اسلام بزور شمشیر پھیلنے کا عتراض وہ لوگ کرتے ہیں جن کے ہاتھ کروڑوں بے گناہ انسانوں کے خون سے رنگین ہیں ،اہل مغرب بڑے شدومد سے یہ اعتراض کرتے ہیں لیکن ان کی تاریخ کا مطالعہ کیاجائے تو پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے اپنے صلیب کی سربلندی کے لئے کتنے ا انسانوں کا خون بہایا ہے ،صلیبیوں نے جب بیت المقدس کوفتح کیا تو وہاں کس طرح انسانی خون کے دریا بہادئے گئے اور کس قدر مسلمانوں کو خاک وخون میں تڑپاکر رکھ دیاگیا ،جن میں بوڑھے ،بچے اور خواتین شامل تھیں ،صرف مسجد عمر کے صحن میں 70 ہزار سے زائد مسلمانوں کا قتل عام ہوا،اندلس کے سقوط پر انسانیت کے ساتھ جو مظالم روارکھے گئے ان کو سن کر انسان کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں ،یہی تاریخ بغداد سمیت دیگر ملکوں میں دھرائی گئی ۔ پہلی جنگ عظیم کی ابتداء28جون 1914 ء کو آسٹریا کے ایک شہزادے فرڈی ننڈ کو گولی مارنے سے ہوا ،28جولائی 1914 کو آسٹریا نے سربیاپر حملہ کرکے جنگ کا آغازکیا 15اگست کو جرمنی کی فوجیں ہالینڈ اور بیلجیم کی طرف روانہ ہوئیں ،پھر اس جنگ میں فرانس اٹلی ،یونان ،پرتگال ،رومانیہ ،اور ریاست ہائے متحدہ امریکہ بھی اس جنگ میں کود پڑے، پھر یہ جنگ میں ترکی اور بلغاریہ بھی شامل ہوئے ،دوران جنگ یکم جولائی 1916 ء کو ایک دن میں برطانیہ کے 57 ہزار فوجی مارے گئے ،جرمنی کے 17لاکھ 73ہزار7سو اور روس کے 17لاکھ فوجی ہلاک ہوئے ،محققین کے اندازے کے مطابق اس جنگ میں کل ایک کروڑ تیس لاکھ انسان قتل ہوئے ،ایک شہزادے کے قتل پر ایک کروڑ تیس لاکھ انسانوں کا خون بہایا گیا ۔ دوسری جنگ عظیم کا آغاز یکم ستمبر 1939ء کو اس وقت ہوا جب جرمنی نے پولینڈ پر حملہ کیا جس پر برطانیہ نے جرمنی کے خلاف اعلان جنگ کردیا ،اس جنگ میں 61 ملکوں نے حصہ لیا دس کروڑ سے زائد فوجیوں نے اس جنگ میں حصہ لیا تقریباً چالیس ملکوں کی سرزمین اس جنگ سے متاثر ہوئی ،دوکروڑ روسی مارے گئے اور اس کہیں زیادہ زخمی ہوئے روس کے 1710 شہر 70 ہزار گاءوں ،اور 32ہزار کارخانے تباہ ہوئے ،پولینڈ کے 6 لاکھ ،یوگوسلاویہ کے 17 لاکھ ،فرانس کے 6 لاکھ ،برطانیہ کے 3لاکھ 75 ہزار ،اور امریکہ کے 4لاکھ 5 ہزار لوگ مارے گئے ،تقریباً 65لاکھ جرمنی موت کے گھاٹ اترے ،16لاکھ کے قریب اٹلی اور جرمنی کے دوسرے حلیف ملکوں کے افراد موت کاشکار بنے ،جاپان کے 19 لاکھ آدمی مارے گئے ،برصغیر پاک وہند کے 15لاکھ سے زائدافرادمارے گئے ،اپریل 1945 ء کو مسولینی کو اطالوی عوام نے پھانسی دی ،30اپریل 1945ء کو ہٹلر نے خودکشی کرلی ،7 مئی کو جرمنی نے ہتھیار ڈال دئے 6 اگست 1945 ء امریکہ نے جاپان کے شہر ہیروشیما پر ایٹم گرادیا 9 اگست کو امریکہ نے جاپان کے دوسرے شہر ناگا ساکی کو ایٹم کا نشانہ بنایا،ایٹم بم کے ان حملوں میں ایک لاکھ بیس ہزار لوگ لقمہ اجل بن گئے ، 14 اگست 1945 ء کو جاپان نے ہتھیار ڈال دئے ،اس جنگ میں مجموعی طورپر 6 سے 8 کروڑ انسان مارے گئے ۔ فرانس کے جمہوری انقلاب میں چھبیس لاکھ انسان قتل ہوئے ۔ روس کے اندر کمیونزم انقلاب آیا تو ایک کروڑ انسانوں کا خون بہایاگیا ۔ ہندوستان میں فرنگیوں نے حصولِ اقتدار کے لئے 1857ء کی جنگ میں ایک کڑوڑسے زیادہ انسانوں قتل کیا ۔ 1955ء میں کوریا کی جنگ میں 15 لاکھ انسان قتل ہوئے ۔ 1979ء کے روس افغان جنگ میں دس لاکھ انسانوں لقمہ اجل بنایاگیا ۔ 1990ء کی گلف وار میں ایک لاکھ انسان قتل ہوئے ۔ ایران جنگ میں چارلاکھ ا انسان قتل ہوئے ۔ انڈیا نے کشمیر پر اپناناجائز قبضہ جمانے کے لئے ایک لاکھ سے زیادہ انسانوں کا خون بہایا ۔ ویت نام جنگ میں پانچ لاکھ سے زائد انسانوں کو قتل کیا گیا ۔ بوسنیا میں پانچ لاکھ انسانوں کا خون بہایاگیا ۔ کمبوڈیا میں تیس لاکھ انسانوں لقمہ اجل بنایاگیا ۔ ماءوزے تنگ کے چینی انقلاب میں ایک کروڑ چالیس لاکھ انسان کام آئے ۔ برصغیرپاک وہندکی تقسیم کسی جنگ کے ذریعے نہیں بلکہ معاہدے کے ذریعے ہوئی مگر تقسیم کے وقت ایک کروڑ لوگوں کا خون بہایاگیا ۔ امریکہ نے نام نہاددہشت گردی کے خلاف جنگ میں ساڑھے تین کروڑ لوگوں کو نقل مکانی پر مجبور کیا ،جبکہ ایک کروڑ کے قریب لوگوں کو لقمہ اجل بنادیا ہے ۔ اقوام متحدہ کے ادارے برائے انسداد منشیات وجرائم کی ایک روپورٹ کے مطابق 2017 ء کے دوران دنیا بھر میں بغیر کسی جنگ کے چار لاکھ 46ہزار افراد قتل کئے گئے جبکہ 89ہزار سے زائد افراد جنگ کی اور 25ہزارافراد دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ گئے ۔ غیر مسلموں کی لڑائیوں ، جنگوں اور انقلابات میں انسانیت کے قتل عام کوملاحظہ کرنے کے بعد اب اس کے با المقابل جناب رسول اللہ ﷺنے جو انقلاب برپا کیا اس نے چند سالوں میں دنیا کے اکثرحصہ پر قبضہ کیا یہ دنیاکی تاریخ کا وہ انقلاب ہے جو نہ اس سے پہلے کبھی آیا اور نہ قیامت تک دوبارہ آسکے گا مگر اس عظیم الشان انقلاب کی بنیاد صرف ایک ہزار 18 افراد کی قربانیوں پر رکھی گئی،حضور نبی کریم ﷺکے دورِجہاد میں دونوں یعنی مسلمانوں اور کافروں کی طرف سے جو لوگ قتل یاشہید ہوئے ان کی کل تعداد 1018 ہے ،تمام غزوات میں جو مسلمان شہید ہوئے ان کی تعداد 418 ،کفار مقتولین کی تعداد 400 ،غدار یہود مقتولین کی تعداد 200 ،کل کفار مقتولین کی تعداد 600ہے ،یہ کل تعداد 1018 ہوگئی اور دورِ نبوی ﷺکے قیدیوں کی تعداد6564 ہے جس میں 6000 صرف غزوہ حنین کی قیدیوں کی ہے ،جن میں سے 6347کو نبی کریم ﷺنے بغیر کسی شرط کے آزادفرمایاتھا ،جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبر اسلام ﷺلوگوں کی گردنیں کاٹنے کے لئے نہیں آئے بلکہ انسانیت کو امن وسلامتی کی طرف دعوت دینے کے لئے تشریف لائے تھے ،مگر اس دعوت میں جو لوگ رکاٹ بنتے گئے اور ناسوربن کر معاشرے کو بگاڑنے پر تل گئے مجبوراًانہیں راستے سے ہٹانا پڑا ،اس آپریشن میں چند لوگ کام آگئے اور ان کی سرکشی نے چند مسلمانوں کو جان کی قربانی پر مجبورکیا ۔ محترم بزرگ جناب فدامحمدخان ریٹائرڈ ڈائیرکٹر آئی بی آف شمدہڑہ نے حضور نبی کریم ﷺکے اخلاق کریمہ ،حسن سلوک اورعفوودرگزرکے چند واقعاتلکھ کر اس اعتراض کے جواب دینے کی کوشش کی ہے کہ’’ اسلام بزروشمشیر پھیلاہے ‘‘ ۔ موصوف نے ان واقعات سے ثابت کیا ہے کہ اسلام دین فطرت ہے جس کے اندر انسانوں کو اپنی طرف مائل کرنے کی وہ کشش اور جاذبیت موجود ہے جو ہرفطرت سلیمہ رکھنے والے انسان کواپنی طرف کھینچتا ہے ، پھر اس کے ساتھ حضور نبی کریم ﷺکے اخلاق کریمہ نے سونے پر سہاگے کاکام کردیا ہے ،جس کی بناپر لوگ جوق درجوق اسلام میں داخل ہوتے گئے ،نہ صرف اسلام میں داخل ہوتے گئے بلکہ اسلام کے داعی اور مبلغ بنتے گئے ، ایک ایک صحابی کی جدوجہد سے سینکڑوں بلکہ ہزاروں لوگ اسلام کے حلقہ بگوش ہوئے اور پھر اسلام پر مرمٹنے کے لئے ایسے تیار ہوئے کہ تن من دھن کی بازی لگا کر اسلام کودنیا کے کونے کونے تک پہنچانے میں اپنا سب کچھ داءو پر لگا گئے ،یہ اسلام اور پیغمبر اسلام کی وہ خوبیاں تھیں جن کی بناپر اسلام تیزی سے دنیا میں پھیلا اور چند سالوں میں دنیاکے اکثر حصہ سے کفر وشرک کو مٹاکر توحید کا جھنڈا گھاڑدیا ،مشرق ومغرب میں اسلام ایک مضبوط قوت بن کر ابھرا اورمختصر عرصہ میں دنیا کی دومتمدن سلطنتوں کو نیست ونابود کرنے میں کامیاب ہوگیا ۔ طاقت کے زور پر چند لوگوں کی گردنوں کو تودبایا جاسکتا ہے یاچند لوگوں کے ضمیرکو تو خریداجاسکتا ہے لیکن لاکھوں انسانوں کے دلوں کو مسخرنہیں کیا جاسکتا ،مگراسلام جہاں جہاں تک پھیلا اس نے لوگوں کے تہذیب وتمدن،چال چلن اورزبان وبیان تک کو بدل ڈالا ،لوگ اسلامی تہذیب کے رنگ میں اس قدر رنگے گئے کہ حضرت فاروق اعظمؓ کواپنے دورِ خلافت میں یہ فرمان جاری کرنا پڑا کہ غیرمسلم لوگ اپنے لباس میں کوئی خاص نشانی لگایاکریں تاکہ مسلم اور غیر مسلم کے درمیان تفریق کی جاسکے؟ بزرو شمشیر تو مکہ کی ساری قوتیں اپنی تمام تر فرعونیت کے باوجودایک بلالؓ کے ضمیرکو تبدیل نہ کرسکیں اور نہ حضرت سمیہؓ کی زبان پر کفرکا ایک لفظ جاری کرسکیں چہ جائیکہ پورے عالم کی کایاکوپلٹایاجاسکے؟ذوالکلاع حمیریؓ قبیلہ حمیر کی بادشاہت کے ساتھ اپنے آپ کو خداکہلاتے تھے اور سینکڑوں لوگ اس کے سامنے بیک وقت سجدہ ریز ہوتے تھے ،مسلمان ہوئے اور دورِ فاروقی میں سلطنت ازخود چھوڑ کر مدینہ منورہ میں آکر زاہدانہ اور فقیرانہ زندگی گزارنے لگے،وہ کونسی طاقت تھی جس نے ان سے زمینی خدائی کی ساری طاقتیں چھڑاکر مدینہ منورہ پہنچایا اور یہاں لاکرگنبد خضریٰ کی گدائی پر مجبور کردیا ۔ایک خاتون ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ کے پاس آئیں اورعرض کیا کہ روضہ نبوی کا دیدار کرادیں ،انہوں نے روضہ نبوی کا دروازہ کھولا وہ خاتون روضہ نبوی پر حاضرہوکر اس قدر روئیں کہ جان جانِ آفریں کے سپرد کردی ،بقول جگر مرادآبادی
جان ہی دے دی جگر نے آج پائے یار پر ۔
عمر بھر کی بے قراری کو قرار آہی گیا۔
وہ کونسی طاقت تھی جس نے حضرت سعد بن الربیع کو میدانِ اُحد میں زخمی حالت میں جان دیتے ہوئے آخری الفاظ کے ذریعے نبی کریم کو سلام بھیجتے ہوئے مسلمانوں کے نام یہ پیغام بھیجنے پرمجبورکیاکہ اگر کافروں نے نبی کریم ﷺکوکوئی گزند پہنچائی اور تم میں سے کوئی ایک آنکھ بھی چمکتی ہوئی باقی رہ گئی تو کل اللہ تعالیٰ کے ہاں تمہارا کوئی عذرقبول نہ ہوگا ‘‘ ۔ وہ کونسی تلوار تھی جس نے حضرت سعدؓ کے دل میں اس قدر عشق ومحبت بھردیاتھا کہ آخری وقت میں بھی نبی کریم ﷺکی جان کی فکر دامن گیرتھی، وہ کونسی تلوار تھی جس نے فتح مکہ کے موقع پر اس خاتون کی زبان سے یہ کہلوایا’’اے محمد!آج سے پہلے آپ کے چہرے سے زیادہ مجھے کسی چہرے سے نفرت نہ تھی اور آج کے بعد مجھے آپ کے چہرے سے زیادہ کسی چہرسے محبت نہیں رہی ،یہ وہ ہندہ تھی جس نے میدانِ اُحد میں آقائے دوجہاں ﷺکے محبوب ،محسن اورمشق چچاحضرت حمزہ کا کلیجہ چبانے اور مثلہ کرنے کا غضبناک عمل کیا تھا،مگر آج اس کے دل میں بھی آقائے دوعالمﷺ کی وہ محبت پیداہوگئی جس نے تمام محبتوں کوہیچ کردیا ،تلوارسے دل چھلنی ہوتے ہیں ،پاش پاش ہوتے ہیں ،ٹکڑوں میں بٹتے ہیں مگردل کو دل سے راہ ہوتی ہے ،محبت سے محبت پیداہوتی ہے ،نبی کریم ﷺ کی ذات مقدس سراپا محبت تھی ،جہاں گئے محبت پیداکرتے گئے ،جہاں آپ کی تعلیمات پہنچیں وہاں بھی محبت پیداہوتی گئی اور اس محبت نے دنیا کو اپنی طرف اس طرح سرعت کے ساتھ کھینچا کہ مشرق ومغرب ،شمال وجنوب میں آپ ﷺ اور آپ کے لائے ہوئے دین کا ڈنکا بجتاگیا ،اسلام پھلتا گیا، پھولتا گیا ،اس پھیلاءو کا جب مخالفین مقابلہ نہ کرسکے تو انہوں نے اس خلاف پروپیگنڈا شروع کردیا ،لیکن جس طرح سورج کوانگیوں سے نہیں چھپایاجاسکتا اسی طرح اسلام کو بھی ان پروپیگنڈوں سے کمزور نہیں کیا جاسکتا ۔
نورخدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن۔
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایانہ جائے گا ۔
گزشتہ جمعرات کو تعمیر ملت پبلک سکول شمدہڑہ میں فدامحمدخان صاحب کی کتاب ’’دانائے سبل ‘‘کی تقریب رونمائی پشتو کے مشہور شاعر جناب اقبال احمدخان کی زیرصدارت منعقد ہوئی، جس میں راقم الحروف سمیت جناب مشتاق احمدخان پرنسپل گورنمنٹ ہائی سکول شیرگڑھ،جناب گل محمد ایم ڈی تعمیرملت پبلک سکول شمدہڑہ اوردیگر اہل علم اور اہل قلم حضرات نے شرکت کرکے جناب فدامحمدخان کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے ان کے قلمی کاوشوں پر انہیں خراجِ تحسین پیش کیا ۔ اللہ تعالیٰ فدامحمدخان صاحب کی اس کاوش کو اپنے دربار میں قبول و منظور فرماکر جناب رسول اللہ ﷺکی بارگاہ میں حوض کوثر اور شفاعت کے حصول کا ذریعہ بنائے ،آمین