پاکستان میں خودکشی کے بارے سرکاری یا غیر سرکاری سطح پر اعدادوشمار موجود نہیں ہیں تاہم ایک اندازے کے مطابق ملک میں روزانہ 15 سے 35 افراد خودکشی کرتے ہیں یعنی تقریباً ہر گھنٹے ایک شخص اپنی جان لے رہا ہے۔عالمی ادارہِ صحت کے 2012 میں لگائے گئے تخمینے کے مطابق اُس سال تقریباً 13 ہزار پاکستانیوں نے خودکشی کی تھی جبکہ 2016 میں یہ تعداد پانچ ہزار کے قریب رہی۔ ڈبلیو ایچ او کی 2014 میں جاری ہونے والی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں سالانہ آٹھ لاکھ افراد خودکشی کر کے اپنی جان لیتے ہیں۔ایک رپورٹ کے مطابق عالمی سطح پر ہر 40 سیکنڈذ میں ایک شخص خودکشی کرتا ہے۔ مجموعی طور پر سالانہ 000،800 افراد اپنی زندگی کا خاتمہ کرتے ہیں۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق اسے 15سے29 سال کی عمر کے بچوں میں موت کی دوسری اہم وجہ سمجھا جاتا ہے۔ خودکشی کے واقعات دنیا بھر میں رونما ہوتے ہیں۔ ڈبلیو ایچ او کے مطابق سال 2016 کے دوران خودکشی کے 79 فیصد واقعات غریب ممالک سے تعلق رکھنے والے خاندانوں میں پیش آئے۔ تاہم اسی سال پاکستان میں خودکشی کی شرح 000،100 کی آبادی میں 1.4 فیصد رہی۔
پاکستان سمیت دنیا بھر میں خود کشی کی رجحان میں دن بدن اضافہ دیکھنے میں آرہا،خود کشی کے بڑھتے رجحان پر مختلف ماہر نفسیات کی مختلف آراء ہے۔مگر ماہر نفسیات کی اکثریت اس بات متفق نظر آتی کہ خودکشی کے بڑھتے رجحان کی سب سے بڑی وجہ ڈپریشن ہے۔پاکستان کے ایک میڈیا گروپ کی طرف سے کئے گئے سروے کے مطابق خودکشی کی وجوہات میں قریبی رشتہ داروں کا ناروا سلوک، جبری شادیاں، جیون ساتھی کا بچھڑ جانا اور محبت میں ناکامی سب سے نمایاں ہیں۔ مزید برآں جنسی زیادتی کے شکار افراد کا خودکشی کی طرف رجحان بڑھ جاتا ہے۔ بچپن میں بدسلوکی کا شکار ہونا اور والدین سے دوری عام طور پر بچوں کو خود کو نقصان پہنچانے کی طرف راغب کرتے ہیں۔
قارئین کرام: یہاں سب سے خطرناک بات یہ کہ خود کشیوں کا رجحان نوجوان نسل میں تیزی بڑھ رہا ہے،اس میں ڈپریشن کے علاوہ میری نظر میں دوسری بڑی وجہ جذباتی پن بھی ہے۔نوجوان زیادہ تر جذباتی ہو کر یا غصے میں آ کر یہ قدم اٹھاتے ہیں۔ محبت میں ناکامی،والدین کی ڈانٹ ڈپٹ اور اس طرح کے کئی اور محرکات، جذباتی پن،یا اشتعال کی وجہ بنتے ہیں۔آج کل انڈیا میں خود کشی کرنے والی عائشہ نامی ایک لڑکی کی ویڈیو بہت وائرل ہو رہی ہے۔ جس نے سسرال اور شوہر کے ناروا رویے سے تنگ آ کر ندی میں کود کر خود کشی کر لی، میڈیا،اور بالخصوص سوشل میڈیا پر اس لڑکی سے اظہار ہمدردی کرتے ہوئے مختلف تبصرے کئے جا رہے ہیں،کچھ عرصہ قبل ایک انڈین ادکار شوشانت کی خود کشی پر بھی اسی قسم صورت حال دیکھنے میں آئی تھی،یہ صورت یقینا تشویش ناک ہے۔کہ ہم ایسے شخص کو ہیرو بنا کر پیش کر تے ہیں،جس شخص نے خدا کی دی ہوئی زندگی کا خاتمہ کرلیا،جو اس کے پاس خدا کی عطا کی ہوئی نعمت تھی،کیا اس عمل سے ہم ان لوگوں کا حوصلہ نہیں بڑھا رہے جو خودکشی کر نے کا سوچ رہے ہیں؟ظاہری بات ہے اتنی ہمدردی دیکھ کر ان کا حوصلہ بھی بڑے گا اور وہ اس کام کو کوئی بہت سعادت والا کام سمجھیں گے۔اس کی ایک اور سب سے بڑی وجہ ہماری دین اسلام اور اسلامی تعلیمات سے دوری ہے۔اگر خود کشی کرنے والے اور خود کشی کی تشہیر کرنے والے اس بارے جان لیں کہ اس پر ہمارا دین حق کیا کہتا ہے،تو یقنیاً خودکشی کرنے والے اور خودکشی کے بعد اس کی تشہیر کرنے والے اس عمل سے کافی حد تک باز رہیں۔اسلام میں خود کشی کو حرام قرار دیا گیا ہے۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق خود کشی ایک حرام فعل ہے اور اس کا ارتکاب کرنے والا اللہ اور اس کے رسول کا نافرمان اور جہنمی ہے۔
قارئین! بحثیت ایک مسلمان ہمارا ایمان ہے کہ دنیا کی زندگی عارضی زندگی ہے۔ ہماری اصل زندگی تو ہمارے مرنے بعد شروع ہو گی،اور
دین اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے جو انسان کو عزم و ہمت اور صبر و برداشت سے جینے کا ہنر سکھاتا ہے۔زندگی اور موت کا مالکِ حقیقی اللہ تعالیٰ ہے۔ جس طرح کسی دوسرے شخص کو موت کے گھاٹ اتارنا پوری انسانیت کو قتل کرنے کے مترادف قرار دیا گیا ہے، اُسی طرح اپنی زندگی کو ختم کرنا یا اسے بلاوجہ تلف کرنا بھی اللہ تعالیٰ کے ہاں ناپسندیدہ فعل ہے۔
ارشا ربانی ہے:”اور اپنے ہی ہاتھوں خود کو ہلاکت میں نہ ڈالو، اور صاحبانِ اِحسان بنو، بے شک اللہ اِحسان والوں سے محبت فرماتا ہے“البقرۃ، 2: 195
ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:”اور اپنی جانوں کو مت ہلاک کرو، بے شک اللہ تم پر مہربان ہے۔اور جو کوئی تعدِّی اور ظلم سے ایسا کرے گا تو ہم عنقریب اسے (دوزخ کی) آگ میں ڈال دیں گے، اور یہ اللہ پر بالکل آسان ہے“النساء، 4: 29، 30
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود کشی جیسے بھیانک اور حرام فعل کے مرتکب کو فِی نَارِ جَہَنَّمَ یَتَرَدَّی فِیْہِ خَالِدًا مُخَلَّدًا فِیْہَا أَبَدًا (وہ دوزخ میں جائے گا، ہمیشہ اس میں گرتا رہے گا اور ہمیشہ ہمیشہ وہیں رہے گا) فرما کر دردناک عذاب کا مستحق قرار دیا ہے۔خود کشی کس قدر سنگین جرم ہے اس کا اندازہ حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اِس عمل مبارک سے ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سراپا رحمت ہونے کے باوجود خودکشی کرنے والے کی نمازِ جنازہ نہیں پڑھائی حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیشہ اپنے بد ترین دشمنوں کے لیے بھی دعا فرمائی،اور جب تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے واضح حکم نہیں آگیا کسی منافق کی نماز جنازہ پڑھانے سے بھی انکار نہیں فرمایا۔ اس حوالے سے درج ذیل احادیث ملاحظہ فرمائیں:حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے ایک شخص لایا گیا جس نے اپنے آپ کو نیزے سے ہلاک کر لیا تھا، پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی نماز جنازہ نہیں پڑھائی۔
(“مسلم، الصحیح،کتاب الجنائز، باب تَرْکِ الصَّلَاۃِ عَلَی الْقَاتِلِ نَفْسَہ، 2: 672، رقم: 978)
مختصر یہ کہ خودکشی کسی بھی صورت کوئی بہادری نہیں ہے،بلکہ اسلامی،معاشرتی اور اخلاقی طور پر یہ ایک انتہائی نا مناسب عمل ہے۔ہمیں خودکشی کرنے والے کی تشہیر کرنے کی بجائے اس بات کی تشہیر کرنی چاہئیے کہ خود کشی کس قدر نامناسب عمل ہے۔ہمیں اپنے ارگرد زندگی سے مایوس لوگوں کو زندگی کی امید دلانی چاہئیے،انہیں بتانا چاہئیے کہ ہر مشکل کے بعد آسانی ہے،مشکل سے گھبرا کر خودکشی کرلینا کوئی بہادری یا مشکلات کا حل نہیں،بلکہ خود کشی دنیا اور آخرت کی رسوائی کے سوا کچھ نہیں۔اللہ تعالی ہم سب کا حامی و ناصر ہو،آمین۔