فارسی زبان کا ایک شعر ہے: ہمت بلند دار کہ پیش خدارخلق؛باشد بقدر ہمت تو اعتبار تو۔مطلب اپنی ہمت بلند رکھئے کیونکہ خدا اور دنیا کے سامنے آپ کا اعتبار (عز ت و مرتبہ)خود آپ کی ہمت کے بقدر ہوتا ہے۔ یہی بات قرآن میں بھی فرمائی گئی ہے۔(وان لیس للانسان الا ماسعی)کہ”انسان کیلئے وہی ہوگا جس کی اس نے کوشش کی۔
انسان کو کامیابی بقدرہمت و محنت ملتی ہے۔جس بندے میں ہمت و حوصلہ ہوتا ہے اور جس کے دل میں بڑا بننے اور اُبھرنے کی زندہ مستقل اُمنگ ہوتی ہے۔ وہی ترقی کے زینے پر چڑھ کر مینار کے ٹاپ پر بیٹھ جاتے ہے۔اور جس بندے میں اس صلاحیت کی کمی ہوتی ہے تو خواہ وہ بڑا ہی ذہین کیوں نہ ہو ں وہ پیچھے ہی رہ جاتا ہے۔کیونک وہ عدم ہمت کے بنیاد پر جھجک و خوف کی کیفیت میں بڑا فیصلہ وقدم لینے سے کتراتا ہے۔ اگر لوگ دوسرے کے ماتحت سخت نوکری یا کام کرتے ہے یا کسی سے مجبور ہوکر اسکی ماتحتی وغلامی میں زندگی کو مشکل سے دوچار کردیتے ہیں۔اس جگہ اور نہ اُن لوگوں کو چھوڑ سکتا ہے جہاں وہ مجبور اً ٹہرا ہواہے اور بے دلی سے صرف ٹائم پاس کررہاہوتا ہے۔ تو نتیجۃً یہی کم ہمت اور غلام صفت ذہنیت کے حامل ادمی وہی کے وہی رہ جاتا ہے،جہاں پہلے سے تھا بلکہ جو صلاحیتں اُن میں تھی وہ بھی مفقود ہوکہ رہ جاتی ہے۔ اسی بات کو ایک مثال سے سمجھئے: ایک رسی اگر آپ نے ذور سے پکڑی ہوئی ہے۔اس کا ایک سرا آپ کے ہاتھ میں ہے جسے آپ نے کس کر اپنے ہاتھ کے گرد لپٹاہوا ہے۔ اسی رسی کا دوسرا سرا کسی اور کے ہاتھ میں ہے اور وہ اسے اپنی طرف کھینچ رہا ہے، اور پوری طاقت سے زور لگا رہا ہے۔ لیکن آپ اس رسی کو چھوڑنہیں رہے، اور آپ بھی رسی کو مضبوطی سے پکڑے رکھنے کی پوری کوشش کررہے ہیں۔ تو آخر کار یہ ہوگاکہ آہستہ آہستہ آپ کا ہاتھ درد کرنے لگے گا وہ جگہ جہاں رسی لپٹی ہوئی ہے وہ سرخ ہوجائیگی۔ پھر بھی آپ زور لگاتے ہے اوراسے نہ چھوڑے تو ہوسکتا ہے کہ آپ کے ہاتھ سے خون بہنا شروع ہوجائے۔ تو اب سوال یہ ہے کہ آپ اس رسی کو چھوڑ کیوں نہیں دیتے، ایسی چیز جو آپ کو تکلیف دے رہی ہے، آپ اس کو پکڑ کر کیوں رکھے ہوئے ہیں؟؟
ساتھیوں زندگی کے شاہراہ پر چلتے ہوئے سکھ بھی ملتے ہیں اور دکھ بھی،خوشیاں بھی ملتی ہیں اور غم بھی۔ لیکن ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم خوشیوں بھول جاتے ہیں اور دکھوں کو سینے سے لگا کر رکھتے ہیں اور انہیں یاد کر کے دکھی رہتے ہیں۔ کسی کی اچھی بات کو ہم جلدی بھول جاتے ہیں لیکن کسی کی کڑوی کسیلی بات کو ہم روزانہ دس بار یاد کرتے ہیں، چاہے اسے یاد کر کے ہم دکھی ہی کیوں نہ ہوں۔ بلکل اسی طرح جو لوگ ہمیں تکلیف پہنچاتے ہیں تو بجائے اس کو نظر انداز کرنے کے ہم اس کی بات کو مضبوطی سے پکڑے رکھتے ہیں، اور چھوڑتے نہیں۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ جتنا ہم درد میں رہیں گے اتنے ہی ہم کڑوے ہوتے جایئنگے۔ اگر دوسروں کا غصہ ہم اپنے اندر پکڑ کر رکھیں گے کہ فلاں نے ایسا کیوں کہا؟ وہ سمجھتا کیوں نہیں؟ اگر وہ نہ بدلہ تو اس اسطرح کرونگا؟ وغیرہ۔جب ہم یہ ساری باتیں سوچتے رہتے ہیں تو ہمیں احساس بھی نہیں ہوتا کہ ہم تکلیف و اذیت میں مبتلا رہتے ہیں۔ لوگوں کو بدلنے کے چکر میں ہم خود بدل جاتے ہیں۔
ساتھیوں یاد رکھے! ماضی میں اگر کسی نے اپنے رویے، قول یا فعل سے ہمیں دکھ پہنچایا تھا۔ تو اب اسے یاد کرکہ ہم اسے بدل نہیں سکتے ہیں بلکہ صرف اپنے آپ کو دکھی کرسکتے ہیں۔تو اس یا د کو بھول جانا اور آگے بڑھ جانا ہی بہتر ہے۔ اگر آپ آزادی چاہتے ہیں تو اپنے دکھوں اور پچھتاوں کے بوجھ کو اُتار پھینکنا ہوگا۔ ماضی میں اگر کسی سے جھگڑا یا تلخ کلامی ہوئی ہے تو اس کے بارے میں سوچ سوچ کر پریشان مت ہوتے رہیں اسے اپنا پورا دن اور اپنے دن کی خوشیاں برباد نہ کرنے دیں۔ بہترین انتقام یہ ہے کہ آپ اس شخص کو نظر انداز کرکے آگے بڑھتے رہے اور توکل علی اللہ و صبر واستقامت سے معمولات جاری رکھے۔ اور اچھی اور مثبت چیزوں پر فوکس کریں۔ کامیاب لوگوں کی یہ نشانی ہے کہ اُن کے ساتھ دکھوں اور چیلنجز کا ایک نہ ختم ہونے والا پرابلمز کا تھیلا ہوتا ہے مگر وہ اسے پکڑتے نہیں رکھتے، بلکہ وہ ماضی کہ تمام تلخیوں کو یکسر نظر انداز کرکے اپنے آج پر فوکس کرتے ہیں۔اور مظلوم بننے کی بجائے کہ ہر کسی سے اپنے بد حال کا اظہار کریں بلکہ وہ خود اعتمادی کی طاقت سے اپنے ماضی کو اپنا حال اور مستقبل خراب نہیں کرنے دیتے۔
ساتھیوں ہمیشہ ایک بات یاد رکھیں! جب آپ اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کو یا د کرتے رہے گے اور بدلہ و انتقام لینے کے بارے میں سوچتے رہیں گے توسب سے زیادہ نقصان آپ اپنے آپ کو پہنچایئں گے۔ کیونکہ دوسروں پر کیچڑ اُچھالنے کیلئے اپنے ہاتھ آپ کو پہلے گندے کرنے پڑیں گے۔ جب آپ بدلے اور انتقام کی بجائے جانے دیں گے اور نظرانداز کریں گے تو زندگی میں آپ آگے بڑھ جائیں گے اور پھر اصل جیت آپ کی ہوگی۔ زندگی میں ہر چیز اچھی نہیں ہوتی،آپ کی زندگی تب اچھی ہوگی جب آپ ہر چیز میں اچھائی تلاش کرناشروع کریں اور اپنے اندر چھپی صلاحیتوں پر بھروسہ کرکے اُسے مناسب وقت میں استعمال میں لائیں۔
ساتھیوں غیر متزلزل خود اعتمادی آپ کیلئے وہ مواقع فراہم کریں گے کہ آپ اس کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ آپ بڑے سے بڑاخواب دیکھنے، عظیم اہداف طے کرنے اور بڑے عزم کو کرنے کے قابل ہوجائیں گے۔ خود اعتمادی وہ مہارت ہے کہ جس پر ایک فرد کی کامیابی کی عمارت تعمیر ہوتی ہے۔جب آپ کی خود اعتمادی لا محدود ہوجائے گی تو اآپ کو ادراک ہوگا کہ آپ کے اندر آپ کے توقعات سے کہیں زیادہ قوت موجود ہے۔ تقریباً دو ہزار سال پہلے ارسطو نے کہا تھا۔ "خوشی ایک حالت ہے۔ یہ ایسی شے نہیں جسے اس کا تعاقب کرکے حاصل کیا جا سکے، بلکہ خوشی تو با مقصد سرگرمیوں میں مصروف رہنے سے ملتی ہے۔” تقریباً آج ہر کوئی اپنے کام, پیشے اور مصروفیت سے نا خوش ہے اور مجبوراً اسمیں اٹکا رہتا ہے اور اپنے آپ پر عدم اعتمادی کی وجہ سے نا خوشی کی زندگی گزار رہا ہوتا ہے۔ یادرکھئے کہ آپ کی زندگی پہت قیمتی ہے۔اس زندگہ کا ہر منٹ ہر لمحہ وہ کرتے گزارنا چاہتے جو آپ پسند کرتے ہیں اور آپ کیلئے اس کی اہمیت ہے، یہی کام آپ کو خوشی دے گا۔ آپ کی خود اعتمادی کی بلند سطح آپ کے ہر ہدف کے حصوں میں سب سے اہم عامل ہے۔ مگر مسلمان ہونے کے ناطے ہمیں اپنے خواہشات بے لگام نہیں چھوڑنے چاہیے بلکہ اپنی ہر پسندیدہ اکیٹیوٹی و مصروفیت کو قرآن و سنت کے بتائے ہوئے طریقے پر کرنا چاہیئے تب جاکر آپ سکون سے زندگی گزار سکتے ہیں۔ اسی لئے علامہ اقبال نے نوجوانوں کو یہ پیغام دیا ہے:
اپنے من ڈوب کر پاجا سراغ زندگی
تو اگر میرا نہیں بنتا تو نہ بن اپنا تو بن
”اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغ زندگی“ (مولانا مجاہد خان ترنگزئی )
You might also like