کالم ناتمام : "عورت مارچ” (مولانا مجاہد خان ترنگزئی)

0

تاریخ عالم پر نظر دوڑائی جائے تو یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ اسلام سے قبل دنیا کے مختلف معاشروں میں عورت کے حقوق کو پامال کیا جاتا تھا،اور عورت کواس کا جائز مقام بھی نہیں دیا جاتا تھا۔ فرانس میں عورت کے بارے میں یہ تصور تھا کہ عورت کے اندر آدھی روح ہوتی ہے، پورے انسان کی روح نہیں ہوتی، اسلیئے معاشرہ میں برائی کی وجہ اور بنیاد عورت ہے۔ چائنہ کے اندرعورت کے بارے میں یہ تصور تھا کہ عورت کے اندر شیطانی روح ہوتی ہے اس لیئے پورے معاشرے میں فساد کی بنیاد یہی بنتی ہے۔ عیسائیت میں چونکہ رہبانیت تھی تو ان کے علماء کہتے تھے کہ ازدواجی زندگی بسر کرنا اللہ کی معرفت حاصل کرنے میں رکاوٹ ہے، چنانچہ ان کی تعلیم تھی کہ مرد رہبر بن کر رہیں اور عورتیں ننز(Nuns)بن کر رہیں، مجرد زندگی گزاریں کے تو معرفت نصیب ہوگی۔ ہندو ازم میں اگر کسی جوان عورت کا خاوند فوت ہوجاتا تو اس کو بدبخت سمجھا جاتا تھا۔ حتی کہ اگر اس کے خاوند کی لاش کو جلایا جاتا تو وہ عورت زندہ اس کے اندر چھلانگ لگا کر مرجایا کرتی تھی، ستی ہوجایا کرتی تھی۔ اور اگر ایسا نہ کرتی تو اسے معاشرے میں عزت ووقار کے ساتھ رہنے کی اجازت نہیں ہواکرتی تھی۔
عرب میں اسلام سے قبل عورت کے حقوق کو اس قدر پامال کیا جاچکا تھا کہ لوگ اپنے گھر میں بیٹی کا پیدا ہونا برداشت نہیں کرسکتے تھے۔ لہذا معصوم کلیوں کو زندہ درگور کردیا جاتا تھا۔ اور عورت کے حقوق کوا س قدر چھین لئے گئے تھے کہ اگر کوئی آدمی فوت ہوجاتا تھا تو جس طرح اس کی جائیداد اس کے بڑے بیٹے کو وراثت میں آتی تو اس کی بیویاں بھی اس کے بڑے بیٹے کی بیویوں کے طور پر منتقل ہوجاتی تھیں گویا اس کا بڑا بیٹا اپنی ماؤں کو اپنی بیویاں بنالیتا تھا۔
الغرض یہ تو چند مثالیں میں نے آپ کے سامنے رکھی ورنہ دنیا کے ہر قوم وخطہ میں کوئی ایسا جگہ نہیں تھی، جہاں عورتوں پر ظلم کے پہاڑ نہ ٹوٹے ہوں۔ لوگ اسے اپنے عیش وعشرت کی غرض سے خرید وفروخت کرتے، ان کے ساتھ حیوانوں سے بھی برا سلوک کیا جاتا تھا۔ دنیا کے اکثر تہذیبوں میں عورت کی سماجی حیثیت نہیں تھی، اسے حقیر وذلیل نگاہوں سے دیکھاجاتا تھا۔ اس کے معاشی وسیاسی حقوق نہیں تھے، وہ آزادانہ طریقے سے کوئی لین دین نہیں کرسکتی تھی۔ وہ باپ کی پھر شوہر کی اور اس کے بعد اولاد ِ نرینہ کی تابع اورمحکوم تھی۔ اس کی کوئی اپنی مرضی نہیں تھی اور نہ ہی اسے کسی پر کوئی اقتداد حاصل تھا؛ یہاں تک کہ اسے فریاد کرنے کا بھی حق حاصل نہیں تھا۔
جب اللہ کے پیار ے محبوب ﷺ دنیا میں تشریف لائے، تو آپ ﷺ نے آکر دنیا کو واضح کیا کہ اے لوگو! عورت اگر بیٹی ہے تو یہ تمہاری عزت ہے، اگر بہن ہے تو تمہارا ناموس ہے، اگریہ بیوی ہے تو تمہاری زندگی کی ساتھی ہے، اگر ماں ہے تو تمہارے لیئے اس کے قدموں میں جنت ہے، اور یہ بھی فرمایا کہ جس آدمی کی دو بیٹیاں ہوں، وہ ان کی اچھی تربیت کرے، ان کوتعلیم دلوائے حتٰی کہ ان کا فرض ادا کرے تو یہ جنت میں ایسے ہوگا میرے ساتھ جیسے ہاتھ کے دوانگلیاں ایک دوسرے کے ساتھ ہوتی ہیں۔ تو گویا بیٹی کے پیدا ہونے پر جنت کا دروزاہ کھلنے کی بشارت دی گئی۔ اور اللہ نے اپنے کلام میں عورت کویہ مقام عطاء فرمایا ہے کہ جو کوئی بھی نیک عمل کرے، مرد ہویا عورت اور وہ ایمان والاہو تو ہم اس کو ضرور بالضرور پاکیزہ، طیب زندگی عطا فرمائیں گے۔ تو جس طرح مرد نیکی اور عبادت کرکے اللہ رب العزت کے ولی بن سکتے ہیں، عورتیں بھی اس طرح نیکی اور عبادت کے ذریعے ولایت کے انوارات حاصل کرسکتی ہیں۔ چنانچہ دین اسلام نے عورت کو ایک وقار عطا کیا ہے جو دنیا آج تک عورت کو نہیں دے سکی۔ ایسا وقار کہ اس کو گھر کے اندر عزت کی نظر اور ملکہ کے طور پر دیکھا جائے اور معاشرہ کے اندر احترام کی حیثیت دی جائے۔
لیکن افسوس آج کے نئے دور، مخلوط نظام تعلیم، لبرل لابی کے دلدادہ نیم برہنہ عورتوں کے غلیظ نعرے میری جسم میری مرضی لگانے والے اور اسلام دشمن قوتوں نے ایک ایسا پروپیگنڈہ شروع کردیا ہے کہ جس کی وجہ سے وہ مسلمان عورتوں کویہ باور کرانے کی ناکام کوشش کرتے ہیں کہ اسلام نے ان پر بہت ذیادہ پابندیاں لگادی ہیں۔ اور ہمارے معاشرے کے کئی پڑھی لکھی مستورات، خواتین، بیٹیاں اور بہنیں وہ بھی غلط فہمی کا شکار ہوجاتی ہیں اور یہ سمجھتی ہیں کہ شاید ہمیں ہمارے جائز حقوق نہیں دیئے گئے اور پھر اس پروییگنڈہ کو ہر سال 8 مارچ کو عورت آزادی مارچ کے نام سے خوب اُچھالا جاتا ہے۔اور اس مارچ کے بہانے لبرل اور بے حیاء لڑکیاں اور خواتین نکل کر اسلام کے قوانین واحکام اور ملک پاکستان کے باپردہ ماحول کے خلاف نعرہ بازی کرتی ہیں۔ بینرز پر بے حیاء اور فحش جملے لکھے ہوتے ہیں اور ناچ گانوں کے مخلوط ملاپ میں یہ پیغام دے رہے ہوتے ہیں کہ ہم ہی وہ بے حیاء اور آزاد عورتیں ہے۔ اور اس بار تو اس لبرل عورتوں نے ساری حدیں پار کرتے ہوئے نبی کریم ﷺ اور اولیاء کرام کے شان میں گستاخی بھی کی ہے۔ یہ ایجنڈا اسلام دشمن قوتوں کا ہے۔ جو اب سارے مسلمانوں اور محب وطن شہریوں کو سمجھ میں آیا۔
حالانکہ مندرجہ بالاسطور میں یہ بات واضح ہوئی کہ اسلام میں عورت کو جو مقام ومرتبہ ملاہے وہ کسی مذہب وتہذیب میں نہیں ملا۔ عورت کو اگر پردے کا حکم دیاگیا ہے اس میں مردوں اور عورتوں دونوں کا فائدہ ہے کہ اذدواجی زندگی پرُسکون اور خوشگوار رہتی ہے۔اسی طرح اسلام نے عورت پر روزی کمانا فرض نہیں کیا ہے۔ بیٹی ہے تو باپ کا فرض ہے کہ وہ بیٹی کو روٹی کماکر کھلائے، اگر بہن ہے تو بھائی کا فرض ہے کہ کماکرلائے اور اگر بیوی ہے تو خاوند کا فرض ہے کہ کماکرلائے اور بیوی گھر کی ملکہ بن کر بیٹھے۔اگر ماں ہے تو اولاد کی ذمہ داری ہے کہ وہ کمائے اور اپنی ماں کو لاکر کھلائے۔ گویا عورت کو پوری زندگی شرع نے روزی کمانے کا بوجھ عطا نہیں کیا۔ اسی طرح اسلام نے عورت کے ساتھ نرمی کا معاملہ کرنے پر زور دیا ہے، کیونکہ مرد کو اللہ تعالیٰ نے طاقت دی ہے اور سختی برداشت کرسکتا ہے۔ تو یہ پروییگنڈہ غلط ہے کہ جی دین اسلام میں تو عورت پر پابندیاں بہت ہیں۔
مغرب کے بے پردہ، تاریک ترمعاشرے اور بے حیائی کے دلدل میں پھلنے والوں کی ایک جھلک ملاحظے کیجئے۔
دنیا کاایک ملک جس کا نام سویڈن ہے برطانیہ کے بالکل قریب، یہ اتنا امیر ملک ہے کہ ہمارے ملکوں میں خسارہ کا بجٹ ہوتا ہے جبکہ اس ملک میں نفع کا بجٹ ہے۔ ہم یہ سوچتے ہیں کہ پیسہ آئے گا کہاں سے اور وہ سوچتے ہیں کہ پیسہ لگائیں کہاں پہ۔ اتنے امیر کہ اگر پورے ملک کے مرد،عورت،بچے،بوڑھے، کام چھوڑ دیں فقط کھائیں پئیں عیش وعشرت کرتے رہیں توقوم چھ سال تک اپنے پڑے ہوئے خزانے کو کھاسکتی ہے۔ اس قدر امیر ہے کہ اگر کوئی آدمی نوکری نہیں دھونڈپاتا تو وہ صرف حکومت کو اطلاع دے تو اس کو گھر بیٹھے ہوئے 20ہزار روپے ماہانہ مل جایا کرے گا۔حکومت اس کو مکان لے کردیتی ہے۔ بیمار ہونے سے لے کر اس کے مرنے تک اس کی بیماری پر لاکھ روپیہ لگے یا کروڑ روپیہ لگے حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کا علاج کروائے۔
ان کی روٹی کپڑے اور مکان کا مسئلہ تو حل ہوگیا۔ باقی رہ گئیں انسان کی خواہشات، وہ اس ملک میں حد تک پوری ہوتی ہے کہ اس کو sex free country کہا جاتا ہے۔ وہ جانوروں کی طرح مرد عورت ایک ساتھ جہاں چاہیں جب چاہیں ملیں ان پر کوئی پابندی نہیں تو اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ جن کو روٹی، کپڑے، مکان کی فکر نہیں، جن کی خواہشات مرضی کے مطابق پوری ہوتی ہوں ان کو تو پیچھے کوئی غم نہیں ہونا چاہئے تھامگر دو باتیں بہت عجیب ہیں۔ سب سے پہلی بات یہ ہے کہ اس معاشرے میں طلاق کی شرح 70 فیصد سے زائد ہے۔ گویا 100 میں سے 70 گھروں سے زیادہ گھروں میں طلاق ہوجاتی ہے۔ اور دوسری بات یہ کہ اس معاشرہ میں خودکشی کرنے والوں کا تناسب پوری دنیا سے زیادہ ہے جتنے لوگ وہاں خود کشی کرتے ہیں پوری دنیا میں کسی ملک میں نہیں کرتے۔ اب جب روٹی، کپڑے، مکان کا مسئلہ حل ہوگیا تو پیچھے خودکشی کرنے کا مطلب؟ مقصد یہ کہ دلوں میں سکون نہیں ملتا۔ گھروں میں طلاقیں ہوجاتی ہے۔ اس بے حیائی، بے پردگی کی وجہ سے سکون نہیں ملتا۔ مرد بھی بہتر سے بہترین کی تلاش میں اور عورت بھی خوب سے خوب ترکی تلاش میں۔ چنانچہ سکون کی زندگی کسی کو بھی نصیب نہیں ہوتی۔ جس ماحول میں 70 فیصد سے زیادہ عورتوں کو طلاق ہوجائے وہاں کسی کو خوشی ہوگی؟ چنانچہ آج وہ Depression کی زندگی گزارتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں ہمارا خستہ حال معاشرہ دیکھے کہ روٹی، کپڑا اور مکان کی کمی ہوگی مگر اسلام کے بنیادی احکام پر کچھ نہ کچھ پابندی اب بھی باقی ہے تو سکون بھی اب تک ہے اور 100میں سے 0.7 فیصد بھی طلاق یافتہ لوگ نظر نہیں آتے۔ یہی حقیقت ہے اور عورت مارچ والے لبرل اور آزاد مادر پدر طبقے کے منہ پر طمانچہ ہے۔

You might also like
Leave A Reply

Your email address will not be published.