بغاوت اور غداری دوا لگ راستے ضرور ہیں مگر دونوں کا انجام ایک سا ہوتا ہے۔ بغاوت کو کچلنابہادری اور غداری کو ڈھونڈ نا حکمت کہلاتی ہے۔ دنیا کی تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے جن سے ہم عبرت حاصل کرسکیں۔ خلافت عثمانیہ، مغلیہ سلطنت، سلطنت روم،عباسی سلطنت،فاطمی سلطنت،سلطنت فارس،سلجوق سلطنت خواہ کسی بھی ریاست جو زوال کا شکار ہوئی اس کے پیچھے غداروں کا ہاتھ نمایاں نظر آتا ہے۔ ان کی مثال کسی وائرس کی سی ہوتی ہے۔ جو چپکے سے سرائیت کر جاتے ہیں اور پھر بیماری پھیلانا شروع کردیتے ہیں۔ ان کا کام مکروفریب کی فضا بنا کر پراپیگنڈا کرنا ہوتا ہے۔ ان پراپیگنڈوں کی زد میں آکر عوام الناس کب ان فتنوں کا حصہ بن جاتی ہے انہیں ادراک ہی نہیں ہوتا۔ یہ لوگ جذبات پر وار کرتے ہیں اور خاص طور پر مسلمان انتہائی جذباتی وقوع پذیر ہوتے ہیں۔ حالانکہ مومن کی پہچان فہیم ومد بر بتائی گئی ہے۔
ابلاغ کی اہمیت بڑی ہے۔ کسی بھی ریاست میں ایک ستون کی سی اہمیت رکھتا ہے۔ نبی کریمﷺ نے فرمایا فتنوں سے وہی لوگ بچ پائیں گے جنہیں ان کے بارے میں علم ہوگا۔ ابلاغ رکھنے سے ہی ریاستیں اپنی پالیسیاں مرتب کرتی ہیں اور اسی کے مطابق اقدامات اٹھاتی ہیں۔ مگر یہی ابلاغ ریاستوں کی تباہی کا مؤجب اسوقت بنتاہے جب اسے غلط معلومات پہنچانے اور حساس معلومات کو عام کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہو۔ غداری کے پراپیگنڈوں میں ابلاغ ہی سب سے بڑا ہتھیار ہوتا ہے۔ غداروں کو ڈھونڈ نا اور پھر ان کے سروں کو کچلنا بالکل ایسا ہی ہے جیسے جسم کے کسی گلے سڑے حصے کو جسم سے الگ کر دیا جائے۔
دنیا میں بہت سی اقوام آباد ہیں۔ ان میں زیادہ تر مذہبی بنیادوں پر بٹے ہوئے ہیں۔ان کی عقیدت مندی اور جذبات بھی مذہبی قواعد و ضوابط اور اس کے لیے خدمات سر انجام دینے والی شخصیات کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ اسی طرح لوگ کہیں زبانوں، کہیں قبائل، کہیں ملکی بنیادوں پر قومیت کے دھاروں میں بندھے ہیں۔ ان تعصبات نے ارتقائی طور پر جنم لیا ہے۔ اور ان ارتقائی بنیادوں میں پراپیگنڈے اور غداری کرنے والوں کا خون شامل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کوئی بھی ارتقائی تبدیلی دیرپا ثابت نہیں ہوپائی سوائے مذہبی بنیادوں کے۔ ان غداروں میں کئی قسم کے لوگ شامل ہیں۔ بہت سے لوگ غداروں کی ان صفوں میں کھڑے ہوتے ہیں، جن سے انتہائی سنجیدہ اور پیچیدہ نقصانات ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ دشمنوں کے ساتھ ضمیر و ایمان کا سودا کر لیتے ہیں۔ ان میں کئی دفعہ دشمنوں کے پالتو لوگ ہوتے ہیں۔دوسری قسم کے غدار محض عہدوں یا حرص و لالچ کی وجہ سے نقصان پہنچاتے ہیں۔ یہ دشمنوں کے ساتھ تو نہیں ہوتے مگر ان کی سازشیں دشمنوں کے مذموم عزائم کے لیے راہیں ضرور ہموار کرتی ہیں۔ اور تیسر ی قسم کے لوگ جانے انجانے غداری کا حصہ بن جانے والے ہیں۔ ایسے لوگوں کی نااندیشی کی وجہ سے دشمن بلی کی طرح گھس کر وار کرجاتا ہے۔
دراصل ان غداروں کا کام اپنے اپنے دائرے میں لوگوں کے درمیان تقسیم کرنی ہوتی ہے اور تعصبات پھیلانے ہوتے ہیں۔ اگر یہ ریا ستی سطح پر ہوتو ریاست کے اندر بہت سی ریاستیں جنم لینے لگ جاتی ہیں۔ ہر دوسر ا شخص خود کو ریاست سمجھنے لگتا ہے اور یوں ریاست کا شیرازہ بکھرنے لگتاہے۔ اگر ہم پاکستان کی حالت پر غور کریں تو اس جمہوری نظام کے دعوے نے جتنا نقصان ہمارے اتحاد اور باہی ہم آہنگی کے جذبے کو پہنچایا ہے!اس کی نظیر نہیں ملتی۔ہر دوسرا راہ نما مطلق العنان بادشاہ بننا چاہتا ہے۔ خو د نمائی میں انہیں جس حد تک بھی گرنا پڑجائے، گر جاتے ہیں۔ اس سے قطع نظر کہ ان کے ایسے اعمال کی وجہ سے ریاست اور ریاستی اداروں کو کیا نقصان ہو سکتا ہے۔
حال ہی میں جب فرانس نے گستاخانہ خاکے نشر کیے تو اس پر مسلمہ امہ کا رد عمل مختلف تھا مگر کفار اسے آزادی اظہار رائے کانام دیتے ہیں۔ پاکستان میں بھی ہر جماعت کا رد عمل مختلف تھا اور یہ واضع ہوگیا کہ سب کے سب اپنی سیاست اور خود نمائی کے لیے اس جذباتی عقیدت مندی کو کمارہے تھے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ تمام جماعتیں مل بیٹھ کر آزادی اظہار رائے کا قانون پاس کرتیں اور اغیار کوانہیں کی زبان میں منہ توڑ جواب دیا جاتا۔ ہولو کاسٹ کے خاکے بناکر وائرل کیے جاتے اور ایسے لوگوں کو نکیل ڈالی جاتی۔ اس طرح دیگر غیر مسلم مما لک بھی ناموس رسالت مآب ﷺکے قوانین پا س کرنے کے لیے مجبور ہوجاتے۔ مگر اس کے برعکس پاکستان میں اپنے ہی لوگوں کو شہید کیا گیا، دشمنوں کے لیے راہیں ہموار کی گئیں، اپنے ہی اداروں کی ساکھ کو نشانہ بنایا گیا، معصوم لوگوں کو ریاست کا دشمن بنا دیا گیا اور آج نتیجہ یہ نکلا کہ یورپی یونین نے پاکستان کے ساتھ اقتصادی تعاون جاری رکھنے کے لیے شرط رکھی ہے کہ ناموس رسالت ﷺ کا قانون ختم کرے۔ ایک طرف پاکستان کے لیے اقتصادی بقا ء ہے تو دوسری طرف خاتم النبینﷺ کی ناموس جن پر ہماری آل اولاد بھی قربان ہو۔ یہاں کرنے کا کام یہ ہے کہ پاکستان معیشت کو ایک طرف رکھ کر سب سے پہلے تو یورپی یونین کو اسکی زبان میں جواب دیا جائے۔ عوام الناس کو چاہیے خود فیصلہ کرے کہ ان کی صفوں میں غدار کون ہیں جو انہیں ریاست کے خلا ف بھڑکاتے ہیں اور پھر ان کا محاسبہ کرے۔ جب تک غداروں سے ریاست کو پاک نہیں کیا جائے گا تب تک یہ سوچنا کہ ہم آزاد ملک ہیں اور اپنی آزادی کے ساتھ معاشی، معاشرتی اور سماجی زندگی گزار سکتے ہیں تو یہ محض ایک دھوکا ہے حقیقت نہیں۔
آج جب پاکستان پر یہ کٹھن مرحلہ آیا ہے تو تمام سیاسی و مذہبی جماعتیں عشق رسولﷺ کو ثابت کرتے ہوئے اپنے مال کو پاکستان کی اقتصادی بقاء کیلئے پیش کر دیں تاکہ حکومت بھی سخت فیصلے لینے کی جرأت کر سکے۔