قدرت کے حسین نظاروں سے مالامال یورپ کا خوبصورت ترین ملک سوئٹزرلینڈ میں وہاں رہنے والے مسلم باشندوں سے متعصبانہ سلوک میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ عوامی مقاما ت پر چہرہ ڈھانپنے والی مسلم خواتین شاذ و نادر ہی نظر آتی ہیں اس کے باوجود برقعے پر پابندی کے متعلق ریفرینڈم کرایا گیا تھا۔ عبوری نتائج کے مطابق اس میں اسلام مخالف مادر پدر آزاد خیال لوگوں کو عددی اکثریت میں جیت ہوئی، نتیجتاً برقعہ پر پابندی کا مسلم منافرت پر مبنی فیصلہ سامنے آیا ہے۔ سوئٹزرلینڈ میں عوامی مقامات پرخواتین کے چہرے کو مکمل ڈھانپنے‘ پر پابندی کے حوالے ریفرینڈم کے عبوری نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ اسے بہت معمولی اکثریت سے کامیابی ملی ہے، صرف 51.2 فیصد لوگوں نے برقعے پر پابندی کی تائید کی۔یہ ریفرینڈم برقعے پر پابندی کے حوالے سے برسوں تک چلنے والے مباحثے اور فرانس، بلجیم اور نیدر لینڈ جیسے دیگر یورپی ملکوں میں اسی طرح کی پابندیوں کے بعد کرا یا گیا تھا۔سوئٹزر لینڈ میں جمہوری نظام ہے اور یہاں آئے دن متنازعہ معاملات پر عوامی ریفرینڈم منعقد ہوتے رہتے ہیں۔ اگر کسی بھی معاملے پر ایک لاکھ لوگوں کے دستخط حاصل ہوجاتے ہیں،تو چھیاسی لاکھ آبادی والے اس ملک میں اسے ریفرینڈم کے لیے پیش کیا جا سکتا ہے۔ برقعے پر پابندی کے متعلق ریفرینڈم سے قبل ہی اس بات کا اشارہ مل گیا تھا کہ اس تحریک کو بہت معمولی اکثریت حاصل ہوگی۔ پابندی عائد ہوجانے کے بعد کسی بھی شخص کو عوامی مقامات بشمول دکانوں اور دیہی علاقوں میں بھی اپنے چہرے کو مکمل طور پر پوشیدہ رکھنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ تاہم بعض استشنائی حالات بشمول عبادت گاہوں میں اس میں رعایت ہوگی۔ تجویز میں نقاب یا برقعہ کا خصوصی طور پر کہیں ذکر نہیں کیا گیا ہے۔تاہم یہ بات واضح ہے کہ اس سے مراد چہرے کو ڈھانپنے کا وہ اسلامی طریقہ ہے جس پر بعض مسلم خواتین عمل کرتی ہیں اور جس میں آنکھوں کو چھوڑ کر چہرے کا پورا حصہ ڈھکا رہتا ہے۔ سوئٹزر لینڈ کے دو صوبوں میں اس طرح کی پابندی پہلے سے ہی عائد ہے۔سوئس حکومت اور پارلیمان برقعے پر ملک گیر پابندی کے حق میں نہیں ہیں۔دائیں بازو کی عوامی طور پر مقبول جماعت سوئس پیپلز پارٹی برقعے پر پابندی کی زبردست حمایت کر رہی ہے۔ اس نے اپنی مہم کے لیے جو پوسٹر استعمال کیے ان میں سے ایک پوسٹر میں نقاب میں ملبوس آنکھیں چڑھائی ہوئی ایک خاتون کو دکھا یا گیا اور اس کے نیچے تضحیک آمیز جملہ لکھا گیا ’اسلامی انتہا پسندی بند کرو‘۔ایک دیگر پوسٹر میں برقعے میں ملبوس ایک خاتون کو سوئٹزر لینڈ کے قومی پرچم کے قریب کھڑے ہوئے دکھا یا گیا تھا۔اس میں بھی ایک خاتون کو غصے میں دکھایا گیا اس کے ساتھ لکھا گیا کہ ’شدت پسندی بند کرو‘۔ سوئس پیپلز پارٹی کے رکن کا کہنا تھا کہ خوشی قسمتی سے سوئٹزرلینڈ میں برقعہ پہننے والی خواتین کی تعداد بہت زیادہ نہیں ہے۔ لیکن ان کا کہنا تھا کہ جب کوئی مسئلہ پیدا ہو رہا ہو تو ہمیں اسے قابو سے باہر ہونے سے پہلے ہی حل کر لینا چاہیے۔حکومت کا کہنا ہے کہ برقعے پر پابندی سے ملک کی سیاحت متاثر ہو سکتی ہے کیونکہ سوئٹزر لینڈ امیر خلیجی عرب خاندانوں کا پسندیدہ ملک ہے، جہاں کے بینکوں میں وہ اپنا پیسہ رکھتے ہیں اور سیاحت کے لیے وہاں جاکر کافی پیسے خرچ کرتے ہیں۔ پابندی کے خلاف ایک پوسٹر میں لکھا گیا کہ ’ایک بیکار، بے معنی اور اسلامو فوبک برقعہ مخالف قانون‘ کہنے کی غلطی نہ کریں۔ مسلم خواتین کے حقوق کی علمبردار ایک گروپ پرپل ہیڈ اسکارف کی ترجمان کا کہنا تھا کہ بیکار ہونے کے ساتھ ساتھ یہ (مجوزہ قانون) نسل پرستانہ اور صنف مخالف بھی ہے۔انہوں نے کہا کہ مذکورہ قانون سے یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ برقعہ سوئٹزر لینڈ کے لیے کتنا بڑا مسئلہ ہے حالانکہ سوئٹزرلینڈ میں برقعہ پہننے والی خواتین کی تعدادصرف 30 ہے۔ کئے گئے ایک سروے کے مطابق اس یورپی ملک میں مسلمانوں کی آبادی محض 5.5 فیصد ہے۔ مزید برآں فرانس کی قومی اسمبلی نے مسلمانوں کے خلاف نئی پابندیوں پر مشتمل ایک قانون کی منظوری دیدی تھی جس کے نتیجے میں فرانس کے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مسلمانوں کی کڑی نگرانی، ان پر گہری نظر رکھنے، ان کے تجارتی اور تعلیمی اداروں کو بند کرنے اور فرانس میں مقیم مسلمانوں کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کے زیادہ وسیع اختیارات حاصل ہوجائیں گے۔فرانسیسی حکومت کے مطابق اس قانون کے نفاذ کا مقصد فرانس کی سیکولر حیثیت، فرانس کی بنیادی اقدار رائے کی آزادی اور مساوات کے اصولوں کو برقرار رکھنا اور جبری شادیوں پر قدغن عائد کرنا ہے۔ قومی اسمبلی سے منظوری کے بعد حتمی قانون سازی کے لیے مذکورہ بل ایوانِ بالا میں بحث کے لیے پیش کیا جائے گا جہاں حزب اقتدار کو اکثریت حاصل نہیں ہے، اس لیے اس امر کا امکان موجود ہے کہ یہ بل موجودہ شکل میں قانونی حیثیت حاصل نہ کرسکے تا ہم میکرون حکومت کی جانب سے متنازع قانون کی منظوری کی کوششیں فرانس کی موجودہ قیادت کے عزائم کو آشکار کرانے کے لیے کافی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ میکرون کی قیادت میں فرانس کا تصور عالم اسلام میں محض سیکولر کی بجائے ایک اسلام معاند ریاست کی صورت میں بدل چکا ہے جو اپنے مسلمان شہریوں کے دین و اقدار کا احترام کرنے کی بجائے جبر اور خوف کے ہتھیار کے ذریعے مسلم برادری کے تشخص اور ان کے نظریات کو بدلنا چاہتی ہے۔درحقیقت اس نوعیت کے اقدامات خود سیکولرازم کی بنیادی اقدار پر مغرب کی لادین قیادت کے عدم اطمینان اور مغرب میں اسلام کی ترویج و اشاعت کے تیزی سے پھیلتے ہوئے سلسلے کو روکنے کا ناکام کوششوں کا عملی اعتراف ہے۔دراصل اس نوعیت کی پابندیاں ان متعصب اور معاند قوتوں کے خوف اور تشویش کو ظاہر کرتی ہیں جو مغربی معاشرے میں اسلام کے پھیلتے ہوئے پیغام اور مغربی معاشرے میں مسلمانوں سے بڑھتی ہوئی قربت کو دیکھ کر، بہر صورت یورپ میں اسلام کی مقبولیت کو کم کرنا چاہتی ہیں تاکہ یورپ کے قلب میں اسلام کی نشو و نما سے خود مسلم امہ کے کروڑوں نوجوانوں میں بیداری کی وہ لہر نمودار نہ ہوجائے جس کے نتائج جغرافیائی اور لسانی تقسیم سے قطع نظر محض کلمے کی بنیاد پر مسلم اتحاد کی صورت میں ظاہر ہوسکتے ہیں۔ جو ظاہر ہے کہ اسرائیل سمیت عالم اسلام کے خلاف جارحانہ عزائم رکھنے والی کسی بھی قوت کے لیے حوصلہ شکن اور انتہائی ناخوش گوار ہوں گے۔جبری شادی کے جس موہوم مسئلے کو بنیاد بنا کر مسلم شہریوں پر پابندیاں عائد کی جارہی ہیں کیا اس سے بڑھ کر فرانس میں عورتوں پر ہونے والے مجرمانہ حملوں کو بڑھتی ہوئی شرح تشویش ناک نہیں؟ اگر میکرون حکومت یہ سمجھتی ہے کہ وہ عوام کی اکثریت کے حق کی خاطر مسلمانوں پر پابندیاں عائد کرنے جارہی ہے تو اسے واضح کرنا ہوگا کہ مسلمانوں کی وجہ سے فرانس کے عوام کو تکلیف ہی کیا پہنچی ہے؟ جبکہ فرانس کی متعددتنظیمیں میکرون حکومت کے اسلام مخالف رویے کو نہ صرف مسترد کرچکی ہیں بلکہ وہ مسلمانوں کے حق میں متنازع قانون کے خلاف عالمی عدالت میں باقاعدہ مقدمہ لڑنے کا فیصلہ بھی کرچکی ہیں، نیز جہاں تک رائے کی آزادی کے تحفظ کا تعلق ہے تو یہ بھی محض مغالطہ ہے کیوں کہ رائے کی آزادی کے حوالے سے بھی مسلم برادری کبھی رکاوٹ ثابت نہیں ہوئی،چنانچہ ضرورت اس امر کی ہے کہ اول تو عالم اسلام یورپ میں مسلمانوں کے خلاف کیے جانے والے اقدامات کو روکنے کے لیے اپنا اثر رسوخ استعمال کرے اور یہ عالم اسلام کے مقتدر حلقوں کا فرض بنتا ہے کہ وہ فرانس سمیت دیگر یورپی ملکوں کے مسلمانوں کو اس طرح بے یار و مددگار نہ چھوڑیں جیسا کہ کبھی اسپین کے مسلمانوں کو چھوڑ دیا گیا تھا۔