ایک پرُنور روحانی محفل کی رُو داد (مولانا مجاہدخان ترنگزئی)

0


پشاور کے رہائشی علاقہ افغان کالونی پر اللہ تعالیٰ کا خصوصی فضل واحسان ہے۔کہ یہاں مدرسہ تعلیم القرآن للبنین والبنات جیسا ادارہ موجود ہے۔ جس کا مقصد خالص اللہ کے کتاب کی تعلیمات کو مخلوق خدا تک فی سبیل اللہ پہنچانے کا عزم ہے۔ گزشتہ روز مدرسہ ھذا میں سالانہ دستاربندی و 40 روزہ دورۂ تفسیر القرآن کے افتتاح کی تقریب منعقد ہوئی۔ جسمیں ایک طرف شعبہ حفظ القرآن، ترجمۃالقرآن اور ناظرۃ القرآن کے بچوں کے قرآن کریم کے اختتام کی خوشیاں تھی اور سب طلباء کے خاندان والے اس خوشی کے موقع پر پرُ مسرت چہروں سے رونق محفل تھے تو دوسری طرف قرآن کریم کے ترجمہ وتفسیر کے دورے کی افتتاح کی رعنائیاں ہی رعنائیاں تھی۔ ہر چہرے پر خوشی و شادمانی اور دین سے محبت کی دلیلیں عیاں تھی۔ چھوٹے بڑے، بوڑھے جوان، مرد وزن سب جوق درجوق محفل میں جمع ہورہے تھے۔ خواتین کیلئے بنات مدرسہ میں باپردہ انتظام کیا گیا تھا۔ دستاربندی والے طلباء شفاف صاف سفید پگڑی و لباس میں زیب تن فرشتوں کی مانند نورانی مخلوق کی تصویر پیش کررہے تھے۔ اساتذہ کرام طلباء کو پروگرام کے ترتیب کے بارے میں ہدایات دے رہے تھے اور طلباء کرام کو اپنی ذمہ داریوں کے حوالے سے آگاہ کررہے تھے۔ دوسری طرف مدرسہ کے نوجوانوں کا چاق وچوبند انتظامیہ اندرونی و بیرونی انتظامات اور پروگرام کے لوازمات درست کرنے کے بھاگ دوڑ میں مصروف عمل تھے۔ پروگرام کیلئے پولیس انتظامیہ کے بہادر جوان بھی سیکیورٹی پر مامور تھے، ان کی خوشی بھی دیدنی تھے اور ڈیوٹی کو ثواب سمجھ کر فخر سے کررہے تھے۔
پروگرام م میں تقریبا ً100طلباء کرام کی دستاربندی تھی۔ طلباء کے والدین خوشی سے پھولے نہیں سماں رہے تھے اور آنکھوں میں خوشی کے آنسوں بار بار آکر کچھ گرتے اور کچھ آشک واپس لوٹتے۔ یقیناً والدین کیلئے یہی حقیقی خوشی ہوتی ہے کہ اس کا بچہ اس پُر فتن دور میں قرآن کریم سے وابستہ ہوں اور پھر قرآن کو اختتام تک پہنچائے اور پھر ناظرہ کے بعد ترجمہ یا حفظ القرآن پڑھے۔ اور اسی طرح قرآن سے اس کا رشتہ ناطہ مضبوط ہوں تو والدین کو اپنے بچوں سے اُمید پیدا ہوجاتی ہے کہ چلو ہم نے خود کو دنیا کمانے کیلئے لگایا ہے مگر ہمارے بچے ہمارے آخرت میں ان شاء اللہ ہماری شفاعت کا ذریعہ بنے گے اور ہمیں جنت کے عظیم لباس وتاج کے حقدار ٹھہرائے گے۔
پروگرام میں بندہ ناچیز ایک خادم کی حیثیت سے تمام اُمور کی نگرانی کررہا تھا۔ اسلیئے طلباء کے والدین، مہمانوں، شاگردوں سے تھوڑا تھوڑا ملتا اور احوال پوچھ کر آگے کام کیلئے انتظامیہ سے رابطہ کیلئے بڑھتا۔ میں پروگرام کے جملہ اُمور کو باز کے نظر سے معائنہ کررہا تھا اور جہاں کمی نظر آتی تو فوراً وہ پوری کرلیتا۔
پروگرام میں ہمارے اہم مہمان خصوصی ہمارے استاد محترم اور اس دور کے قرآن کریم کے تفسیر کے عالمی مفسر جس کا درس قرآن پوری دنیا میں مشہور ومعروف ہے۔ اس کے درس میں بیک وقت تقریباً 50 ہزار تک طلباء وطالبات رمضان المبارک کے دورۂ تفسیر القرآن میں شرکت کرتے ہیں، وہ مبارک ہستی ہے، قائد انقلاب قرآنی شیخ القرآن مولانا محمد طینب طاہری مدظلہ۔
استاد محترم پہلی دفعہ ہمارے ادارے مدرسہ تعلیم القرآن افغان کالونی تشریف لارہے تھے۔ تو تمام ساتھی انتہائی خوش تھے اور شیخ صاحب کے استقبال کیلئے پورے علاقے کے لوگ موٹروے انٹر چینج کو نکلے ہوئے تھے۔ شیخ صاحب کو فل پروف سیکیورٹی کے حصار اور قافلے کی شکل میں علاقے کو پہنچایا گیا۔ تو طلباء کرام نے شیخ صاحب پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کی اور شاندار استقبال کیا۔ شیخ صاحب نے انتہائی خوشی کا اظہار کیا اور اہل علاقہ ومدرسہ کے منتظمین کے اخلاص کے ساتھ قرآنی کاوشوں کو سراہا۔
پروگرام کے دوسرے مہمان خصوصی ہمارے استاد محترم ؑعظیم مبلغ شیخ القرآن مولانا محمد سمیع الحق پشاوری صاحب تھے۔ اس کا بھی ساتھیوں نے پرتباک استقبال اور خوش آمدید کیا۔ پروگرام تلاوت کلام پاک اور نعت رسول ﷺ سے شروع ہوا۔
اول خطاب میں عظیم مبلغ مولانا محمد سمیع الحق پشاوری صاحب نے مجمع کو شیرین خطابت سے مدہوش کیا اور مدرسہ کے نگران بندۂ ناچیز کے سعی کو سراہا اور ساتھیوں کے خلوص پر اعتماد کا اظہار کیا۔ اس دوران استاد محترم شیخ القرآن مولانا محمد طیب طاہری مدظلہ کا قافلہ پہنچا تو نماز مغرب کے بعد وہ ہزاروں مجمع سے مخاطب ہوا اور جامع خطاب کیا۔ استاد محترم نے مدرسہ تعلیم القرآن کے کارگردگی کو سراہا اور مدرسہ کے مدیر اعلیٰ بندۂ ناچیز کیلئے تعریفی وتوصیفی کلمات ادا کیے۔
پروگرام میں انتہائی سخت گرمی تھی ہر بدن پسینے سے شرا بور تھا۔ کہ اس دوران بجلی کے تارے پھٹنے کی آواز آئی تو پنکھے روک گئے اور صرف UPS سے لائٹس اور لاؤڈ سپیکر آن تھا تو شیخ صاحب نے مجمع کو مسکراتے ہوئے فرمایا کہ اب کام درست ہوا اور ترغیباً فرمایا کہ ہماری گرمی نہیں ہوتی، گرمی تو اس کی ہوگی جس کا کوئی کام نہ ہوں۔ لہذا ہم یہاں اجروثواب کیلئے جمع ہوئے ہیں تو گرمی کیسی؟ اس بات سے تمام مجمع جو پہلے سے ہمہ تن گوش تھا، خوب تازہ ہوکر متوجہ ہوئے اور پسینوں میں ہر ایک کپڑا وبدن نہاتا ہوا شیخ صاحب کے باتوں سے مخطوظ ہورہا تھا۔ آخر میں شیخ صاحب نے اہل علاقہ ومدرسہ کے منتظمین کا ایک بار پھر شکریہ ادا کیا۔ اور مدرسہ کے ساتھ ہر قسم تعاون کی پیش کش کی۔ سب نے استاد محترم کے مطالبے پر لبیک کیا اور یوں طلباء کی دستاربندی وتقسیم اسناد کی تقریب شروع ہوئی۔ پروگرام میں سینکڑوں علماء کرام وطلباء بھی شریک تھے۔اور پروگرام کے اختتامی دعاء کے بعد مہمانوں سے ملنے کیلئے ہزاروں کی تعداد کا مجمع اُمڈ آیا تو تقریبا ً 20 منٹ عوام کا شیخ صاحب اور دیگر مہمانان گرامی سے سلام دعاء جاری رہی۔
پھر حضرت شیخ صاحب اور دیگر معزز مہمانان گرامی کیلئے طعام کا بندوبست تھا۔ تو سب مدیر اعلیٰ کے دفتر میں جمع ہوئے۔ اس دوران مختلف ٹی وی چینلز اور اخباری نمائندے شیخ صاحب سے انٹرویو لینے لگے، تو کھانہ بھی لگ گیا تھا۔
پروگرام میں علماء ومشائخ کے علاوہ عام عوام، سرکاری آفیسرز، صحافی، پولیس وسپیشل برانچ آفیسرز، اور دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے سینکڑوں لوگوں نے شرکت کی۔
یوں شیخ صاحب محترم اور دیگر مہمانان گرامی رخصت ہوئے اور انتظامیہ کے کندھوں سے بڑی ذمہ داری بخیر و عافیت انجام کو پہنچی اور سب نے اللہ کا شکریہ ادا کیا اور اللہ کے دین پر اس طرح استقامت کی دعائیں کی گئی۔

You might also like
Leave A Reply

Your email address will not be published.