کہتے ہے کہ اک دفعہ امام الہند مولانا آزاد رح سٹیج پر تشریف فرماء تھے کہ اک صاحب نے آکر کان میں سرگوشی کی کہ حضرت نیچے پنڈال میں کچھ لوگ آپ کے متعلق پروپیگنڈا پھیلا رہے ہیں کہ فلاں کیساتھ آپ کے غلط تعلقات ہیں اسلیے مناسب ہے کہ آپ لاوڈ سپیکر پر اس بات کی وضاحت کرے تاکہ لوگوں کے قلوب میں آپ کے متعلق بدگمانی پیدا نہ ہو یہ بات سن کر امام الہند نے اُس سے کہا کہ میں ایسا ہرگز نہیں کروں گا کیونکہ جن لوگوں کواس بات کا علم نہیں وضاحت کرنے سے اُن کو بھی معلوم ہو جائگا اسلیے اُن کو ایسا کرنے دے ہاں جب مجھے اطمینان ہے کہ مجھ میں ایسی کوئی بات نہیں تو مجھے کوئی پرواہ نہیں اسلیے جو جی میں آئے اُن کو کرنے دے _ چند ماہ پہلے یہ واقعہ پڑھ کر میں نے دل میں یہی عہد کیا کہ اس بار” آٹھ مارچ یوم خواتین” پر ہرگز نہیں لکھوں گا کیونکہ چند لبرلز آنٹیوں کے عمل پر ردعمل دکھاتے ہوئے بسا اوقات انکے تشہیر کا سبب ہم ہی بنتے ہیں اور جن کو سرے سے اس بابت کچھ بھی معلوم نہیں ہوتا اُنکو مکمل معلومات فراہم کرنے کا ذریعہ ہم ہی بنتے ہیں_ لیکن ناس ہو آٹھ مارچ تو کیا اس بار یہ مسلہ تو عین اک ہفتہ پہلے اس قدر زور وشور سے اُٹھا کہ نہ چاہتے ہوئے بھی اس پر رد عمل کی اشد ضرورت محسوس ہوئی کیونکہ اسکے علاوہ کوئی دوسرا آپشن نہیں تھا جسے اختیار کیا جاتا_
ہمارے ہاں کچھ مغربیت زدہ ذہنیت اور لنڈے کے لبرلز نے "میرا جسم میری مرضی کے وہ عجیب وغریب مفاہیم ومطالب بیان کیے کہ خود اس نعرے کے واضعین بھی اس پر متحیر وانگشت بدنداں ہیں کہ یہ مطالب تو ہمارے فہم میں بھی نہیں تھے کہ بوقت ضرورت اسے نکالتے_
یہ نعرہ اصلاً کس مفہوم کے لیے وضع کیا گیا تھا؟اسکا غرض وغایت کیا تھا؟اس نعرے کا مکمل پس منظر،تہہ منظر اور پیش منظر اگر کوئی قاری تفصیل سے جاننا چاہے تو اسلامی فقہ اور قانون پر گرفت رکھنے والے ڈاکٹر مشتاق صاحب کی اعتدالیت اور وسطیت سے بھری تحاریر کا مطالعہ کیجے جس میں "الف”تا "یا "سب کچھ واضح کیا گیا ہے ڈاکٹر صاحب کے تحریروں کا مختصر خلاصہ اور مفہوم یہ ہے کہ اس نعرہ کو اس لیے وضع کیا گیا تھا کہ عورت کو اپنے پیٹ کے متعلق یہ فیصلہ کرنے کا حق ہے کہ وہ اس میں بچہ رکھے یا گرائے با الفاظ دیگر اسقاط حمل کو قانونی تحفظ فراہم کیا جائے بسسسسس_
اسی کو سامنے رکھتے ہوئے کسی بھی باشعور انسان کے لیے یہ اندازہ لگانا چنداں مشکل نہیں کہ اس کے پس پردہ محرکات کیا ہیں یہی نا کہ زناء کو فروغ ملے گا کیونکہ عورت پر کوئی پابندی نہیں ہوگی جو جی میں آئے اور جس کیساتھ جانا چاہا کوئی مائی کا لال اُس پر قد غن نہیں لگاسکے گا_ حالانکہ انہی قبیح صفات سے خود یورپی معاشرے کے لوگ تنگ آگئے ہیں
کیونکہ اُنکا خاندانی نظام مکمل طور پر مفلوج ہوکر رہ گیا ہے اور اس بات کا اعتراف وہ خود کئ بار ببانگ دُہل کرچکے ہیں_
پڑھیے گوربا چورف کیا کہتا ہے
” ہم نے عورت کو گھر سے نکال کر دفتر اور فیکٹریاں تو آباد کر لیں لیکن اپنا فیملی سسٹم تباہ کر لیا اور اب عورت کو واپس گھر لے جانے کا کوئی راستہ نظر نہیں آرہا_
مسز ہیلری کلنٹن نے اپنے دورۂ اسلام آباد میں اک گرلز سکول کا دورہ کیا تھا وہاں پر زیر تعلیم لڑکیوں سے جب مسائل دریافت کیے تو کسی نے کہا میرے لیے سکول فیس اداء کرنے کا مسلہ ہے تو کسی نے کہا غربت کی وجہ سے میں ٹیوشن نہیں کرسکتی اس پر مہمان خاتون نے جب حیرت کا اظہار کیا کہ یہ تو کوئی مسائل ہے ہی نہیں تو اس پر جماعت میں موجود خدیجہ نامی اک طالبہ نے استفسار کیا کہ آپ کے ہاں پھر بڑے بڑے مسائل کیا ہیں؟ تو جواب میں مسز ہیلری کلنٹن نے کھلم کھلا کہا کہ امریکی معاشرے کا سب سے بڑا مسئلہ لڑکی کا کنوارپن میں ماں بن جانا ہے کیونکہ ہمارے ہاں دسویں جماعت کی طالبات حاملہ بن جاتی ہیں لیکن اس سب کچھ کے باوجود دوسری طرف مغربی دانشور اس آگ کو اسلامی ممالک میں بھڑکانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں اور اسی دلدل میں مسلمان خواتین کو دھنسانے اور پھنسانے کی کوشش کر رہے ہیں جس میں ہمارے ہاں بعض ناعاقبت اندیش خواتین بخوشی کھودنے کے لیے بے تاب ومظرب ہیں جو کہ حیرت کیساتھ ساتھ انتہائی افسوس کا مقام ہے_
جہاں تک خواتین کے جائز حقوق اور ان کے صحیح اور شایان شان معاشرتی مقام و مرتبہ کا تعلق ہے تو یہ بات شک و شبہ سے بالاتر ہے کہ دنیا میں اس وقت کسی جگہ بھی مجموعی طور پر خواتین کو معاشرہ میں وہ مقام و حیثیت حاصل نہیں ہے جو حوا کی ان بیٹیوں کا جائز اور فطری حق ہے۔
مثلاً میراث،پسند کی شادی،تعلیم وتعلم اور اہم اُمور میں اُن سے مشاورت وغیرہ وغیرہ لیکن مارچ کے بنیادی سلوگن مین ایسی کوئی بات تو شامل ہی نہیں جس پر ان خواتین کا ساتھ دیا جائے بلکہ یہاں پر تہذیب وتمدن کی دھجیاں اُڑائی جاتی ہے پلے کارڈز پر وہ بے ہودہ اور متعفن جملے لکھے گئے ہیں کہ آدمی کا سر شرم کے مارے جھک جاتا ہے کوئی مہذب آدمی نہ تو اُسے زبان پر لاسکتا ہے اور نہ قلم پر_
یادر کھیے۔۔۔! جب تک پاکستان میں فزندان اسلام زندہ ہونگے ان میں سے کوئی بھی مطالبہ پورا نہیں ہونے دینگے ان شاء اللہ ہاں اس کا جو سب سے بڑا نقصان ہوگا وہ خواتین کے اُس ٹولے کا ہوگا جو بنیادی حقوق کے لیے مختلف فورمز پر شریعت کے حدود کے اندر رہتے ہوئے آواز اٹھاتی ہے لیکن ان چند لبرلز آنٹیوں کے بے ہودہ غبار نے اُنکے موقف پر مٹی ڈال کر اُسے چھپانے کی مذموم کوشش کی۔۔۔
ضرورت ہیں کہ مرد وخواتین ملکر حصہ بقدر جثہ ڈال کر اس بے ہودگی کو ناکام بنائے اور ہاں ان دونوں جنسوں میں باحیاء خواتین کی آواز بمقابلہ مرد زیادہ توانا ثابت ہوگی۔۔۔۔۔۔!
اللہ رب العزت سے دعاء ہیں کہ وہ ہم سب کو عفت وپاکدامنی کی زندگی نصیب فرمائیں۔۔۔۔!آمین یارب العالمین
میراجسم میری مرضی (رضوان اللہ باجوڑی)
You might also like