8/مارچ کو دنیا بھر میں خواتین ڈے کے نام پر خواتین کا عالمی دن منایاجاتا ہے،1907ء میں پہلی مرتبہ نیویارک میں چند خواتین نے اپنے حقوق کے لئے آوازبلندکی،ان کی پیروی میں یہ دن خواتین ڈے کے لئے مختص کیاگیا،1911ء میں آسٹریا،ڈنمارک،جرمنی اور سوئٹزرلینڈ میں یہ دن منایاگیا،1917ء میں سویت روس میں خواتین کو ووٹ کا حق ملنے کی وجہ سے وہاں 8مارچ قومی تعطیل ہونے لگی،اس کے بعد یہ دن باقاعدہ طورپر منایاجانے لگا،1975ء میں اسے اقوام متحدہ نے بھی اپنالیا اور اس کے بعد یہ دن خواتین کے عالمی دن کے طورپر منایاجاتا ہے، کئی ممالک میں اس دن عام تعطیل ہوتی ہے بعض ملکوں میں یہ دن بطوراحتجاج منایاجاتا ہے جبکہ بعض ممالک میں اس دن نسوانیت کا جشن منایاجاتا ہے۔دن منانااوباش لوگوں کاوطیرہ بن چکا ہے جوصرف نمائشی طورپر سال میں ایک دفعہ دن منالیتے ہیں اور پھر اس کے بعد پوراسال عملی طورپر اس پر عمل پیراہونے سے سبکدوش ہوجاتے ہیں،یہ بھی ہمارے ہاں مغرب سے درآمدشدہ غلامی کا وہ تحفہ ہے جسے لبرل لادین اوردین بیزار لوگوں نے اسلامی تعلیمات کے مقابلہ اپنایاہواہے،اس دن خواتین کے حقوق کی آڑمیں اسلامی تعلیمات پر تبراکرنے میں انہیں آسانی ہوجاتی ہے اور مغربی تہذیب کے دلدادہ، مادرپدر آزادطبقہ اس دن کو اپنے سفلی جذبات کی تسکین کے لئے استعمال کرتاہے،خواتین کا جتنااستحصال مغربی معاشرہ میں ہوتا ہے اتنا افریقی ممالک سمیت دنیا کے کسی کونے میں بھی نہیں ہوتا۔اسلام نے خواتین کو جو حقوق دئے ہیں مغرب کے نام نہاد تہذیب یافتہ لوگ اس کے عشروعشیر کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔اسلام نے خاتون کو گھرکاملکہ بناکر دربدرٹھوکریں کھانے سے محفوظ کرتے ہوئے کمانے کے بوجھ سے سبکدوش کیا ہے،جبکہ مغرب نے اسے صرف جنسی تسکین کا ایک آلہ بناکرشمع بنادیاہے،کمانے کا بوجھ بھی اس کے ناتواں کندھوں پرڈال کر غیرمردوں کے سامنے اُسے ذلیل ورسوکرکے رکھ دیا ہے۔ہمارے ملک میں چند اوباش اور معاشرہ کی دھتکاری ہوئی خواتین این جی اوزاور مغربی سرمایہ کے بل بوتے پر روڈوں پر آکر فطرت سے بغاوت کرنے کا اعلان کرتی ہیں اور میڈیا انہیں پزیرائی بخشتے ہوئے رائی کا پہاڑ بنادیتا ہے۔فطرت سے بغاوت کرنے والی یہ چندخواتین اِکادُکا واقعات کو موضوع سخن بناکر اسلام، اسلامی تعلیمات اور مشرقی روایات کی دھجیاں بکھیر ناشروع کردیتی ہیں۔ہمارے اسلامی معاشرے میں اس قسم کی بیہودگی کی کوئی گنجائش نہیں ہے لیکن اس کے باوجود چندنام نہاد مسلمان ان بیہودہ حرکات سے اپنے آقاؤں کو خوش کرنے کے لئے اسلام کے خوبصورت چہرے پر بدنمادھبے لگانے کی کوشش کرتے ہیں،اس سے قبل پرویز مشرف نے برسرا قتدار آکر اسلامی شعائر کو مٹا کر ان کی جگہ مغربی تہذیب اور کلچر کو عام کرنے کے لئے کیاکچھ نہیں کیا؟ ان میں سے ایک اقدام”میراتھن ریس“ کے نام سے نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو نیم برہنہ حالت میں سڑکوں پر دوڑانا تھا۔ یہ نیم برہنہ اور مخلوط دوڑ پرویز مشرف سے قبل ملک میں کہیں نہیں پائی جاتی تھی۔ مگر پرویز مشرف نے بذات خود اس میں خصوصی دلچسپی لے کر اس حیا باختہ دوڑ کو متعارف کروایا۔13 /اپریل 2005ء کو گوجرانوالہ میں اس دوڑ کا اہتمام کیا گیا۔ گوجرانوالہ کی مشہور علمی شخصیت اور ممبر قومی اسمبلی مولانا قاضی حمیدا للہ خان رحمہ اللہ امیر جمعیت علماء اسلام پنجاب نے اس پروگرام سے قبل انتظامیہ کو براہ راست مطلع کیا کہ ان کو تفریح اور کھیل کود کی سرگرمیوں پر کوئی اعتراض نہیں لیکن نوجوان لڑکیوں کی اس نیم برہنہ حالت میں جی ٹی روڈ پر تین کلومیٹر تک دوڑ اسلام اور ہماری روایات کے خلاف ہے۔ اس لئے ہم یہ دوڑ نہیں ہونے دیں گے۔ ڈی پی او نے قاضی حمیدااللہ کو جواب دیا کہ ہمیں اوپر کا حکم ہے اس لئے ہم مجبور ہیں اور رکاوٹ ڈالنے والوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹیں گے۔ڈی پی او کی اس دھمکی آمیز گفتگو کے جواب میں قاضی صاحب ؒنے فرمایا کہ ہم آپ کے اوپر والوں سے بھی زیادہ اوپر والے کے حکم سے مجبور ہیں۔ ہمارے ہاتھوں کو بھی آپ فولاد پائیں گے،قاضی حمیدا للہ صاحب مرحوم نے مختلف کالجوں میں تعلیم حاصل کرنے والی لڑکیوں کے والدین کو کہا کہ اپنی نوجوان لڑکیوں کو اس بے حیائی سے روکیں مگر ان کی طرف سے جواب تھا کہ ہم بھی نہیں چاہتے مگر اس شرکت کی صورت میں دس اضافی نمبر ملیں گے اور کالج والے بھی ہمیں مجبور کرتے ہیں،جس پر قاضی حمیدا للہ صاحبؒ انتظامیہ اور والدین کی طرف سے مایوس ہو کر بزور قوت اس بے حیائی کو روکنے کا فیصلہ کیا۔ 3/اپریل کو قاضی صاحب اپنے ساتھیوں سمیت جناح اسٹیڈیم کے ارد گرد موجود تھے جونہی اطلاع ملی کہ لڑکیوں کی دوڑ جی ٹی روڈ سے شروع کرا دی گئی ہے، قاضی صاحب ؒاپنے ساتھیوں سمیت اسٹیڈیم کے گیٹ پر دھرنا دینے کے لئے آگے بڑھے۔ ڈی پی او نے روکنے کے لئے گفتگو کی بجائے دھمکیوں کا راستہ اختیار کیا اور آگے بڑھ کر قاضی حمیداللہ صاحب کا گربان پکڑا جس سے پولیس او رمظاہرین کے درمیان تصادم کی صورت حال بن گئی۔ ایک طالب علم کو پولیس افسر نے ٹانگ میں گولی ماردی۔ قاضی صاحب ؒاپنے بیٹے سمیت زخمی ہوئے اور اسی حالت میں ہسپتال سے گرفتار کر کے گوجرانوالہ سے لاہور اور پھر ساہیوال جیل بھیج دئیے گئے، پیرانہ سالی کے باوجود قاضی حمیداللہ خان نے ایسا مجاہدانہ کردار ادا کیا کہ حکومت کو ملتان میراتھن ریس منسوخ کرنا پڑا اور راولپنڈی اور سرگودھا میں کالجوں کی حدود کے اندر اس حیاباختہ پروگرام کو مقید اور محدود کرنا پڑا۔قومی اسمبلی میں اس وقت کے قائدحزب اختلاف، قائدجمعیت مولانافضل الرحمن نے اس بے حیائی کے خلاف زبردست آوازاُٹھائی اور اس حیاسوزحرکت کو مزید پھیلنے سے روک دیا۔فروری 2016ء میں پنجاب اسمبلی نے تحفظ نسواں بل کے نام سے ایک بے ہودہ اور غیراسلامی بل پاس کرواکر مغربی قوتوں کو خوش کرنے کی ناکام کوشش کی جس کے خلاف قائدجمعیت نے آوازبلندکرتے ہوئے اس بل کو مستردکیا اور پنجاب اسمبلی کو”زن مریدوں“کی اسمبلی قراردیا جس پر حکومتی ایوانوں میں ہل چل مچ گئی اور وزیراعلیٰ پنجاب جناب شہبازشریف نے قائدجمعیۃ کو فون کرکے اس بل میں ترمیم پر رضامندی کا اظہار کیا۔14مارچ کو وزیر اعظم میاں نوازشریف نے قائدجمعیت سے ملاقات کرکے اس بل کے نوٹیفیکیشن کو روک دیا اور اس کی اصلاح کے لئے ایک کمیٹی بھی تشکیل دی جو علماء کرام سے رجوع کرکے اس بل کی غیراسلامی شقوں کو ختم کرکے اسلامی تعلیمات کے مطابق بنائے گی۔ 15/مارچ2016ء کو لاہور میں تمام دینی جماعتوں کے سربراہوں کا اجلاس ہوا۔اس میں حکومت کو ڈیڈلائن دی گئی کہ 27مارچ تک اس بل کو واپس لے کر اس کی اصلاح کی جائے ورنہ حکومت کے خلاف زبردست تحریک چلائی جائے گی۔اس کے بعد4/اپریل 2016ء کو لاہورمیں قائدجمعیۃ حضرت مولانا فضل الرحمن نے علماء کے وفد کے ساتھ، جن میں مرکزی اہل حدیث کے سربراہ پروفیسر ساجدمیر،جماعت اسلامی کے اسداللہ بھٹو،جے یوپی کے پیرمحفوظ مشہدی اورمولاناامجدخان شامل تھے، وزیر اعلیٰ پنجاب شہبازشریف اور اس کے وفد جن میں صوبائی وزیر قانون راناثناء اللہ،علماء بورڈ کے چیئرمین مولانا فضل الرحیم جامعہ اشرفیہ،قرآن بورڈ کے چیئرمین علامہ غلام محمدسیالوی،وزیرمملکت مولانا امین الحسنات،اور مولاناراغب حسین نعیمی شامل تھے،سے ملاقات کی،قائدجمعیۃ مولانا فضل الرحمن نے نام نہاد تحفظ نسواں بل کے ایک ایک شق پر تنقیدکرتے ہوئے اسے قرآن وحدیث کے منافی ثابت کیا اس موقع پر میں قائدجمعیۃ نے فرمایاکہ دینی جماعتیں خواتین کے حقوق کی مخالف نہیں ہیں بلکہ حامی ہیں لیکن حقوق نسواں بل کو شریعت،آئین اور خاندانی نظام سے متصادم سمجھتی ہیں،اس موقع پر مولانانے کہا کہ ہم آئین اور پارلیمانی جدجہد کرنے والے لوگ ہیں لیکن پارلیمانی اندازمیں غیرشرعی،غیرآئینی،اور خاندانی نظام کو تباہ کرنے والے کسی بھی بل کوسپورٹ نہیں کرسکتے، دینی جماعتوں نے جہاں شرعی طورپر اس بل دیکھا ہے وہاں آئینی اور قانونی ماہرین سے اس حوالے سے مشاورت کی،اس تفصیلی اجلاس میں طے پایا کہ اس حوالے سے ایک کمیٹی قائم کی جائے گی جو دونوں جانب سے علماء اور آئینی ماہرین پر مشتمل ہوگی اور یہ کمیٹی اس بل کا جائزہ لے گی اوراپنی سفارشات مرتب کرے گی،حکومت ان سفارشات پر قانون سازی کریگی۔وزیراعلیٰ شہباز شریف نے اس موقع پر کہا کہ حکومت کسی سطح پربھی غیراسلامی یا غیر آئینی اقدام کی حامی نہیں ہم نے اپنے طور پر اس بات کی کوشش کی ہے کہ خواتین کے حقوق کے حوالے سے ایک اچھی قانون سازی ہو لیکن ہمارا کوئی قدم حرف آخرنہیں ہے اس کی اصلاح ممکن ہے علماء اور دینی قوتیں ہماری راہنمائی کریں۔ اس طرح این جی اوزکے تیارکردہ غیر اسلامی اور غیر شرعی بل کوقائدجمعیۃ کی ایک للکارنے روک دیا۔گزشتہ سال8 مارچ2019کو کراچی،لاہوراوراسلام آباد میں چند حیاباختہ اور معاشرہ کی دھتکاری ہوئی طلاق یافتہ عورتوں نے جلوس نکالے اور میراجسم میری مرضی،اپناسالن خود گرم کرو،اگردوپٹہ اتناپسند ہے توآنکھوں پر باندھ لو،میں آوارہ میں بدچلن،مجھے کیا معلوم تمہاراموزہ کہاں ہے؟شادی کے علاوہ اور بہت کام ہیں،مجھے ٹائربدلناآتاہے،میری شادی نہیں آزادی کی فکر کرو،نہیں بیٹھوں گی گھر،توبس ایک مرد ہے میرے سرکاتاج نہیں،جیسے حیاسوزنعرے لگاتے ہوئے اسلام،مذہبی اقدار، مشرقی روایات اور آئین پاکستان سے کھلم کھلا بغاوت کا اعلان کیا،29نومبر 2019 ء کو ملک کے مختلف تعلیمی اداروں کے بعض طلباء وطالبات نے طلبہ تنظیموں کی بحالی کی آڑمیں لال لال لہراکرمردوزن کے مخلوط جلوس نکالتے ہوئے یہ نعرہ بلندکیا”جب لال لال لہرائے گا تب ہوش ٹھکانے آئے گا“لال والوں نے ایک مرد کو کتا بناکر تین خواتین اس کے گلے میں پٹاڈال کر کھینچتی رہیں،بی بی سی سمیت دیگر مغربی چینلزاس کو تمام دن کوریج کرتے رہے،لال لال کے نیچے چھپاہوازہر اندھوں کو بھی نظرآرہاتھا کہ طلباء کے حقوق کے نام پر کیاکیا گنداور غلاظت پھیلائی جارہی ہے؟مگر پوری قوم نے جان بوجھ کر اس پرآنکھیں بند کردیں۔اس دفعہ تو 8 مارچ کے لئے بڑے منظم اندازمیں تیاریاں کی گئی ہیں، اوباش،دین بیزار، مغربی ٹکڑوں پرپلنے والی آنٹیوں کے ذریعے حیاباختہ لڑکیوں کے جھتے تیارکئے جارہے ہیں اور انہیں باقاعدہ ٹریننگ دی جارہی ہے،انہیں نعرے سکھا ئے جارہے ہیں،ناچنے اور گانے کے طریقے بتلائے جارہے ہیں،ان حیاسوزنعروں کے ساتھ ان لبرل آنٹیوں کی نگرانی میں نوجوان لڑکیوں کومذہب،مذہبی اقدار،ملکی قوانین اور اپنی روایات سے بغاوت سکھائی جارہی ہے۔مثلاً!ہماری سزاوہ تشددہے جوتمہیں آتانہیں نظر،یہ قتل نسواں ہے اور قاتل ہے آزاد،سن لوتم!یہ ریپ ہے،نہیں ہے عصمت دری،نامیری غلطی میرے کپڑے ناوہ جگہ جہاں میں تھی،نامیرا طبقہ میرامذہب میری محنت مزدوری،اور وہ ریپسٹ ہوتم اور وہ قاتل ہو تم،یہ پولیس یہ نظام،یہ قانون،یہ حکمران،یہ جاگیردار،یہ سرکار،یہ ملااور مذہب کے ٹھیکیدار،اور ریپسٹ ہوتم،اور وہ قاتل ہوتم،اور ظالم ہے ریاست،اور قاتل ہے ریاست،اب ظلم نہیں منظور،ہم ہیں لڑنے کو تیار،طاقت کا پاسہ پلٹے گا،اب عورت ہوگی آزاد۔یہ ٹریننگ کے دوران ایک گروپ کے مذہب وریاست اور اپنی عصمت وروایات سے بغاوت کے چند نعرے ہیں جوسوشل میڈیاپر وائرل ہوچکے ہیں،نہ جانے اندرونِ خانہ کتنے اور کس قسم کے مزید حیاسوزنعرے تیارکئے گئے ہوں گے جو8 مارچ کو سامنے آئیں گے،ان چندتعفن زدہ،بدبودارمغرب کی تربیت یافتہ آنٹیوں کو یہ حق کس نے دیاہے کہ وہ 22کروڑ عوام،ریاست اور علماء کو مجرموں کے کٹھہرے میں لاکر کھڑاکریں اورانہیں ریپسٹ کہہ کر ان کے خلاف فردِجرم عائدکریں؟حقوقِ نسواں کی آڑمیں اس قسم کی حیاسوزحرکتیں اور باغیانہ نعرے پاکستان جیسے نظریاتی ملک کے اندر ناقابل برداشت ہیں،قائدجمعیت مولانافضل الرحمن نے چند دن قبل اس سلسلہ میں ببانگ دہل واضح الفاظ میں یہ اعلان کیا ہے کہ اسلام آبادکی سرزمین پر اس قسم کی حیاسوزی کی ہرگزاجازت نہیں دی جائے گی پہلے قانون کے راستے سے اس کو روکاجائے،قانون کودعوت دی جائے کہ نظریہ پاکستان اور آئین پاکستان کے خلاف اس قسم کی حرکتوں کو قانون نافذکرنے والے ادارے خود روکیں، اگر قانون حرکت میں نہ آئے اوران خرافات کو نہ روکے تو بروزقوت اس لادینیت اور بے حیائی کو روکا جائے۔چند خواتین پورے ملک میں فساد برپا کرکے ملکی اکثریت کو یرغمال بناکر اپناایجنڈانافذکرنا چاہتی ہیں،مذہبی جماعتوں اور دینی کارکنوں کو بیداررہنے کی اشدضرورت ہے کیونکہ یہ سب کچھ عالمی ایجنڈے کے مطابق حکومت کی سرپرستی میں منظم اندازسے کیاجارہاہے،ابھی تو چندوہ آنٹیاں ہیں جو معاشرے میں دھتکاری ہوئی ہیں جن کے کردار سے ہر شخص بخوبی واقف ہے،لیکن اگر اس وقت بے حیائی کے اس ندی کے آگے بند نہ باندھاگیا تو آئندہ یہ سیلاب کی شکل اختیار کرے گا پھر بڑے بڑے پارسااور بزرگ بھی اس سیلاب میں خس وخاشاک کی طرح بہہ جائیں گے۔خواتین کے حقوق ایک خوشنمانعرہ ہے لیکن اس کی آڑمیں ماضی قریب میں جو کچھ کیاگیا ہے اور جوکچھ ابھی ہوگا،کسی غیرت مند اور زندہ معاشرے میں اس کی اجازت نہیں دی جاسکتی،اللہ تعالیٰ اس کے رسول اور آئین پاکستان پر یقین کرنے والے ہر شخص کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان باغیانہ سرگرمیوں کے خلاف اُٹھ کھڑاہواور پاک سرزمین پر اس قسم کی ناپاک حرکتوں کو روک کر اپنی آنے والی نسلوں کی حفاظت کرے۔ہم بحیثیت قوم سانحات،حادثار اور خرافات پر بعدمیں نوحہ زنی،افسوس اورغم وغصہ کا اظہار کرتے ہیں لیکن پہلے سے سانحات وحوادثات اور خرافات کا راستہ روکنے کی کوشش نہیں کرتے،اس بار ان خرافات کو پہلے سے روکنے کی کوشش کی جائے تاکہ اس بے حیائی کا راستہ روکاجاسکے ورنہ بعدمیں غم وغصے کے اظہار اورمضامین لکھنے سے کچھ نہیں بنے گا۔ غیرملکی جھنڈوں کے سائے تلے ملک وملت کے اجتماعی سوچ وفکر کے خلاف چند اوباش عورتوں کی حیاباختگی کسی صورت بھی قابل برداشت نہیں ہے،اس دفعہ تو پچھلے سال کے مقابلہ میں ان کا شورشرابہ ماند پڑچکا تھامگر جب تک ان کو مکمل طورپر روکا نہیں جائے گا تو یہ چنداوارہ گرد آنٹیاں تباہ کن سلاب کی شکل اختیار کرکے پورے معاشرے کو تباہ کردیں گی اس لئے کوئی بھی غیرت مند شخص جو اس قسم کی اوراگردی کو اپنی چاردیواری کے اندر پسند نہیں کرتا اس کا فرض بنتاہے کہ وہ اس کے خلاف اپنی آوازبلند کرے اور اس حیاباختگی کو روکنے میں اپناکردار اداکرے۔