جس شخصیت نے علم حدیث کے انوارات سے ہندوستان بھر کومنور کیا ان کا نام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒہیں مغلیہ سلطنت کاآفتاب لبِ بام تھا،مسلمانوں میں رسوم وبدعات کا زور تھا،جھوٹے فقراء اور مشائخ اپنے بزرگوں کی خانقاہوں میں مسند بچھائے اور اپنے بزرگوں کے مزاروں پر چراغ جلائے براجمان تھے۔مدرسوں کا گوشہ گوشہ منطق وحکمت کے ہنگاموں سے پرشورتھا فقہ وفتاویٰ کی لفظی پرستش ہرمفتی کے پیش نظرتھی،مسائل فقہ میں تحقیق وتدقیق سب سے بڑامذہبی جرم تھا عوام تو عوام خواص تک قرآن پاک کے معنی ومطالب،احادیث کے حکام،اور ارشادات فقہ کے اسراومصالح سے بے خبرتھے۔حضرت امام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒنے علوم رسمیہ کا درس اپنے والد سے لیا حضرت مجددالف ثانی ؒکے پوتے شیخ افضل سرہندی ؒسے حدیث کا درس حاصل کیا۔ 1243ھ میں حجاز مقدس روانہ ہوئے اور دوبرس وہاں رہ کر شیخ ابوطاہر مدنی ؒسے کتب حدیث پڑھ کر سندفراغت حاصل کی۔1245ھ میں ہندوستان واپس آئے اور پورے تیس سال تک ہندوستان کو علوم حدیث کے ساتھ ساتھ دیگر علوم الہیہ اور جذبہ حریت سے مستفید فرمایا۔1276ھ میں وفات پائی۔عقائد اعمال کی اصلاح کی،قرآن پاک جو صرف تلاوت کے لئے مخصوص تھا،لوگوں کواس کے فہم وتعلیم کی دعوت دی اس کے درس کے حلقے قائم کئے، ہندوستان میں حدیث کے درس وتدریس کے باقاعدہ حلقے قائم کئے۔اسلام کو بطور نظام حیات دنیا کے سامنے پیش کیا۔فارسی میں قرآن پاک اور موطاامام مالک کی شرح لکھی،ازالۃ الخفا عن خلافۃ الخلفاء اورحجۃ اللہ البالغہ جیسی مفید کتابیں لکھیں۔شاہ صاحب کی اولاد میں شاہ عبدالعزیزمحدث دہلوی،ؒشاہ رفیع الدینؒ اور شاہ عبدالقادرؒ،شاہ عبدالغنیؒ علوم اسلامیہ سمندرگزرے ہیں، شاہ عبدالغنی ؒنے جلدی وفات پائی،ان کے صاحبزادے امام المجاہدین حضرت مولانا شاہ اسما عیل شہید ؒکے علمی،فکری اور جہادی کارناموں سے دنیا واقف ہے۔6مئی 1831ء کو اپنے پیرومرشد سید احمدشہیدؒکے ہمراہ بالاکوٹ میں سکھوں کے خلاف لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کرگئے۔ شاہ عبدالعزیز ؒنامور باپ کے نامور فرزند تھے، 1159 میں پیداہوئے،اپنے والد گرامی سے علوم دینیہ کی تکمیل کی فارسی میں قرآن پاک کی تفسیر لکھی،علوم حدیث کوفروغ دیا۔1239ھ میں وفات پائی۔شاہ رفیع الدین ؒنے اردومیں قرآن پاک کا ترجمہ لکھا،جس سے کروڑوں مسلمان مستفید ہوئے۔شاہ عبدالقادر کو فقہ وحدیث میں یدِ طولی حاصل تھا موضح القرآن کے نام سے قرآن پاک کی تفسیر لکھی اور حدیث کا درس جاری کیا۔شاہ ولی اللہ کا فیض سب سے زیادہ شاہ عبدالعزیز کے ذریعے پھیلا۔شاہ عبدالعزیز ؒکے شاگردوں میں بہت سارے مشاہیر پیداہوئے،جن میں قابل ذکر شاہ صاحب ؒکے داماد شیخ الاسلام حضرت مولانا عبدالحئی ؒ(مدفون مالاکنڈ)۔بھتیجے حضرت مولاناشاہ محمداسماعیل شہید،نواسے شاہ محمدیعقوب صاحب ؒ کے علاوہ مرزاحسن علی محدث لکھنو،مولاناحسین احمدمحدث ملیح آبادی ؒ،مولاناسلامت اللہ بدایوانی ؒ،مولانا روف احمد مجددیؒ،مفتی صدرالدین خان دہلویؒ،سید قطب الہدیٰ رائے بریلی ؒ،مولانا شاہ فضل الرحمن گنج مرادآبادیؒ،مفسرقرآن حضرت مولاناقاضی ثناء اللہ پانی پتی ؒ،مولانا خرم علی بلہوری،ؒپھر ان کے ہزاروں شاگردتھے۔حضرت مولاناشاہ رفیع الدین ؒکے شاگردوں میں ان کے صاحبزادے حضرت مولاناشاہ مخصوص اللہ ؒ،مولانا رشید الدین خان دہلوی ؒ،حضرت شاہ ابوسعدی مجددی دہلویؒ کے نام نمایاں ہیں۔حضرت مولانا شاہ عبدالقادرؒ کے تلامذہ میں مفتی صدرالدین خانؒ،اور مولانافضل حق خیرآبادیؒ نمایاں ہیں۔شاہ عبدالعزیز محدث دہلویؒکے بعد علم حدیث کے دوچراغ بہت زیادہ روشن ہوئے،ایک شاہ صاحب کے نواسے شاہ محمداسحق،ؒدوسرے شاہ ابوسعید ؒکے صاحبزادے حضرت مولانا شاہ عبدالغنی مجددیؒ۔ یہ بات بھی یاد رکھنے کی قابل ہے کہ شاہ محمداسحق کا تعلق شاہ ولی اللہ ؒکے خاندان سے ہے اور شاہ عبدالغنی کا تعلق حضرت مجددالف ثانی کی اولاد سے ہے۔دونوں کی حدیث کا فیض پوری دنیا میں پھیلاہواہے۔شاہ محمداسحق ؒکے تلامذہ میں مولانااحمدعلی سہارن پوریؒ،نواب صدرالدین خانؒ،نواب قطب الدین خان ؒ،مولانا سید نذیر حسین دہلوی ؒ،مولانا عالم علی مرادآبادیؒ،مولانا شیخ محمدتھانوی ؒ،مولاناشاہ فضل الرحمن گنج مرادآبادیؒ،مولانا قاری عبدالرحمن پانی پتی ؒشامل ہیں۔شاہ عبدالغنی ؒکے ممتازتلامذہ کی تعدادبے شمارہے ان میں سب سے زیادہ معروف ومشہور حجۃ الاسلام حضرت مولانامحمدقاسم نانوتوی ؒاور فقیہ الہند امام ربانی حضرت مولانا رشید احمدگنگوہی ؒہیں۔علمائے فرنگی محل میں سب سے پہلی ہستی جس کی تصانیف کتب حدیث کے حوالوں سے لبریزہیں وہ مولاناعبدالعلیؒ بحرالعلوم بن ملانظام الدینؒ کی ذات ہے۔مگرانہیں حدیث کی کتابوں کی باقاعدہ سند حاصل نہ تھی،نہ ان کے حالات میں اس کاذکر کہیں ملتاہے۔بلکہ علوم سے فراغت کے بعد انہوں نے محدثین کی کتابیں پڑھ کر اس فیض کو ازخود حاصل کیا تھا۔مولاناعبدالعلی ؒ(بحرالعلوم) کی عقلی تصنیفات جب دہلی میں مولانا شاہ عبدالعزیزؒ کی خدمت میں پہنچیں،تو حضرت شاہ صاحب ؒ نے دیکھ کر فرمایادینیات سے کورے ہیں۔یہ سن کر مولاناعبدالعلی ؒنے فقہ میں ارکانِ اربعہ لکھ کر بھیجی،جس میں محققانہ مسائل پر بحث اور احادیث کے حوالے تھے،اس کو دیکھ کر شاہ صاحب نے فرمایا ”اخا!ملاعبدالعلی تو بحرالعلوم ہیں“ایک ولی کامل کی زبان سے نکلا ہوالفظ ایسامقبول ہوا کہ لوگ عبدالعلیؒ نام بھول گئے اور ہرزبان پر بحرالعلوم جاری ہوا۔مولانابحرالعلومؒ کے علاوہ فرنگی محل کے علمائے متقدمین میں ملامبین ؒاور ان کے صاحبزادے ملاحیدرؒ محدثین کی صف میں نظرآتے ہیں،ملاحیدر اس خاندان کے پہلے شخص ہیں جنہوں نے حجازمقدس جاکر حدیث کی سند حاصل کی۔ان کے علاوہ اس خاندان میں مولاناعبدالرزاق ؒاور ان کے صاحبزادے مولاناعبدالباسط ؒاور مولاناحافظ عبدالوہابؒ ان حضرات میں شامل ہیں جنہوں علم حدیث میں مہارت حاصل کی۔علمائے فرنگی محل میں علم حدیث کے درس وتدریس کاباقاعدہ نظا م مولانابحرالعلوم کے صاحبزادے مولانا عبدالحلیم ؒ(والدمحترم مولاناعبدالحئی)کے زمانہ سے شروع ہوا۔مولاناعبدالحلیم ؒنے ہندوستانی علماء کے علاوہ حرمین شریفین شیوخ سے کتب حدیث کی سند حاصل کی۔جن میں احمدزینی دحلان شافعی ؒ،شیخ محمدبن جمال حنفیؒ،محمدبن محمدالعرب الشافعی ؒمدرس مسجد نبوی ﷺ اور مولاناشاہ عبدالغنی مجددیؒ وغیرہ شامل ہیں۔مولاناعبدالحلیمؒ کے صاحبزادے مولانامحمدنعیمؒ نہایت ہی متقی،زاہد اور بزرگانِ سلف کے یادگار تھے تعلیم سے فراغت کے بعد حجاز مقدس گئے اور وہاں سے سند حدیث حاصل کرکے درس وتدریس میں مشغول رہے،علم حدیث کے علاوہ دیگر علوم وفنون پر بے شمار کتب اور رسالے لکھے۔فرنگی محل میں علم حدیث کی معراج کمال مولاناعبدالحئی ؒکے دورمیں ہوئی۔اپنے والد مولاناعبدالحلیم ؒسے تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ دومرتبہ حجاز جاکر وہاں کے شیوخ سے سند حاصل کی۔ آپ نے بہت کم عمرپائی 1264ھ میں پیداہوئے اور 1304ھ میں وفات پائی۔چالیس سال عمر پائی مگر اس مختصر زمانہ میں مرحوم کے درس وتدریس،تالیف وتصنیف اور تحقیق وتدقیق کی شہرت نہ صرف ہندوستان بلکہ دنیائے اسلام میں پھیل گئی۔دنیاکے مختلف اطراف سے تشنگانِ علوم دینیہ آپ کے آستانے پرجمع ہوئے۔دیگر علوم وفنون کے ساتھ تمام کتب حدیث کا درس بڑی تحقیق کے ساتھ آپ کی درس گاہ میں ہوتاتھا۔آپ نے علوم وفنون کے علاوہ علم حدیث پر متعددکتب کی تصنیف اور اشاعت کا اہتمام کیا اور آپ نے علم حدیث کے بڑے بڑے ماہرین پیداکئے۔علمائے فرنگی محل کے سب سے آخری تاجدارعلم وحدیث حضرت مولانا عبدالباری صاحب ؒتھے،آپ نے مولاناعبدالحئی صاحب ؒسے کتابیں پڑھیں،اس کے بعد حجاز مقدس جاکر علم حدیث کی تکمیل کی۔مدینہ منورہ میں حضرت مولاناعبدالغنی مجددی ؒکے شاگردوں سید محمدعلی اثریؒ اور شیخ رحمت اللہ ؒسے سند حاصل کی۔آپ کئی کتابوں کے مصنف بھی ہیں،1345ھ میں وفات پائی۔حضرت شاہ عبدالغنی مجددیؒ اور مولانااحمدعلی سہارن پوریؒ کے تلامذہ میں سے جنہوں نے سب سے زیادہ شہرت پائی اور اجن کے ذریعے سب سے زیادہ علم حدیث کی نشرواشاعت ہوئی وہ حجۃ الاسلام حضرت مولانامحمدقاسم نانوتویؒ اور فقیہ الہند حضرت مولانارشید احمدگنگوہیؒ ہیں۔جن کی جدوجہد کے نتیجے میں 30مئی 1866ء کو دیوبند کے مقام پر ایک عظیم الشان دینی ادارہ وجود میں آیا جس کودنیا ”دارالعلوم دیوبند“ کے نام سے یادکرتی ہے۔ اس دارالعلوم سے جس شخصیت نے عالمگیر شہرت پائی اور جس کے شاگردپوری دنیا میں پائے جاتے ہیں وہ شیخ الہندحضرت مولانامحمود حسن دیوبندیؒ ہیں۔حضرت شیخ الہندؒنے دارالعلوم دیوبند سے فراغت کے بعد اسی دارالعلوم میں ۴۴سال تک درس وتدریس کا سلسلہ جاری رکھا،ہزاروں محدثین نے آپ سے علم حدیث کی تکمیل کی سعادت حاصل کی ان میں چند اکابرعلمائے کرام اور محدثین عظام کے نام یہ ہیں۔رئیس المحدثین حضرت مولاناسید انورشاہ کشمیری ؒشیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند۔شیخ المشائخ حضرت مولاناخلیل احمدسہارن پوریؒ شیخ الحدیث جامعہ مظاہر العلوم سہارن پور۔شیخ العرب والعجم حضرت مولاناسید حسین احمدمدنی ؒشیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند،شیخ الحدیث حضرت مولانافخرالدین احمدمرادآبادی ؒشیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند۔مفتی اعظم ہندحضرت مولانا مفتی کفایت اللہ دہلوی ؒ،شیخ الحدیث جامعہ امینیہ دہلی۔حکیم الامت حضرت مولانااشرف علی تھانوی ؒ،تھانہ بھون۔حضرت مولانامحمدالیاس دہلویؒ بانی تبلیغی جماعت۔حضرت مولاناعبیداللہ سندھی ؒ۔حضرت مولاناسید اصغرحسین دیوبندیؒ۔شیخ الاسلام حضرت مولاناشبیر احمدعثمانی ؒ۔ان میں ہرایک کے ہزاروں اور ان کے لاکھوں شاگرد دنیا بھر میں علوم اسلامیہ اور احادیث نبویہ ﷺکی خدمت میں دن رات مصروف عمل ہیں۔ حضرت مولاناسید انورشاہ کشمیری کے ممتازتلامذہ میں فخرالمحدثین شیخ الاسلام حضرت مولانامحمدیوسف بنوی ؒکے علاوہ ہزاروں شاگرد دنیاکے مختلف ممالک میں پھیلے ہوئے ہیں۔پھر آگے ان کے شاگردوں کی تعدادلاکھوں سے بھی زیادہ ہے۔شیخ الاسلام حضرت مولاناسید حسین احمدمدنی ؒنے 18سال تک مسجد نبوی ﷺمیں حدیث نبوی پڑھانے کی سعادت حاصل کی اس کے بعد فرنگی حکومت کے ہاتھوں اپنے استاذحضرت شیخ الہندؒکے ساتھ مالٹامیں قید وبند کی صعوبتیں برداشت کرکے رہاہوئے تو ہندوستان کی عظیم الشان دارالعلوم دیوبند میں شیخ الحدیث کے منصب پر فائز ہوئے۔جہاں ان سے بے شمار علماء نے علم حدیث کی روشنی حاصل کی۔جن میں شیخ الحدیث حضرت مولاناعبدالحق ؒاکوڑہ خٹک،استاذمکرم امام اہل سنت شیخ الحدیث حضرت مولانامحمدسرفرازخان صفدرؒشیخ الحدیث جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ۔استاذمکرم شیخ الحدیث مفسرقرآن حضرت مولاناصوفی عبدالحمید خان سواتی باؒنی ومہتمم جامعہ نصرۃ العلوم۔شیخ الحدیث حضرت مولاناسلیم اللہ خان ؒسابق صدروفاق المدارس العربیہ کے علاوہ بے شما رمحدثین مشرق ومغرب میں پھیلے ہوئے ہیں۔ حضرت شیخ الہند کے شاگردوں میں ایک مولانانصیرالدین غورغشتی ہیں جنہوں نے حضرت شیخ الہندسے تلمذحاصل کرنے کے بعد غورغشتی]ضلع اٹک[ واپس تشریف لاکر درس حدیث کا آغازکیا،آپ کو پٹھانوں کا شاہ ولی اللہ بھی کہاجاتا ہے۔ آپ سے تقریباً پانچ ہزارطلباء نے براہ راست حدیث شریف پڑھی ہے۔مفتی اعظم ہند مولانامفتی کفایت اللہ دہلویؒ کے شاگردانِ رشید میں جلیل القدر محدثین کے علاوہ سحبان الہند حضرت مولانااحمدسعید دہلوی ؒناظم عمومی جمعیت علماء ہند شامل ہیں۔ مولاناخلیل احمدسہارن پوری ؒکے ممتازتلامذہ میں دیگرمحدثین کے علاوہ برکۃ العصرشیخ الحدیث حضرت مولانامحمدزکریاصاحبؒ مہاجر مدنی شامل ہیں،جن کی کتاب فضائل اعمال پوری دنیا میں قرآن پاک کے بعد سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب ہے۔ پھر ان کے اور ان کے شاگردوں کے شاگرد لاکھوں کی تعدادمیں دنیا میں علم حدیث کی خدمت میں مصروف ہیں۔ مولانافخرالدین احمدمرادآبادی ؒکے عظیم شاگردوں میں دیگر بڑے بڑے محدثین کے علاوہ مفکر اسلام شیخ الحدیث حضرت مولانامفتی محمود،ؒپھر آگے ان کے شاگردوں کی تعدادبے شمار ہے۔حضرت شیخ الہندکے ممتازتلامذہ میں استادالکل جامع المعقول والمنقول شیخ الحدیث حضرت مولانارسول خان ؒ]اچھڑیاں مانسہرہ[بھی شامل ہیں جو دارالعلوم دیوبندکے بعد جامعہ اشرفیہ لاہورکی مسندحدیث پرجلوہ افروزہوئے اور ہزاروں محدثین کے استادبنے،آپؒ اورنٹیل کالج پنجاب یونیورسٹی میں شعبہ عربی کے مدرس بھی رہے۔ حضرت شیخ الہندؒکے شاگردوں ایک شیخ الحدیث حضرت مولاناعبدالرحمن کامل پوریؒ بھی ہیں،جنہوں نے مولاناخلیل احمدسہارنپوریؒ کے بعدجامعہ مظاہرالعلوم سہارن پور میں مسند حدیث سنبھالی،قیام پاکستان کے بعد جامعہ خیرالمدارس ملتان اور پھر دارالعلوم اسلامیہ ٹنڈوالہ یار کے مسندحدیث کی زینت بنے رہے اور ہزاروں علماء کو مسند حدیث کا اہل بنایا۔ پاکستان کی سرزمین پر جن محدثین نے علم حدیث کی خدمت کی ہے ان کی تعدادہزاروں سے متجاوز ہے۔حافظ الحدیث حضرت مولاناعبداللہ درخواستی ؒجن کو ایک لاکھ سے زائد حدیثیں زبانی یاد تھیں۔ان کے شاگردوں میں ہزاروں محدثین نے حدیث کی نشرواشاعت میں زندگیا ں کھپائی ہیں۔آج برصغیرپاک وہندکے علاوہ دنیا بھر میں ان محدثین کے شاگردوں اور ان کے شاگردوں کے شاگردوں کی ایک بڑی تعدادامام الانبیاء فخرالرسل،سیدالاولین والآخرین، حضرت محمد مصطفی ﷺکی آحادیث کی خدمت میں لگی ہوئی ہے۔پاکستان میں جن محدثین کے ہزاروں شاگردعلم حدیث کی خدمت میں مصروف عمل ہیں ان میں چند نمایاں نام ہیں،شیخ الحدیث حضرت مولانامحمدیوسف بنوری،شیخ الحدیث حضرت مولانانصیرالدین غورغشتی،شیخ الحدیث حضرت مولانا عبدالرحمن کامل پوری،شیخ الحدیث حضرت مولانارسول خان ہزاروی،شیخ الحدیث حضرت مولاناخیرمحمدجالندھری،شیخ الحدیث حضرت مولاناسرفرازخان صفدر،شیخ الحدیث حضرت مولانا قاضی شمس الدین،شیخ الحدیث حضرت مولاناعبدالحق،شیخ الحدیث حضرت مولانامفتی محمود،شیخ الحدیث حضرت مولاناعبداللہ درخواستی،شیخ الحدیث حضرت مولاناعبدالقدیر مومن پوری،شیخ الحدیث حضرت مولانامحمدادریس کاندہلوی،شیخ الحدث حضرت مولاناسلیم اللہ خان رحمہم اللہ شامل ہیں،جامعہ سراج العلوم مانسہرہ بھی ان علمی مراکز میں ایک قابل اعتماد مرکز ہے جہاں علم حدیث کی درس وتدریس کاسلسلہ کئی سالوں سے جاری ہے،جس کے بانی ومہتمم فخرالسادات،استاذالعلماء،سلطان المشائخ،ولی کامل شیخ الحدیث حضرت مولاناسیدغلام نبی شاہ صاحب دامت برکاتہم العالیہ ہیں،حضرت شاہ صاحب اکابر واسلاف کی وہ نشانی ہیں،جن کی تمام زندگی دین اسلام کی جدوجہد میں گزرگئی،ہزارہ کی سرزمین پر درس وتدریس،تعلیم وتعلم،وعظ ونصیحت،سیاست وسیادت کے مقبول ناموں میں حضرت شاہ صاحب کا نام سرفہرست ہے،ان کا قائم کردہ دینی مدرسہ جامعہ سراج العلوم جو پہلے جبوڑی میں دینی علوم کی ترویج میں مصروف تھااور 2005ء کے قیامت خیززلزلہ کے بعد مانسہرہ منتقل ہوگیا،صرف مانسہرہ نہیں بلکہ ہزارہ کی دھرتی کا عظیم دینی ادارہ ہے جہاں صبح وشام قال اللہ اور قال الرسول ﷺ کی صدائیں بلند ہوتی ہیں،جہاں قوم کے بچوں زیور تعلیم سے آراستہ کیاجاتا ہے،جہاں سے بڑے بڑے علماء،محدثین،صوفیاء،مقررین،واعظین،مبلغین مصنفین،مدرسین،خطباء،موحدین، مجاہدین اور زعمائے ملت پیداہوتے ہیں۔گزشتہ سال اپریل کے مہینہ میں ایک عظم اور دلدوز سانحہ پیش آیا کہ خطیب اسلام،مقررشیریں بیان حضرت مولاناشاہ عبدالعزیز رحمہ اللہ دنیاسے رخصت ہوئے،جن کی خوبصوت آواز نہ صرف پاکستان کی سرزمین پر گونجتی تھی بلکہ ایشیاء ویورپ کے بہت سے ممالک میں خوابیدہ دلوں کوجگاتی تھی،ان کی اچانک موت سے جہاں لاکھوں لوگوں کو صدمہ ہوا وہاں ان کے ضعیف،بیماراور بوڑھے والد کو اس صدمے نے نڈھال کر رکھ دیا،کچھ عرصہ قبل مولاناشاہ عبدالعزیز مرحوم کی اہلیہ محترمہ کی موت نے ان زخموں کو اور گہرا کردیا،اللہ تعالیٰ دونوں مرحومین کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مراتب سے نواز دے،حضرت شاہ کے چمن میں آج ایک بار پھر بہار کاسماں ہے،جس کے مہمان خصوصی شاہین ختم نبوت حضرت مولانااللہ مدظلہ ہیں،سالانہ تقریب ختم بخاری ودستار فضیلت کااجتماع شیخ الحدیث حضرت سیدغلام نبی شاہ مدظلہ العالی کی محنتوں،کاوشوں اور سحرخیزیوں کا وہ ثمر ہے جو بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتا ہے۔