سلمان محمود
میڈیا رپوٹس کے مطابق، پاکستان سے مغربی و دیگر بیرونی ممالک میں روزگار اور بہتر مستقبل تلاش کرنے کی غرض سے جانے والے افراد کی تعداد میں گزشتہ کئی سال سے اضافہ دیکھنے کو ملا ہے جس میں ایک خاصی تعداد صوبہ خیبرپختونخوا سے بھی ہے۔رپوٹس مزید بتاتے ہیں کہ باہر جانے والے افراد میں نئی ضم شدہ ضلع باجوڑ سے بھی شامل ہیں۔ ضلعی انتظامیہ باجوڑ کے مطابق، غیرقانونی طور پر بیرون ملک جانے والے افراد میں سے لیبیا میں اس وقت تقریبا 400 افراد قید ہیں جس میں باجوڑ کے 60 افراد بھی شامل ہیں۔تو اس بات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ باجوڑ میں نوجوان کتنے تیزی سے ملک چھوڑنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
واضح رہے کہ ماہرین زیادہ تر بے روزگاری سے پیدا شدہ مالی و نفسیاتی پیچیدگیوں کو بیرونی ملک جانے کی وجہ سے جڑ رہے ہیں۔ ایسے افراد میں زیادہ تر نوجوان ہیں جن کی عمریں اٹھارہ سال سے تیس سال کے درمیان ہیں۔ ایسے افراد کوشش کرتے ہیں کہ بیرون ملک بہتر روزگار پا کر اپنے خاندان کی کفالت کر سکیں۔ ماہرین مزید بتاتے ہیں کہ پاکستان میں بےروزگاری اور مہنگائی کی وجہ سے ایسے حالات بنے ہیں جو براہ راست بے روزگار افراد کو ڈیپریشن اور ٹینشن کے شکار بنا رہے ہیں، جن میں سب سے زیادہ متاثر طبقہ نوجوان افراد ہیں۔ ان جیسے حالات میں خیبر پختونخوا کے شمال میں واقع ضلع باجوڑ کے کئی افراد بھی غیر قانونی طریقے سے بیرون ملک قسمت آزمانے گئے ہیں۔
عمومی طور پر، بے روزگاری جو مالی اور نفسیاتی مسائل کو جنم دیتی ہے، اس نے باجوڑ میں بھی مقامی سطح پر کئی معاشرتی چیلنجز کو جنم دیا ہے۔ مقامی نتظامیہ کے مطابق پچھلے سال کی نسبت بےروزگاری اور مہنگائی کی وجہ سے باجوڑ میں موبائل سنیچنگ اور چوری کی واردات میں بھی اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔ سکیورٹی حکام بھی بے روزگاری کو ان معاشرتی مسائل کی ایک جز قرار دے رہے ہیں جبکہ معاشی سرگرمیاں و دیگر صحت مندانہ سرگرمیوں کی نہ ہونے کی وجہ سے زیادہ تر نوجوان آئس اور دوسرے نشے کی جانب بھی راغب ہو رہے ہیں۔
دوسری جانب، باجوڑ پاسپورٹ انتظامیہ کی مطابق رواں سال باجوڑ میں پاسپورٹ بنانے والوں کی تعداد میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے، روزانہ کی بنیاد پر سینکڑوں افراد پاسپورٹ بنانے اور ملک چھوڑنے کے لئے کوششیں کر رہے ہیں، غیر قانونی طور پر ملک چھوڑنے والے زیادہ تر باجوڑ کے نوجوان یورپ و خلیجی ممالک جانے کا راستے اختیار کرتے ہیں۔ جن میں سے اکثر افراد انسانی اسمگلنگ کرنے والے افراد کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں جن کی قیمتی جانیں بھی اکثر کھو جاتی ہیں۔
حکومت پاکستان نے رواں سال انسانی اسمگلنگ کرنے والوں کے خلاف کئی قانونی کاروائیاں کی ہیں جن میں سے کئی افراد گرفتار بھی کئے جا چکے ہیں۔