انسانی بنیادی حقوق کا تحفظ معاشرے کا استحکام اور فلاح و بہبود کا تحفظ ہے۔ دنیا کی ہزاروں سالہ تاریخ اور اللہ کے پیغمبروں علہم السلام سمیت خوداللہ تعالیٰ نے بھی انسانی حقوق کے تحفظ کیلئے انتہائی منصفانہ قوانین مرتب کئے ہیں۔ ارتقائی ترقی بھی اسی وجہ سے ممکن ہو پائی۔ ساری مخلوق اللہ تعالیٰ کا کنبہ ہے اور معاشرے کی اس سے منظم اور مکمل تعریف نہیں ہو سکتی۔ انسانی بنیادی حقوق کیلئے نہ صرف دنیا بھر کی حکومتیں کام کر رہی ہیں مگر بہت سی غیر سرکاری تنظیمیں بھی سرگرم نظر آتی ہیں۔ ان اقدامات اور محنت کی وجہ سے لوگوں میں شعور و آگہی بڑھی ہے۔ ہر تعلیمی ادارے میں اس بارے نصابی وغیر نصابی سرگرمیوں کے ذریعے بچوں کو تعلیم دی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج لوگ نہ صرف اپنے حقوق سے آگاہ ہیں بلکہ اس کیلئے ڈٹ بھی جاتے ہیں۔ لیکن اس شور شرابے نے نئے نئے امتیازات کو جنم دے دیا ہے۔ جہاں لوگ اپنے حقوق سے آگاہ ہوتے ہیں وہیں کئی اصناف اپنی حدود سے تجاوز کر گئی ہیں۔ جسکی وجہ سے سازشوں کی نئی فضا جنم لے رہی ہے۔ کہیں صنفی تضادات جنم لے رہے ہیں، مذہبی، نسلی و فرقہ وارانہ تعصبات! حالانکہ دنیا کی تاریخ میں یہ چیزیں اس وقت سے ہیں جب ان کیلئے قوانین نہیں بنائے گئے تھے۔ حالانکہ معاشرتی اقدار کا مثبت دائرہ بنانے کیلئے اخلاقی اقدار بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔اگر آفاقی اور علوی علم نے معاشرت میں انسانی بنیادی حقوق کے بار ے میں قوانین مرتب کئے ہیں تو انہیں اخلاقی اقدار سے آزاد بھی نہیں چھوڑا۔یہی ایک جگہ ہے جہاں ہم سارے مار کھا رہے ہیں۔ اگر حاصل کرنے اور صرف حقوق مانگنے کی بجائے ہم ان فرائض پر بھی توجہ دیں جو اخلاقی طور پر ہمارے حصے میں ہیں تو معاشرہ زیادہ متوازن اور منظم ہو سکتا ہے۔حال ہی میں اسلام آباد کے ہوٹل گلیڈ ہاؤس میں ایک غیر سرکاری تنظیم انسان فاؤنڈیشن کی طرف سے پنجاب بھر کے دس پسماندہ اضلاع سے صحافیوں کو تربیتی ورکشاپ بعنوان”خواتین کی مضبوطی بذریعہ معیشت و ذمہ دار گورننس“ کا انعقاد کیا گیا ہے۔ اس ورکشاپ کا مقصد صحافیوں کو انسانی بنیادی حقوق پر اقوام متحدہ کے قوانین جن میں سی ای آر سی، سی ای ڈی اے ڈبلیو، سارک کنونشن اور یو ڈی ایچ آر شامل ہیں میں موجود صنفی رواداری کی شقوں کو اجاگر کیا گیا۔انسان ہمیشہ سیکھنے کی حالت میں رہتا ہے اور صحافیوں کیلئے ایسی تربیتی ورکشاپ کا انعقاد جس میں انہیں ایک ذمہ دار شہری ہونے کے ساتھ ساتھ ذمہ دار صحافی بننا بھی سکھایا جائے وقت کی اہم ضرورت ہے۔راقم کا پہلا تجربہ ہوا کسی بھی غیر سرکاری تنظیم کی طرف سے بطور ٹرینی شامل ہونا۔ جب اس کی اطلاع ملی تو دل بہت خوش ہوا کہ صحرا کو سمندر چھو کر سیراب کرنے والا ہے۔اس تربیتی ورکشاپ کے ٹرینرز میں خود ڈائریکٹر انسان فاؤنڈیشن کشور سلطانہ کے علاوہ آصف رانا، یوتھ افئیرز اورکوہیژن پروگرام کی منیجر سعدیہ چوہدری شامل ہیں۔ کشور سلطانہ ایک مضبوط، دلیر اور پر عزم خاتون نظر آئیں،یقینا وہ اپنی محنت سے ترقی کی منازل عبور کرتی رہی ہیں۔ لیکن چونکہ ہم جانتے ہیں کہ غیر سرکاری تنظیمیں انہی کے گن گاتی ہیں جن کا وہ کھاتی ہیں تو فی الحال انہوں نے ٹریننگ کے دوران تعصب کی آڑ میں جس پروپیگنڈے کو ترویج دینے کی کوشش کی ہے شاید ان کی ذاتی رائے نہیں رہی ہوگی۔مگر آصف رانا اور سعدیہ چوہدری انتہائی بنیادی معلومات رکھنے والے نظر آئے، آصف رانا تو یہ بھی نہیں جانتے کہ ایک اچھا شہری وہی ہوتا ہے جو اپنے ملک کے قوانین کی پاسداری کرے، پھر چاہے آپ چین رہیں یا ترکی میں۔ انہوں ٹریننگ کے دوران ان غلط العام اور غلط العوام محواروں و معاشرتی چیزوں کو اچھالا جن کی حقیقی زندگی میں نہ تو کوئی جگہ ہے اور نا ہی کوئی اہمیت۔ہاں! مگر جب ہم انہیں زیر بحث لائیں تو خود آپ میں بے وقوف لگتے ہیں۔جیسے مختلف برادریوں یا قوموں کے بارے میں بہت سے لطیفے اور اغلاط پائے جاتے ہیں مگر حقیقت سرے سے ان کے برعکس ہوتی ہے۔ ہماری تربیتی باتوں میں اگر ہم ایسی اغلاط کا مثالوں میں سہارا لیں تو ہماری مثبت بات بھی منفی اثر دکھاتی ہے۔یہ سارا مشاہدہ اس تربیتی ورکشاپ کے حوالے سے ہے۔ کچھ باتیں ریاست کے مخالف بھی کی گئیں۔ ریاستی فیصلوں پر تنقید کرنا اچھی بات ہے کہ اس کے بغیر اصلاح ممکن نہیں، مگر تنقید مثبت اور اصلاح سمیت ہونی چاہئے۔ باقی ہم اقوام متحدہ ان قوانین کے بارے میں جان لیتے ہیں جنہیں عنوان بنا کر پراپیگنڈے رچائے جاتے ہیں۔
CONVENTION IN THE ELIMINATION OF RACIAL DISCRIMINATION یہ 1966 میں نسلی امتیازات کے خاتمے کیلئے اقوام متحدہ میں کنونشن پیشن کیا گیا جس پر ان تمام ممالک نے اتفاق کیا اور معاہدے پر دستخط کئے۔ پاکستان بھی ان میں شامل ہے۔ اس کنونشن کی شق نمبر 2 میں تمام ممالک کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ نسلی بنیادوں پر انسانیت پر ظلم کی روک تھام کریں اور ایسی سرگرمیوں میں ملوث لوگوں کے خلاف ریاستیں خود اقدامات کریں گی۔
UNIVERSAL DECLRATION OF HUMAN RIGHTS 1948 میں پیش کیا گیا جسے ساری دنیا نے قبول کیا۔ اس قانون کے تحت دنیا بھر کے تمام انسانوں کے بنیادی حقوق کا خیال رکھا جائے گا اور ان تک رسائی کیلئے انہیں سہولت فراہم کی جائے گی۔اس کی مختلف شقوں میں انسان کو ہر قسم کی آزادی دی گئی ہے سوائے جس ریاست کے وہ مقیم ہیں ان کے قوانین سے آزادی کے۔ یعنی آپ ریاستی قوانین کے پہلے پابند ہیں اس کے بعد اقوام متحدہ کے قوانین کے۔
CONVENTION ON THE ELIMINATION OF ALL FORM OF DISCRIMINATION AGAINST WOMEN. کی بات کریں تو یہ کنونشن اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پیش کیا گیا جس پر پاکستان نے 1996 میں دستخط کئے تھے۔ اس کنوشن کے آرٹیکل پانچ اور دیگر شقوں میں عورتوں کو تحفظ، تعلیم، صحت، روزگار، معاشرتی و سماجی، سیاسی و معاشی آزادی کی بات کی گئی ہے۔ اسی طرح سارک سوشل چارٹر کے تحت ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل کے اہداف پیش کئے گئے جن کے تحت دنیا کے 193 ممالک نے 2030 تک اپنے ممالک سے کرپشن، حوالہ ہندی، دہشتگردی، مذہبی منافرت، نسلی امتیازات، فرقہ واریت، صنفی تضادات، بے روزگاری، غربت، ناخواندگی، عدم تحفظ، انسانی بنیادی حقوق کی پامالی اور نا انصافی کی روک تھام کر کے ممالک کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا جائے گا۔اگر ہم ان تمام قوانین کے زیر سایہ ممالک کا جائزہ لیں تو دنیا بھر کے ممالک نت نئے پراپیگنڈوں کی زدمیں رہتے ہیں۔ تمام قوانین کی انفرادی شق نے لوگوں کو مزید تقسیم کر دیا ہے۔ ایک طرف لوگ ان قوانین کے تحت حقوق کیلئے آواز بلند کرتے ہیں تو دوسری طرف صحافتی و ایویں دانشور ان قوانین سے ممکنہ نقصانات کا تجزیہ پیش کر رہے ہوتے ہیں۔وہیں ایک تیسرا گروہ دونوں کو غلط یا صحیح کہہ رہا ہوتا ہے۔اگر ہم اس کی ایک حالیہ مثال دیکھیں تو نواز شریف جیسے سزا یافتہ مجرم کو انسانی حقوق کے نام پر ایک منظم پراپیگنڈے کے تحت ملک سے باہر بھیج دیا گیا ہے۔ جس کی مثال دنیا میں کہیں نہیں ملتی۔ان نام نہاد انسانی حقوق کے علمبرداروں نے زیادہ تر ترقی پذیر ممالک کو یرغمال بنایا ہوا ہے۔ ہمیں انسانی حقوق کے تحفظ اور اس کے نام پر پراپیگنڈا کرنے والوں کے درمیان فرق کرنا ہوگا۔ ورنہ یہ لوگ ہمارے ریاستی تشخص کی عزت کو خام میں ملا دیں گے۔ انسان نے ہمیشہ ارتقائی سیڑھیوں کو عبور کر کے ہی جدید مہذب و متمدن معاشروں کو قائم کیا ہے۔ یہ اقدار مسلط کرنے سے نہیں بلکہ باقاعدہ مشاہدوں کے بعد معاشروں میں جوان ہوئے ہیں جس کی تاریخ انسانیت کی تاریخ کے برابر ہے۔ ان غیر سرکاری تنظیموں، جو پیسوں کے عوض ان بنیادی حقوق کو پروجیکٹ کرتی ہیں کے بارے میں میرا مشاہدہ فقط یہی کہتا ہے کہ انہوں نے زندگی کے تمام پہلوؤں کو ضرورت کے ساتھ جوڑ کر ذاتی مفادات کیلئے مذموم مقاصد پر منازل عبور کی ہیں۔ یعنی ان کا کردار ملکی سلامتی کو غیر مستحکم کرنے میں نظر آتا ہے۔ میری رائے میں حکومت پاکستان ملکی سلامتی اور استحکام کیلئے ان غیر سرکاری تنظیموں کے مقابلے میں ایک منظم گروہ متحرک کرے جو نہ صرف عوام الناس کو ان پراپیگنڈوں کے بارے میں آگاہ رکھے بلکہ انہیں فرائض کی انجام دیہی پر احسن طریقے سے قائل بھی کرے کیونکہ اس ضرورت کی جنگ میں حقوق تو سارے مانگ رہے ہیں لیکن فرائض کوئی نہیں اداکرنا چاہتا۔ اور کسی بھی ملت کے بکھرنے کیلئے اس کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔