سلمان محمود
پاک افغان بارڈر پر واقع خیبرپختونخوا کا ضلع باجوڑ ایک عرصے سے تشدد کی لپیٹ میں ہے سیکیورٹی ذرائع سے موصول شدہ رپورٹس کے مطابق گزشتہ ایک سال سے باجوڑ میں ٹارگٹ کلنگ کے واقعات سامنے آ رہے ہیں. جس سے مقامی سطح پر تمام مکتبہ فکر میں امن و امان کے حوالے سے بے چینی پائی جا رہی ہے. باجوڑ میں صحافت سے وابستہ اور امن و امان کی صورتحال پر نظر رکھنے والے بلال یاسر کہتے ہیں کہ افغانستان میں امریکی فوج کی انخلا اور طالبان کی عبوری حکومت کے بعد پاک افغان بارڈر پر واقع پاکستانی قبائلی علاقوں میں امن و امان کو برقرار رکھنا ایک چیلنج بن گیا ہے. باجوڑ میں ٹارگٹ کلنگ کے کئی واقعات رپورٹ ہو چکے ہیں جس کے نتیجے میں مقامی صنعت کار، تاجر برادری، سیاسی ورکرز اور یہاں بسنے والی اقلیتی برادری غیر یقینی صورتحال کا سامنا کر رہے ہیں.
واضح رہے کہ پاکستان میں ہونے والی 2022 مردم شماری کے مطابق باجوڑ کی کل آبادی تقریباً 14 لاکھ سے زیادہ نفوس پر مشتمل ہے جس میں ٪0.005 اقلیت بھی شامل ہیں جن کی کل آبادی تقریبا 500 لگ بھگ افراد پر مشتمل ہے. لیکن 2007 سے لیکر اب تک باجوڑ میں سیکیورٹی حالات مختلف رہے ہیں جہاں لوگ سیکیورٹی آپریشنز کے نتیجے میں گھروں سے بے دخل ہوئے جبکہ حالات نارمل ہونے پر دوبارہ اپنے علاقوں کو لوٹ چکے ہیں.
صحافی بلال یاسر بتاتے ہیں کہ باجوڑ میں اقلیتی برادری کو مقامی لوگوں اور انتظامیہ کی جانب سے ہمیشہ تحفظ کا احساس دلایا گیا ہے. یہاں تشدد کے واقعات میں کئی بے گناہ لوگ ٹارگٹ کر کے مارے جاتے ہیں لیکن ان تمام کیسز میں اب تک اقلیتوں کے حوالے سے ٹارگٹ کلنگ، اغواء برائے تاوان یا دیگر تشدد کا کوئی واقعہ رپورٹ نہیں ہوا، جو ایک خوش آئند امر ہے جبکہ سیکیورٹی انتظامیہ کی بہترین کارکردگی کا ثبوت بھی ہے.
حاصل شدہ معلومات کے مطابق، باجوڑ میں عیسائی برادری آباد ہے جو باجوڑ کے سول کالونی خار اور ہیڈکوارٹر ہسپتال خار میں رہتے ہیں. سکھ برادری باجوڑ میں مستقل طور پر اباد نہیں لیکن کاروباری غرض سے خار، عنایت کلے اور پشت بازار میں یونانی دواخانہ یا پنسار کے روزگار سے وابستہ ہیں. مزید یہ کہ عیسائی برادری باجوڑ میں صفائی ستھرائی اور گند کو ٹھکانے لگانے کے روزگار میں مصروف ہیں جن کی زیادہ تعداد سول کالونی خار، ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال باجوڑ میں ہے اس کے علاوہ تقریباً باجوڑ کے تمام بازاروں میں جس میں خار عنایت کلے، نواگی اور پشت بازار شامل ہیں.
۔