حکومت نے جب سے رواں مالی سال میں گروتھ کے 3.9 فیصد ہونے کا امکان ظاہرکیا ہے،حزب اختلاف کی صفوں میں گویا بھونچال ساآگیا ہے باالخصوص اس پرمسلم لیگ ن نے سخت ردِ عمل کا مظاہرہ کیا اور 3.9 فیصد گروتھ کو شمار یات کی ہیرا پھیری قرار دیا، حزب اختلاف کی جانب سے اس قسم کے رد عمل کوسیاسی معاملات کی حد تک تو مانا جاسکتا ہے کہ اپوزیشن والوں کا کا کام ہی مخالفت کرنا ہوتاہے لیکن بعض ملکی معاشی معاملات میں حقائق کوتوڑ مروڑ کر پیش کرنا اور سہی کوغلط ثابت کرنا ملک اور عوام کے ساتھ تو زیادتی کرنے کے مترادف ہوتاہے!جس وقت عالمی اداروں نے 1.50 فیصد اور 2فیصد جی ڈی پی کی پیشنگوئی کی تھی اس وقت تو حزب اختلاف نے آسمان سر پر نہیں اٹھایا اور اس خبر پر توبغلیں بجائی گئیں اور میڈیا میں آکر یہ کہا گیاکہ کہ اب مہنگائی اس قدر بڑھے گی کہ ا سے سنبھالنا مشکل ہوجائے گا، میں سمجھتاہوں کہ پی ڈی ایم کی تحریک کاشیرازہ بکھرچکاہے متواتر ناکامیوں کے بعد اپوزیشن اب کبھی جہانگیر ترین گروپ پر اور کبھی عدالتوں سے حکومت گرانے کی توقعات باند ھ لیتی ہے، عالمی اداروں کی پیشنگوئی کے باوجود اسٹیٹ بینک نے 3 فیصد گروتھ کی پیشنگوئی کی تھی جب نیشنل اکاؤنٹس کمیٹی نے 3.9 فیصد کا اعلان کیا توکہا گیا کہ یہ اعداد شمار کا گھپلا ہے جبکہ یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں کہ موجودہ وزیر خزانہ شوکت ترین صاحب نے اپوزیشن کو یاد دلایا کہ جب وہ پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں وہ وزیر خزانہ تھے تو انہوں نے تجویز کیا تھا کہ نیشنل اکاؤنٹس کمیٹی کو وزارت ِ خزانہ کے ماتحت ہونے کے بجائے پلاننگ ڈویژن کے ماتحت ہونا چاہیے اس پر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن نے ایسا کرنے سے گریز کیا یہ کام PTI کی حکومت آنے کے بعد ہوا اور اس وقت نیشنل اکاؤنٹس کمیٹی پلاننگ ڈویژن کے تحت آزاد ادارہ ہے جسکی وجہ سے یہ تمام اداد و شمار نا قابل تردید شواہد کیساتھ سامنے آئے ہیں اس وقت صورت حال یہ ہے کہ اس تحریر کے وقت معیشت کا حجم 263ارب ڈالر سے بڑھکر 298 ارب ڈالر ہوگیا ہے اس سال فی کس آمدنی کا تخمینہ2 لاکھ 46 چھیالیس ہزار روپے لگایا گیا ہے جوکہ پچھلے سال کی نسبت 14.6 فیصد زیادہ ہے۔اس وقت ملک میں ذرِ مبادلہ کے ذخائر بڑھ کر 23 ارب ڈالر کی سطح پر پہنچ گئے ہیں۔دوسری جانب بیرون ملک مقیم پاکستانیوں نے اس سال ریکارڈ توڑ ترسیلات زرِ کی ہیں اور رواں سال کے 10 مہینوں میں 24 ارب ڈالر سے زیادہ حکومت کو مل چکے ہیں یہ بیرون ملک موجود پاکستانیوں کی جانب سے ہمارے لیے اس سال کا سب سے بڑا تحفہ ہے اس مالی سال میں ۱ بتک ملکی ریٹیل اور ہول سیل سیکڑ میں 8.37% کا اضافہ ہواریٹیل اور ہول سیل سیکٹر ملکی جی ڈی پی میں تقریباً 19 فیصد بنتا ہے مختلف سیکٹرز میں گروتھ ریکارڈ کے مطابق ذراعت میں 2.7 فیصد انڈسٹرییز میں 3.57 فیصد اورسروسزکے شعبہ میں 4.43 گروتھ ہوئی ہے۔گندم، چاول، گنااور مکئی جیسی اہم اجناس میں 4.65فیصد اضافہ ہوا۔LSM(Large Scales Manufacturing) میں اس مالی سال کے 10مہینوں میں تقریباً 9% فیصد ہوا جوکہ 2011 میں پچھلے 10 سال کے بعد سب سے بڑا اضافہ ہے اسٹاک مارکیٹ لمیٹڈ کمپنیز کے منافع میں اس سال جنوری سے مارچ تک پچھلے سال کے مقابلے میں 33 فیصد اضافہ ہوا اس سال کے 10 مہینوں میں ٹیکسٹائیل ایکسپورٹ میں 9فیصد اضافہ ہواجبکہ 2013سے 2018 تک مسلم لیگ ن کی حکومت میں ایکسپورٹ کی مد میں ایک ڈالر کا اضافہ بھی نہیں ہوا تھا۔ ایپٹما (APTMA) کے مطابق پچھلے دس 10سالوں میں Textile ٹیکسٹائل زوال پزیررہی اور نہ ہی اس شعبے میں کسی قسم کی انویسٹنمنٹ ہوئی اور انرجی گیس کے مسائل PTI کی حکومت نے حل کئے یہی وجہ ہے کہ اس مالی سال میں ٹیکسٹائل ایکسپورٹ 16 ارب ڈالر کی ریکارڈ سطح پر پہنچنے کا امکان ہے کچھ ماہرین یہ بھی کہتے ہیں کہ جی ڈی پی گروتھ 3.94 فیصد کے بجائے یہ 4.5 فیصد تک ہوسکتی ہے انکا کہنا ہے کہ آٹو،سیمنٹ، سٹیل کو ویکھیں اسکی ڈیمانڈ پوری نہیں ہوپارہی اور جسطرح مینوفیکچرنگ سیکٹر گرو کر رہا ہے جسطرح معیشت پرفارم کر رہی ہے جسطرح روپیہ اسٹرونگ ہورہا ہے۔ جسطرح ایکسپورٹ بڑھ رہی ہے امید ہے کہ یہ گروتھ مزید آگے جائیگی صرف3 سال پہلے کرنٹ اکاؤنٹ کا خسارہ20ارب ڈالر تھا لیکن حکومت نے کچھ ضروری اور سخت اقدامات کئے انٹرسٹ ریٹ بڑھایا جسکے نتیجے میں مہنگائی تو بڑھی لیکن ان فوری اور ضروری اقدامات کے نتیجے میں بے مثال کامیابی حاصل ہوئی اور اب یہ کرنٹ اکاونٹ 800 ملین ڈالرسرپلس میں ہے جس سے کوئی بھی انکا ر نہیں کرسکتا۔ ایک رپورٹ کے مطابق ایف بی آر کی شوگر انڈسٹری سے وصول کئے جانے والا جنرل سیلز ٹیکس کے اعداد شمار چشم کشا اور مافیا کو بے نقاب کرنے اور ان کی کرپشن کی داستان عام کرنے کیلئے کافی ہیں موجودہ حکومت کی جانب سے شوگر ملز ڈیلرز کی سیلز ٹیکس میں رجسٹریشن کئے جانے سے رواں سال چینی کی بے نامی لین دین میں کمی کے باعث چینی پر سیلز ٹیکس کی وصولی میں اضافہ ہوا ہے ایف بی آر کے رواں مالی سال کے پہلے 6 ماہ کے اعداد شمار کے مطابق چینی کی مقامی فروخت سے 29 ارب 66 کروڑ 10 لاکھ روپ کے جنرل سیلز ٹیکس کی وصولی ہوئی جو گزشتہ مالی سال میں اتنی مدت کے دوران وصول کئے جانے والے 16 ارب 49 کروڑ روپے کے جنرل سیلز ٹیکس کے مقابلے میں 79.9% فیصد ذیادہ ہے اور کل ٹیکس وصولی کا 5.7 فیصد ہے یہ واضح ثبوت ہے کہ شوگر ڈیلرز کی سیلز ٹیکس رجسٹریشن سے چینی کی مقامی فروخت پر جنرل سیلز ٹیکس کی وصولی میں اضافہ ہو اہے۔ایک اور زبردست بات یہ ہے کہ حکومت نے ہاؤسنگ کا جو پیکجز دیا ہے یہ اگلے 15سال تک چل سکتا ہے کیونکہ پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ کسی حکومت نے عام آدمی کے بارے میں سوچاہے جس سے لوگ اپنے گھر اور چھت کی امید لگا رہے ہیں حکومت نے Low Budget Housing میں انٹرسٹ میں جو ڈسکاؤنٹ دیا ہے وہ ناقابل یقین ہے 4 فیصد پر حکومت خود فنانس مہیا کررہی ہے 3 لاکھ روپے کی سبٹڈی دے رہی ہے اگر دیکھاجائے تو پہلی بار پاکستان میں ایسا ہورہا ہے۔ جو اس سے پہلے کسی حکومت میں نہیں ہوا ہے،یہی وجہ ہے کہ سیمنٹ کی فروخت میں 71% فیصد کا اضافہ ہوا آٹو میں 67% فیصد کا فرٹیلائیز میں 56% فیصد کیمیکل میں 32 فیصد اور فوڈ ذمیں 31 فیصد اضافہ ریکارڈ ہوا 26 اور27 مئی کو مسلسل دو دن ڈیڑھ ارب سے زیادہ حصس کا ریکارڈ کاروبار ہوا جو کہ پرانا ریکارڈ سے 50فیصد زیادہ ہے جو سرمایہ کاروں کا اعتماد ہے اور یقینا یہ پاکستان کیلئے نیک شگون ہے ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان اب پیچھے پلٹ کر نہیں دیکھے گا۔نوٹ۔آپ کالم نگارکے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اورو اٹس ا پ پر رائے دیں.