رمضان المبارک کے آخری عشرہ کی ایک خصوصیت ”لیلۃالقدر“ ہے، جس کو قرآن کریم میں ہزار مہینوں سے بہتر فرمایا گیاہے، گویاجو شخص اس رات میں اپنی ہمت وتوفیق کے مطابق عبادت کرے اس کو ایک ہزار مہینے کی عبادت سے زیادہ ثواب عطاکیا جاتا ہے، اور یہ ”زیادہ“کتنا ہے؟ اس کی مقدار حق تعالیٰ شانہ کے سوا کسی کو معلوم نہیں،حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ لیلۃالقدر کو آخری طاق راتوں میں تلاش کیا کرو، آنحضرت ﷺ کولیلۃالقدر معین طور پر بتائی گئی تھی،مگر حکمت خداوندی کے تحت وہ بھلادی گئی،آپ ؐ نے ارشاد فرمایاکہ: ”شاید یہی تمہارے حق میں بہتر ہو۔“ حضرت عبادہ بن الصامت ؓ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ باہر تشریف لائے تاکہ ہمیں لیلۃ القدر کے بارے میں خبردیں مگر دومسلمان آپس میں جھگڑرہے تھے تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں اس لئے آیا تھا تاکہ تمہیں شب قدر کی خبردوں،مگر فلاں فلاں اشخاص میں جھگڑا ہورہاتھا،جس کی وجہ سے اس کی تعین اٹھالی گئی،کیا بعید ہے کہ یہ اٹھالینا اللہ تعالیٰ کے علم میں بہتر ہو، اب اس رات کو نویں،ساتویں اور پانچویں رات میں تلاش کرو،کیونکہ اگر وہ معین طور پر بتادی جاتی تو ممکن تھا کہ کچھ لوگ اسی حدیث پر بھروسہ کرکے بیٹھ جاتے،مگر حق تعالیٰ کو منظور تھا کہ یہ امت اس خیر وسعادت کی تلاش میں لگی رہے اور یوں اس کے لئے ہر شب شب قدر بن جائے،مومن رمضان مبارک کی پہلی رات ہی سے شب قدر کی تلاش کا مشتاق ہوجاتا ہے اور ہر رات کی محنت وعبادت اسے شب قدر کی برکات کے حصول کے لئے مستعدبناتی ہے، اس طرح اس کی ہر رات گویا شب قدر بن جاتی ہے، ایک حکمت اس میں یہ تھی کہ اگر شب قدر معین کردی جاتی اور خدانخواستہ کوئی شخص اس رات میں گناہ اور معصیت کی گندگی میں ملوث ہوتا تو یہ رات اس کی شقاوت وبدبختی کی دلیل بن جاتی، جیسے کوئی شخص نعوذ باللہ بیت اللہ شریف میں بدکاری کا ارتکاب کرے تو اس کے محروم وبد قسمت ہونے پر مہر لگ جاتی ہے۔
لیلۃ القدر میں آسمان سے فرشتوں کا نزول ہوتا ہے اور جو مؤمن اس رات ذکر وعبادت الٰہی میں مشغول ہو فرشتے اس کو سلام کہتے ہیں،اور ان کے لئے دعائیں کرتے ہیں،کتنے خوش قسمت ہیں وہ لوگ جن سے فرشتے مصافحہ کریں،ان کو سلام کریں اور ان کے لئے دعائیں کریں،نیز جو مؤمن دعا میں مشغول ہو فرشتے اس کی دعا پر آمین کہتے ہیں،گویا یہ رات خصوصیت کے ساتھ قبولیت دعاکی رات ہے۔
جو شخص شب قدر میں ذکر وعبادت اور دعا والتجامیں مشغول رہے اس کو اس رات میں عبادت کرنے کا پورا ثواب ملتا ہے، خواہ اس کو کوئی چیز ظاہری آنکھوں سے نظر نہ آئے۔
شب قدر میں رات بھر عبادت کرنا اور ایک لمحہ کے لئے بھی غافل نہ ہونا بڑی بلند ہمتی کی بات ہے لیکن اگر کوئی شخص ساری رات عبادت کرنے کا تحمل نہ رکھتا ہو جس قدر بھی محنت کرسکتا ہے کرے، ایک حدیث میں فرمایا ہے کہ جس شخص نے عشاء کی نماز جماعت کے ساتھ پڑھی گویا اس کو ایسا ثواب ہے جیسے اس نے آدھی رات عبادت کی اور جس نے عشاء اور فجر دونوں نمازیں جماعت کے ساتھ پڑھیں اس نے گویا پوری رات عبادت کی۔ پس اگر کوئی زیادہ نہیں کرسکتا تو کم ازکم اتنا تو ہر مسلمان کو کرنا چاہئے کہ آخری عشرہ کی راتوں میں نماز عشاء اور فجر جماعت کے ساتھ فوت نہ ہو۔
سورج غروب ہونے سے لے کر صبح صادق تک لیلۃ القدر ہی رہتی ہے، اس لئے مغرب وعشاء کے درمیان کے وقت کو بھی بہت قیمتی سمجھنا چاہئے اور اس کو غفلت میں نہ گزار نا چاہئے۔
لیلۃ القدر کی فضلیت حاصل کرنے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ آدمی آخری عشرہ میں اعتکاف میں بیٹھ جائے کیونکہ اعتکاف خود ایک مستقل عبادت ہے، اس طرح آخری عشرہ کا ایک لمحہ بھی عبادت کے بغیر نہیں گزرے گا اور انشاء اللہ لیلۃ القدر کی فضلیت یقینی طور پر میسر آجائے گی۔
لیلۃالقدر کا علم مرتفع ہونے کی مصلحتیں:؎
لیلۃ القدر کوئی معین رات نہیں،بعض کا قول ہے کہ پورے سال میں کوئی رات ہے،بعض کا قول ہے کہ پورے رمضان میں کوئی رات ہے،بعض نے کہا کہ آخری عشرے میں، پھر اس کی طاق راتوں میں زیادہ احتمال ہے۔مگر اس رات کی تعین مندرجہ مصلحتوں کی وجہ سے اُٹھالی گئی:
1) غفلت سے بچانا: اگر معلوم ہوجاتا کہ فلاں رات لیلۃالقدر ہے تواس رات میں تو عبادت کرتے اور دوسری راتوں میں سوتے رہتے،علم نہ ہونے کی صورت میں ہر رات کے بارے میں امکان ہے کہ یہی لیلۃالقدر ہو، اس لئے ہوشیاررہو، ہر وقت ہوشیار رہو۔
2)سخت عذاب سے بچانا: اگر پتہ چل جاتا کہ فلاں رات ہے تو بہت سے لوگ اس میں بھی گناہ نہ چھوڑتے،اور نہیں تو کم ازکم داڑھی تو منڈاہی لیتے یا کٹوالیتے۔شرعی پردہ سے بغاوت، غیبت کرنا،ٹخنے ڈھانکنا وغیرہ،بے شمار گناہ جنہیں آج کامسلمان گناہ نہیں سمجھتا،سب کچھ کرتا رہتا،لیلۃالقدر جیس مقدس رات میں بھی اللہ تعالیٰ کی بغاوتوں اور نافرمانیوں سے باز نہ آتا تو اس پر عذاب بہت سخت ہوتا، اس لئے یہ بھی اللہ کی رحمت ہے کہ لیلۃ القدر کا علم واپس لے کر بندوں کو سخت عذاب سے بچالیا۔
3) افسرد گی سے بچانا: اگر کسی شخص سے وہ رات کسی عذر سے یااتفاقاً چھوٹ جاتی تو افسرد گی کی وجہ سے آئیندہ راتوں میں سے کسی رات بھی عبادت نصیب نہ ہوتی،تعین نہ ہونے کی وجہ سے کئی راتوں کی عبادت نصیب ہوجاتی ہے۔
4)زیادہ اجر دینا: جتنی راتیں لیلۃالقدر کی طلب میں خرچ ہوتی ہیں ان کا مستقل ثواب علیحدہ ملے گا۔
شب قدر کی دُعا:
اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہے کہ: میں نے آنخضرت ﷺ سے پوچھا کہ اگر میں شب قدر کو پاؤں تو کیا مانگوں؟ فرمایا کہ: اللہ رَب العزت سے یہ کہنا کہ:
اللھم اِنک عفو کریم تحب العفو فاعف عَنِی
ترجمہ: ”یااللہ! آپ بہت معاف کرنے والے ہیں، اور معاف کرنے کو پسند فرماتے ہیں،یااللہ! مجھے بھی معاف کردیجئے۔“
شب قدر کی دُعا رسول ﷺ نے یہ تلقین فرمائی: ”اللھم انک عفو“یااللہ آپ بہت معاف کرنے والے ہیں، ”تحب العفو“ آپ معاف کرنے کو پسند فرماتے ہیں، مخلوق انتقام لینا چاہتی ہے اور اِنتقام کو پسند کرتی ہے،لیکن یااللہ آپ انتقام لینے کے بجائے معاف کرنے کو پسند فرماتے ہیں، ”فا عف عَنِی“ پس مجھے بھی معاف فرمادیجئے۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو معاف فرمائے۔
بے شک اگر یہ دعاقبول ہوگئی (اور یقیناً قبول ہوگی بشر طیکہ اخلاص سے مانگی ہو) تو یقین رکھئے کہ بیڑہ پارہوگیا،وہ کریم آقا ایک بار معاف کردینے کے بعد دوبارہ نہیں پکڑتے،پس جس سعید کو شب قدر میں دعا مانگنے کی توفیق ہوگئی اس کا مقدر قابل رشک ہے،اس مبارک تذکرہ کو آنحضرت ﷺ کے ایک ارشاد گرامی پر ختم کرتا ہوں:
ترجمہ: حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ ”جب شب قدر آتی ہے تو جبریل ؑ ملائکہ کی ایک جماعت کے ساتھ نازل ہوتے ہیں اور ہر بندے کو جو کھڑا یا بیٹھا اللہ تعالیٰ کا ذکر کررہا ہو، سلام کہتے ہیں اور اس کے لئے دعا کرتے ہیں، پس جب (رمضان شریف گزرنے پر) عید کا دن آتا ہے،تو اللہ تعالیٰ فرشتوں کے سامنے اپنے بندوں پر فخر فرماتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اے میرے فرشتو! اس مزدور کا کیا بدلہ ہے جس نے اپنا کام پورا پورا ادا کردیا ہو؟ فرشتے عرض کرتے ہیں کہ اے ہمارے رب! اس کابدلہ یہی ہے کہ اس کی مزدوری پوری پوری دی جائے،اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: اے فرشتو! میرے بندے اور بندیوں نے اپنا وہ فریضہ جو ان پر لازم تھا، ادا کردیا،اور اب وہ مجھ سے دعا کی پکار کرتے ہوئے (عید کی نماز کو) نکلے ہیں،پس میری عزت وجلال میرے کرم وعفو اور میری بلندیئ مرتبت کی قسم! میں ان کی دعا ضرور قبول کروں گا، پھر اللہ تعالیٰ اپنے ان مخلص بندوں سے فرماتے ہیں کہ جاؤ میں نے تمہاری بخشش کردی،اور تمہاری برائیوں کو نیکیوں سے بدل دیا۔آنحضرت ﷺ نے فرمایا:”پس یہ لوگ بخشے بخشائے گھروں کو واپس لوٹتے ہیں۔“
اس حدیث پاک سے رمضان مبارک کی برکات کا اندازہ کیا جاسکتا ہے اور یہ بھی کہ حق تعالیٰ جل شانہ کو اپنے بندوں سے کتنی محبت ہے،اور ان کے حال پر کتنی شفقت وعنایت ہے، حق تعالیٰ ہم سب کو بھی ماہ مبارک کی برکتیں نصیب فرمائیں اور اس کا حق ادا کرکے حق تعالیٰ شانہ کی رحمت ومغفرت کا مورد بنائیں۔
لیلۃالقدرکی برکات اور اس کے حصول کا طریقہ (مجاہد خان ترنگزئی)
You might also like