باجوڑ کا جغرافیہ زمانہ ئے قدیم سے ھندوستان کی طرف جانے والے قدیم راستے کے بیچ وبیچ پڑا ہے بقول ،ونسٹنٹ اسمتھ ، سولویں صدی عیسوی سے قبل جتنے بھی حملہ آور دنیا کے مختلف خطوں سے افغانستان کے روندتے ہوئے ھندوستان کی جانب جاتے تھے وہ باجوڑ سوات اور پھر ھنڈ کے مقام پر ،اباسین ،کو عبور کرتے ہوئے عازم بہ ھندوستان ہوتے تھے 1581 عیسوی میں جب جلال الدین اکبر کے دور میں ٹیکسلا سے پشاور کی جانب بڑے راستے کو دریافت کیا گیا تب ، مغل فرمان رواں ،احمد شاہ ابدالی، اور پیرنگی استعمار نے ،تورخم ،کے درہ کو استعمال کرنا شروع کیا۔ ولیم بارٹر کے بقول قدیم باجوڑ کا جغرافیہ پانچ ہزار مربع میل کے علاقے پر پھیلا ہوا تھا جو مشرق کی جانب موجودہ ضلع دیر کے جندول براول ، جنوب میں نحقی کمالی کی پہاڑیاں ، مغرب کی جانب ،لال پورہ سورئ تیگہ ، اور شمال کی جانب کنڑ کی طرف دانگام ، مرورہ ، شڑتن ، اور گنجگل ،تک پھیلا ہوا تھا اس حساب سے قدیم باجوڑ موجودہ باجوڑ جو کہ 1290 مربع کیلومیٹر پر پھیلا ہے اس سے چار گنا بڑا تھا وقتاً فوقتاً سیاسی مصلحتوں کی خاطر خوانین اور انگریز کی وجہ سے یہ علاقہ محدود ہوتا گیا۔
باجوڑ کی یہی جغرافیائی اہمیّت ایران کے ،ہخا منشیوں ، الیگزینڈر سکندر یونانی سے لیکر چنگیز خان محمود غزنوی مغل استعمار برٹش ایمپائر اور پاکستان کے بننے سے لیکر آج تک برقرار ہے باجوڑ انتھائی گنجان آباد علاقہ ہے جسکی آبادی اسوقت بیس لاکھ سے زیادہ ہے غربت پسماندگی کیساتھ افغانستان کے ساتھ تجارتی راستوں کی بندش کی وجہ سے لوگ زیادہ تر دیار غیر میں روزی روٹی کماتے ہیں۔ اگر عمومی طور پر پختونوں کے تمام جغرافیہ کی بات کریں تو وہ عالمی سطح پر ہر دور میں اہمیت کی حامل رہا ہے قدرتی طور پر ہزاروں سالوں سے لیکر آج تک افغانستان اپنی اس اہمیت کو برقرار رکھے ہوئے ہیں اس جغرافیائی اہمیّت کی سب سے بڑی وجہ سنٹرل ایشیا چین ایران پاکستان اور ھندوستان کے بیچ و بیچ واقع ہونا ہے جس کی اہمیت آج کے دور میں اس قدیم دور سے بھی کئ گنا زیادہ ہے ۔ یہی وہ بنیادی نکتہ ہے جسکو عالمی قوتوں کو سمجھنا چاھئے اور بشمول افغانستان کے پڑوسیوں کو عالمی سطح پر جغرافیائی اہمیّت کے حامل اس خطے کو جنگ وجدل کے ماحول سے نکال کر امن کیلئے کردار ادا کرنا چاھئے موجودہ وقت میں امن کی خواہش ہر ایک کی ضرورت ہے مگر اس خواہش کو عمل میں بدلنا ایک عالمی اہمیت کا حامل کام ہے شائد اسی اہمیت کو اقبال لاہوری نے آج سے سو پہلے محسوس کرتے ہوئے یہ شاہکار اشعار کہے تھے۔
آسیا یک پیکر آب و گل است
ملت افغان درآں پیکر دل است
در کشاد او کشاد آسیا
در فساد او فساد آسیا۔
موجودہ وقت میں چالیس سالہ جنگ نے افغانستان سمیت اس پورے خطے کو ہر حوالے سے جسمیں سیاسی معاشی مذہبی ثقافتی اور تمدنی تاثیرات شامل ہیں متاثر کیا ہے یہ خطہ عالمی قوتوں کے مفادات کے ٹکراؤ میں گریٹ گیم کے بعد کولڈ وار اور اب دھشت گردی کے نام پر جنگ میں میدان جنگ بنا ہے جب کہ اس مسلسل جنگی کلچر اور مذہبی انتھاء پسندی نے اب اس پورے خطے کیلئے ایک ،عفریت ، کی شکل اختیار کی ہے جبکہ بہت سو کیلئے یہ جنگ ایک منافع بخش کاروبار بھی بن گیا ہے مگر دوسری جانب اس جنگی اقتصاد نے ہر کسی کی حیاء عزت چھین لی ہے جب آپ کے پڑوس میں مسلسل آگ لگی ہو تو ایک دن وہ آپ کو بھی اپنی لپیٹ میں لیتی ہے اور یہی ہمارے ساتھ بھی ہوا جب 9/11 کے بعد اس وحشت و دھشت نے ایک نئی کروٹ بدل لی جب پاکستان کے ساتھ رہنے والے 27000 کلومیٹر رقبے پر محیط قبائلی پٹی میں یہ آگ بھڑک اٹھی اور 2005 کےبعد اس نے ایک مہیب شکل اختیار کر لی۔ اس پورے مجموعی صورتحال کیلئے تو ایک کتاب درکار ہے مگر آج صرف ایک واقعے پر بات کرتے ہیں جب 4 مئی کو باجوڑ کے ھیڈ کوارٹر خار بازار میں حاجی رمضان کے کریانہ سٹور میں ایک ہولناک دھماکہ ہوا تھا جسمیں ستائیس کے قریب لوگ شہید جبکہ دو درجن زخمی ہوئے تھے۔ اس دھماکے میں باجوڑ لیویز کے صوبیدار میجر جاوید خان اور کواٹر ماسٹر فضل ربی بھی شامل تھا ، صوبیدار فضل ربی ایک نہایت دلیر بہادر شخص تھا کیونکہ ان مشکل حالات میں سینکڑوں کی تعداد میں لیویز فورس کے سپاہیوں نے حالات کی سنگینی کی وجہ سے اپنی نوکریاں چھوڑی ہوئی تھی مگر فضل ربی جیسے لوگ امن کی خاطر ڈٹے ہوئے تھے اور ہر جگہ بنفس نفیس پہنچ جاتے تھے باجوڑ کے لوگ زمانوں سے قبائلی دشمنیوں کا تجربہ رکھتے ہیں اور اپنے جغرافیائی محل وقوع کا دشمنیوں میں بہت زیادہ مہارت رکھتے ہیں صوبیدار فضل ربی بھی ان لوگوں میں شامل تھے جو جنگی حالات کا مقابلہ کرنے کا ھنر جانتے تھے وہ لوگ جو امن کے دشمن تھے وہ انکی اہمیت کو جانتے تھے اس لئے اس دن انکو ستائیس لوگوں سمیت شہید کیا گیا جنمیں حاجی رمضان کا جواں سال بیٹا اور بہت سے دیگر اہم افراد شامل تھے ۔ کسی شخص کی موت صرف ایک فرد کی موت نہیں ہوتی بلکہ اس کے پیچھے ایک پورا خاندان سماجی طور پر متاثر ہوتا ہے ایک پوری زندگی متاثر ہوتی ہے اس لئے اربابِ اقتدار سے گزارش ہے کہ باجوڑ لیویز فورس کے شھداء کو شھداء پیکج سمیت وہ تمام حقوق دئے جائیں جو انکا حق بنتا ہے اور ساتھ ہی ان قومی مشران اور عام لوگوں کو بھی اس پیکج میں شامل کیا جائیں جو اس جنگی اقتصاد کی نظر ہوئے ہیں اور جنکے خون کے بدلے اربوں ڈالرز آئیے ہیں ۔ ان سب کچھ میں ان شھداء کا بھی حق بنتا ہے وہ سرکاری ہو یا سویلین جبکہ اصل سوال اس مٹی کے امن کا ہے آج بھی امن پر باجوڑ میں سوالیہ نشان ہے منظم دھشت گردی مختلف شکلوں میں اپنے پنجے گاڑے ہوئے ہیں قومی مشران سیکیورٹی فورسز پر حملے ہورہے ہیں ۔ اس طویل بدامنی نے قوم کو نفسیاتی مریض بنادیا ہے خداء را مزید اس خطے کو اس بربادی و خوف کے ماحول سے نکالا جائیں۔ ساتھ ہی ایک اور بات پورے مسلمان امت کیلئے باعث تشویش ہے اور وہ یہ کہ موجودہ زمانے میں آپ کتنا ہی خود کفیل کیوں نہ ہو جائے آپ باقی دنیا سے علیحدہ رھ رہ کر نہیں رھ سکتے جو بھی ریاست دنیا سے کٹ گیا یک تنھائی کا شکار ہو گیا تو وہ پانی سے نکالے گئے مچھلی کی طرح زیادہ دیر نہیں جی سکتا اسوقت دنیا میں اکثریتی عسکریت پسند تنظیمیں مسلمان ممالک میں ہے جبکہ یہ تمام تنظیمیں اسلام کا نام لیکر مسلح جدوجہد کے ذریعے خلافت اور دنیا کے فتوحات کے خواب دیکھتی ہے مسلمانوں کو ایک عالمی اجماع کے ذریعے اس روش کیخلاف باقی دنیا کیساتھ بات کرنی چاھئے وہ مسائل جو مسلم ممالک میں عالمی طاقتوں کی ایما پر پیدا کی گئ ہیں ان کے حل اور اسلام کے حقیقی پرامن بقاء باہمی اور احترام انسانیت کے رخ کو ببانگ دہل واضح کردینا چاھئے عرب ممالک کو اپنے ماضی کے ان پالیسیوں جسمیں انھوں نے سیاسی اغراض کی خاطر امریکہ کی ایماء پر اسلام کے روشن اور حقیقی چہرے کا استحصال کرکے ،وھابی ازم ،کو پروموٹ کیا تھا جس کے اثرات سے آج تک مسلمان نہیں نکل رہے سارے مسلمانوں سے معافی مانگی چاھئے اور اس کے نتیجے میں پیش آنے والے سماجی بربادیوں کا مداوا کرنا چاھئے انتھاء پسندی اب بہت سو کیلئے منافع بخش کاروبار کیساتھ ایک نفسیاتی مسئلہ بھی بنا ہے ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ انسانی دماغ میں قدرتی طور پر ایک نظام موجود ہوتا ہے جو اپنی انا کا دفاع کرتا ہے اور تمام حقائق کی نفی کرتا ہے اور اس کے نتیجے میں دماغ پر اتنا دباؤ پڑتا ہے کہ وہ اسے برداشت نہیں کرسکتا- اس کیفیت کو ‘انکاری’ (Denial) کیفیت کہتے ہیں-وہ مذہبی شدت پسند گروپ جو اسلام کے بدنامی کا باعث بن رہے ہیں یہ ہیں ! کاکیشیاکے علاقے میں چیچن مذہبی انتھاء پسند گروپ ہے جوچیچنیا اور انگوشتیامیں اپنی کاروائیاں کررہاہے۔ وسطی ایشیا میں اسلامک موومنٹ آف اُزبکستان، چین میں ایسٹ ترکستان انڈیپنڈنٹ موومنٹ یعنی ETIM، افغانستان اور پاکستان میں مرکزی افغان طالبان، تحریک طالبان پاکستان (مُلافضل اللہ گروپ)، تحریک طالبان پاکستان (جماعت الحرارگروپ)، پنجابی طالبان، تحریک طالبان افغانستان ۔برصغیرکے ممالک برما، بنگلہ دیش اور بھارت میں القاعدہ اِن دہ انڈین سب کانٹیننٹ Al-Qaeda in the Indian Sub Continent۔ انڈونیشیا، ملائشیا اور تھائی لینڈمیں الجماعۃ السلامیہ۔ جزیرہ نمائے عرب میں القاعدہ اِن عرب پینینسولا(AQAP)، مشرق وسطیٰ کے ممالک عراق اورشام میں دولت الاسلامیہ فی العراق والشام (داعش) اور جبہہ النصرۃ۔شمالی افریقہ میں القاعدہ اِن اسلامِک مغرب (AQIM)،نائجیریا میں بوکوحرام۔ سومالیہ میں الشباب وغیرہ وغیرہ۔57مسلمان ممالک میں شایدہی کوئی ایساخوش نصیب ملک ہوگاجہاں پر مذہبی دہشت گردتنظیم وجودنہ رکھتاہویاپھرمذہبی دہشت گردی کاکوئی واقعہ رونمانہ ہواہو۔مشرق بعیدکے ملک فلپائن میں ابوسیاف گروپ ہے جسکے کئی کمانڈرزافغانستان کی مذہبی بنیادپرست شخص عبدالرب رسول سیاف کے شاگردرہ چکے ہیں اوراُسی کے نام کوعاریتاً لیتے ہوئے ابوسیاف گروپ تشکیل دیاہے۔
شھداء ئے باجوڑ !4 مئی۔ (مولانا خانزیب)
You might also like