”دِل تو بچہ ہے“ یہ بات ہم نہ جانے کتنی بار سنتے ہیں، لکھتے ہیں اور کہتے ہیں لیکن مانتے نہیں ہیں شاید! ایسا میں اِس لیے کہہ رہا ہوں کیونکہ اِس بھاگتی دوڑتی زندگی میں اگر ہم نے کسی کو سننا بند کر دیا ہے تو وہ دِل ہی تو ہے – میں بھی زندگی کی ریس میں اسی طرح مگن ہوں – میں ہر چیز حساب سے اور وقت پہ کرنا چاہتا ہوں اور اگر حساب ہلتا ہے تو میرا ذہن بھی بٹ جاتا ہے- اکثر لوگ بتاتے ہیں کے میں اچھا انسان ہوں لیکن شاید دِل کا بلکل استعمال نہیں کرتا -صرف دماغ سے چلنا چاہتا ہوں – ایسی باتوں پہ میں اکثر ہنس دیتا ہوں – مجھے شطرنج بہت پسند ہے- میں زندگی کی تلخ حقیقتوں کو دیکھتے ہوئے اس کے ہر پل کو شاید شطرنج کے مہروں کی طرح کھیلنے لگا ہوں لیکن میں نہ کسی کا نقصان چاہتا ہوں نہ کرتا ہوں – اپنی زندگی کو سنوارنے کے لیے بہترین منصوبے کے ساتھ چلنا، اپنے تمام کام وقت پہ کرنا اور ہر بات کو گہرائی سے سوچنا کوئی برائی نہیں ہے، اور رہی بات دِل کی تو وہ اب ہر کسی کو دکھایا نہیں جا سکتا نا!
اگر اک ایئر کرافٹ انجینئر کام کے دوران حساب سے نہ چلے اور دِل سے سوچنے لگے تو ہوا کا دباؤ تھوڑا بہت اوپر نیچے ہونے پہ اسکا جہاز نہ جانے کتنی اونچائی سے گر جائے؟ اِس کا اندازہ لگانا ناممکن ہو جائے گا – زندگی کے گزرے آٹھائیس سالوں میں میں نے بس یہی سیکھا ہیکہ بہترین حاصل کرنے کے لیے بدترین سے گزرنا پڑتا ہے- حالات جتنے لوگوں کو کارساز نظر آتے ہیں اتنے ہوتے نہیں – ان گزرے تمام سالوں میں میری تمام کامیابیوں پہ حسد کرنے والے لوگ میرے بارے میں ہزار باتیں پھیلاتے ہوں گے لیکن یہ نہیں جانتے کے نہ جانے اپنی زندگی کے کتنے دن رات میں نے اس محنت و مشقت میں گزارے ہیں یا شاید مجھے ایسا بھی نہیں کہنا چاہیے کیونکہ اللہ تعالی نے اسکا ہمیشہ صلہ دیا ہے اور میری امید سے بڑھ کر دیا ہے اور اسی لیے شاید میں ان لوگوں کے بارے میں دِل میں کچھ برا نہیں رکھنا چاہتا کیونکہ میرے پیارے اللہ تعالیٰ ہمیشہ مجھے نواز دیتے ہیں!
رہی بات دِل کی تو یہ جناب تو ہر وقت اپنی پوری رفتار سے نہ صرف خون کا بہاؤ میرے جسم میں بڑھاتے ہیں بلکہ کھلی آنکھوں سے بہت بڑے بڑے سپنوں کے ساتھ مجھے بہت چھوٹے چھوٹے خواب،جذبات کا بھی احساس دلاتے رہتے ہیں – راتوں میں دھیمی سی روشنی میں اپنے بیڈ پہ لیٹ کر خوبصورت سے خواب بننا انہوں نے میرا بہترین مشغلہ بنا دیا ہے – اپنے ارد گرد ہر انسان میں سچی اور بے لوث وفا ڈھونڈھنا بھی- لیکن اب پتہ نہیں زمانے میں لوگوں کے لیے بظاہر اکڑو اور بدتمییز انسان کے اپنی زندگی کے متعلق دیکھے گئے یہ خواب کبھی سچ ہوں گے بھی یا نہیں…. خیر انہی سوچوں کا تانا بانا بنتا میں اپنے اس دِل کی ننھی سی خواہش پہ پیدل گھر سے نکل آیا تھا جو کے لوگوں کے مطابق میرے اندر ناقص ہے – دراصل آج اتوار (چھٹی) کا دن تھا – آنکھ کھلی تو نہا دھو کر کچھ بہترین سا ناشتہ کرنے کو دِل چاہا- گھر میں میں اور میری چھوٹی بہن ہی رہتے ہیں – وہ ڈاکٹر ہے اور نائٹ شفٹ سے آکر ناشتہ کرکے سو بھی چکی تھی- میں نے سوچا کچھ چٹ پٹا بہترین سا خودہی تلاش کر لیتے ہیں اِس لییگھر سے نکل آیا-
سامنے ابھی میں روڈ کی طرف مڑنے ہی والا تھا کے مجھے حلیم نان کا اک ٹھیلا نظر آیا – اس کے پاس ہی کچھ بینچ اور کرسیاں بھی رکھی تھیں – میں نے سوچا یہی کھا لیتے ہیں – وہاں گیا تو اک بہت ہی عمر رسیدہ. بابا جی تھے جو دکھنے میں بہت ہی چاک و چوبند لگ رہے تھے انہوں نے بہت ہی نرم دِلی سے میرے سلام کا جواب دیا اور آرڈر کا پوچھنے لگے ساتھ ساتھ انہوں نے ہلکی پھلکی موسم پہ گفتگو بھی شروع کردی – یہ فروری کی اک بہترین صبح تھی- ارد گرد پھول نظر آرہے تھے اور جشن بہاراں کی تیاریاں بھی عروج پہ تھیں – خیر انہوں نے مجھے گرما گرم حلیم. پیش کیا یقین جانیں وہ اتنا لذیذ تھا کہ میں نے لگ بھگ دو پلیٹ کھالیا- پیٹ بھر جانے کے بعد بھی دِل نہیں بھر رہا تھا میں نے کہا بابا جی آپ اتنے سے ٹھیلے پر اتنا مزیدار حلیم بیچ رہے ہیں – آپ کو تو دکان کھولنی چاہیے یا پِھر ریسٹورانٹ کھول لیں چھوٹا سا – آپ یہاں ٹھیلے پہ کیوں ہیں؟ یہ سنتے ہی وہ زور سے ہنس دیئے اور کہنے لگے بچے میں یہاں اپنی خوشی سے ہوں – میری لاہور کی بہترین جگوں پہ پانچ الگ الگ دکانیں ہیں جو کافی چلتی ہیں اور وہ میرے بیٹے چلا رہے ہیں اور کافی بھاری بھرکم رقم بھی میں زندگی میں اکٹھی کر چکا ہوں لیکن مجھے یہاں سکون ملتا ہے – یہ وہی ٹھیلا ہے جہاں سے میں نے اپنا یہ بزنس شروع کیا تھا – بس پِھر پروردگار نے بہت برکت ڈالی – میں یہ سن کر حیران ہوا اِس لیے پوچھ بھی لیا کہ بابا جی اتنے سے ٹھیلے سے آپکو اتنا فائدہ کیسے ہوا؟پانچ دکانیں اور جیسے آپ بتا رہے ہیں کہ کافی رقم بھی- پِھر انہوں نے بتایا کے بیٹا میں دن میں جتنی پلیٹیں بکتی تھیں انکا 7 فیصد روزانہ لازمی صدقہ کرتا تھا- جیسے اگر ایکُ دن سو پلیٹیں بک گئی ہیں تو سات پلیٹیں میں غریبوں کو فری کا کھانا کھلاتا تھا اور یہ معمول آج تک جاری ہے – ہماری سب دوکانوں اور اِس ٹھیلے سے ملا کر جتنی پلیٹیں روزانہ حلیمکی بکتی ہیں ہم اتنے کا سات فیصد لازمی غریبوں میں اسی دن تقسیم کر دیتے ہیں – اللہ تعالی کی راہ میں دیا گیا دس گناہ ہو کر واپس لوٹتا ہے یہ تو سنا تھا لیکن میں نے اپنی زندگی میں آزمایا بھی ہے -بابا جی کی یہ باتیں مجھے شاید بہت سال پہلے امی کی اک بات یاد دلا گئیں – امی ہر نماز کے بعد بہت لمبی دعائیں مانگتی تھیں اور آج تک بھی مانگتی آرہی ہیں – میں کوئی لگ بھاگ بارہ سال کاتھا جب اک بار میں نے ان سے پوچھا تھا امی آپ یہ اتنی لمبی دعا میں کیا مانگتی ہیں؟ تو انہوں نے کہا کے بیٹا تم سب کی خیریت لیکن ہاں سب سے زیادہ میں اپنے رب سے یہ
مانگتی ہوں اور ہمیشہ مانگتی رہوں گی“یا رب ہمیں ہمیشہ دینے والوں میں رکھنا“
“کیا تم جانتے ہو شاہ جہان بیٹا، زندگی میں سب سے بڑی لاچاری یہ ہے کے آپ مانگنے والوں میں سے ہوں -لیکن اللہ کا کرم دیکھو ہمیں اللہ تعالی نے ہمیشہ ان ہاتھوں میں رکھا جو کسی کی مدد کر سکتے ہیں یعنی دینے والے ہاتھ اِس سے بڑی نعمت دنیا میں اور کوئی نہیں ہے –
حدیث مبارکہ کے مفہوم سے بھی ثابت ہوتا ہے اللہ تعالی کی راہ میں صدقہ کرنے والو ں کی جھولی کبھی خالی نہیں ہوتی- اِس لیے اپنے آگے پھیلا ہوا ہاتھ کبھی نبھی خالی نہ لوٹانا اللہ تعالی تمھاری کسی امید اور دعا کو رد نہیں کریں گے- جیسے ہم ہمیشہ اللہ سے دینے کی امید کرتے ہیں نا اسی طرح بلکل اسی طرح مدد ضرور کرتے رہنا ہمیشہ کیونکہ وہاں دیر ہو سکتی ہے لیکن جھولیاں بھر دی جاتی ہیں – کوئی امید خالی نہیں رہتی- بلکہ ہمیشہ تمھاری سوچ سے بڑھ کر تمھارا خزانہ بھر دیا جاتا ہے-“
“بیٹا آپ اور لو گے؟“ اچانک بابا جی کے آواز دینے پر میں حال میں لوٹا تھا لیکن آج مجھے دَر حقیقت زندگی کا مطلب سمجھ آرہا تھا ہم اکثر ہی نہ جانے کتنی بار انگریزی اور اردو لکھاریوں کی یہ لائن پڑھتے ہیں کہ”Life is all about give and take”(زندگی لینے اور دینے کا نام ہے) لیکن شاید آج مجھے یقین ہو رہا تھا کہ میری ہر کامیابی اور اِس بہترین زندگی کے پیچھے بھی کہیں نہ کہیں یہی سوچ تھی جو بنا سمجھے بھی میرے دماغ میں محفوظ تھی- ہم دونوں بہن بھائی اکثر ہی پڑھائی کے سلسلے میں امی ابو سے الگ رہے ہیں لیکن میں ہمیشہ امی کے سکھائے ہوئے طریقے کے مطابق کسی بھی کام کے شروع ہونے سے پہلے برکت کے لئے یاکام کے کرنے کے بعد شکرانے کے طور پرصدقہ لازمی کرتا تھا- بلکل اسی طرح وہ دعا بھی میری دعا کا حصہ تھی اور شاید یہی سب میری تمام کامیابیوں کی وجہ بھی تھا- مجھے ایسا لگ رہا تھا بہت عرصے بعد میرا دِل بہت ہلکا محسوس کر رہا ہے جیسے کوئی بڑا بوجھ اتر گیا ہو- میں نے بہت ہی دِل سے بابا جی کا شکریہ ادا کیا اور انہیں پیسے دے کر ان سے الوداع لی-
اللہ تعالی ہمیں ستر ماؤں سے زیادہ پیار کرتے ہیں اسی لیے ہمیں بھٹکنے نہیں دیتے اور دِل اللہ کا گھر ہے- یہ جو بچہ سا دِل ہے نا یہ آپکو غلط سہی کی پہچان دیتا رہتا ہے –آپ کو اکثر ہی سکون کی طرف لے جانا چاہتا ہے اور اصل سکون واقعی ہی میری مشین جیسی روزانہ کی روٹین میں تو بلکل نہیں ہے – اسکی چھوٹی سی بات مان لینے میں ہی ہے- اِس لیے دِل کی سن لینی چاہیے اور آج اللہ کے حکم سے میرے دِل نے مجھے یہ سکھایا ہے کے صدقہ دینے سے انسان کبھی غریب نہیں ہوتا میں یہی سوچتے ہوئے گھر کی طرف بڑھ رہا تھا اور کھلی فضا میں شدید مسکرا رہا تھا! آج کی صبح واقعی ہی بہت خوبصورت تھی…!
صدقہ دینے سے خزانے کبھی خالی نہیں ہوتے! (ڈاکٹر انعم پری)
You might also like