڑا دیتی ہیں۔ اس لیئے یہ بات تجربے میں بھی آئی ہے کہ عورتیں جب کسی چیز کو منوانے پہ تل جائیں، ضد کریں، ہٹ دھرمی کریں یا خاوند کو پیار محبت کی گولی کھلائیں، خاوند کو مجبور کرکے اپنی بات منوالیتی ہیں۔ تو جب دنیا کی یہ باتیں منوالیتی ہیں تو دین کی تعلیم حاصل کرنے کی یہ بات کیوں نہیں منواسکتیں۔

آپ دیکھے کہ اللہ تعالیٰ نے عورتوں میں کوئی نبیہ نہیں بھیجا مگر نبیوں کی ماں ضرور بنایا ہے۔ یہ عورت کامقام ہے۔ اور اللہ تعالیٰ جب عورت کو اپنے دین کے خدمت کیلئے قبول کریں تو اسکی نسل نسل میں دین کو آباد رکھتا ہے۔ ایک کتاب درس نظامی کے نصا ب میں موجود ہے، جو بھی عالم بنتا ہے اس کتاب کو ضرورپڑھتا ہے۔ وہ کتاب ہے، امام ابوجعفر طحاوی رحمہ کی طحادی شریف۔

یہ کتاب اس طرح لکھی گئی ہے کہ امام جعفرؒحدیث بیان کرتے تھے اور ان کی بیٹی اس کتاب کی املاء کیا کرتی تھی۔ تو یہ ان کی بیٹی کی املاء شدہ کتاب تھی جو آگے چلی اور آج اس سے احادیث پڑھ کر سب لوگ عالم بنتے ہیں۔ یو ں سمجھئے کہ جتنے لوگ بھی عالم بن رہے ہیں،ان کے علم میں امام  ابوجعفر ؒ کی بیٹی کا حصہ بھی موجود ہے، گویا یہ سب علماء ان کے روحانی شاگرد بن گئے۔ تو یہ ہے عورتوں کے دینی کارنامے۔ سیدہ حضرت عائشہ صدیقہ  ؓ پوری اُمت کی اُستاد اور محسنہ ہیں۔ ان کے اُمت پر بہت سارے احسانات ہیں۔ ایک حدیث میں آتا ہے نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جس کے تین بچے ہوئے اور فوت ہوگئے تو قیامت کے دن یہ تین بچے اس کی شفاعت کریں گے اور قیامت کے دن اپنے والد ین کو ساتھ لے کر جنت میں جائیں گے۔ سیدہ عائشہ سے اللہ نے اُمت کو خیر پہنچانا چاہا،تو پوچھا کہ اگر کسی کے دو بچے بچین میں فوت ہوئے تو اس کا کیا ہوگا، فرمایا کہ وہ بھی والدین کی شفاعت کریں گے۔ تو پوچھا کہ اگر ایک بچہ بچپن میں فوت ہوجائے؟ فرمایا وہ بھی شفاعت کریں گا اور والدین کو جنت میں لے کر جائے گا۔

اب بھی خاموش نہ رہی اور پوچھا کہ اگر کوئی عورت حاملہ ہوئی اور اتنا وقت گزرگیا کہ بچے میں جان پید اہوگئی مگر کسی وجہ سے (miss carriage)ہوگیا، عورت نے تکلیف اُٹھائی تو کیا اس تکلیف اُٹھانے پر اس کو اجر ملے گا؟ فرمایا اس قسم کا بچہ بھی جس میں زندگی پیدا ہوچکی تھی اور فوت ہوا تو وہ بھی شفاعت کرے گا اور اپنی ماں کو جنت میں لے کر جائے گا۔ اب اس حدیث میں غور کرو کہ اُمت پر حضرت عائشہ  ؓ کا کتنا بڑا احسان ہے کہ اس کے پوچھنے پر اُمت کو کتنی آسانیاں پیدا ہوگئی۔

اللہ رب العزت نے عورت کے اندر بڑی غیر معمولی صلاحتیں رکھی ہیں۔ اگر یہ تعلیم وتربیت سے منور ہوجائے تو اس کے اندر بڑی تحمل مزاجی بھی پیدا ہوجاتی ہے، صبر بھی پیدا ہوجاتا ہے اور آنے والی نسل کے لیئے خیر کا باعث بنتی ہے۔لہذاہمیں چاہیئے کہ عورتوں کو دنیوی تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم کا بھی خاص خیال رکھے تاکہ وہ معاشرے میں بہتر ین کردار ادا کرسکے۔ ایک عورت کی وجہ سے پورا خاندان صحیح سمت چل سکتا ہے اور نسلوں میں اس کا اثر چلتا رہتا ہے۔ بعض لوگ تو عورتوں کے تعلیم کے مخالف ہوتے ہیں۔ اور جو مخالف نہیں توو ہ دینی تعلیم کا انتظام نہیں کرواتے۔ لہذا دینی ودنیوی دونوں قسم کے تعلیم سے عورت کو منور کرنا چاہیئے تاکہ وہ اس معاشرے کی دیوار کی پہلی اینٹ کو درست لگادے تو باقی دیوار خود بخود سیدھی سمت چلے گی۔

You might also like
Leave A Reply

Your email address will not be published.