”نہ جب تک کٹ مروں میں خواجہ یثرب ؐکی حرمت پر“(حاجی محمد لطیف کھوکھر)

0

یہود و نصاریٰ شروع دن سے ہی شان اقدس میں نازیبا کلمات کہتے چلے آ رہے ہیں۔ کبھی یہودیہ عورتوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیں، کبھی مردوں نے گستاخانہ قصیدے کہے۔ کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو میں اشعار پڑھے اور کبھی نازیبا کلمات کہے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شان نبوت میں گستاخی کرنے والے بعض مردوں اور عورتوں کو بعض مواقع پر قتل کروا دیا۔ کبھی صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کو حکم دے کر اور کبھی انہیں پورے پروگرام کے ساتھ روانہ کر کے۔ کبھی کسی صحابی رضی اللہ عنہ نے حب نبی صلی اللہ علیہ وسلم میں خود گستاخ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے جگر کو چیر دیا اور کسی نے نذر مان لی کہ گستاخ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ضرور قتل کروں گا۔ کبھی کسی نے یہ عزم کر لیا کہ خود زندہ رہوں گا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا گستاخ۔ اور کبھی کسی نے تمام رشتہ داریوں کو ایک طرف رکھتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خود دیکھنے کے لئے گستاخ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور یہودیوں کے سردار کا سر آپکے سامنے لا کر رکھ دیا۔ جو گستاخان مسلمانوں کی تلواروں سے بچے رہے اللہ تعالیٰ نے انہیں کن عذابوں میں مبتلا کیا اور کس رسوائی کا وہ شکار ہوئے اور کس طرح گستاخ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو قبر نے اپنے اندر رکھنے کے بجائے باہر پھینک دیا تا کہ دنیا کیلئے عبرت بن جائے کہ گستاخ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا انجام کیا ہے انہیں تمام روایات و واقعات کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے یہ اوراق اپنوں اور بیگانوں کو پیغام دے رہے ہیں کہ کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اور بات کا حلیہ نہ بگاڑنا۔ ذات اور بات کا حلیہ بگاڑنے سے امام الانبیاء علیہما لسلام کی شان اقدس میں تو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ آپ اپنی دنیا و آخرت تباہ کر بیٹھو گے۔ رسوائی مقدر بن جائے گی۔جیسا کہ قرآن مجید میں اللہ رب العزت اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف دینے والوں کے بارے میں ارشاد فرما رہے ہیں۔(33/احزاب 57)۔ “بے شک جو لوگ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف دیتے ہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے دنیا و آخرت میں ان پر لعنت ہے اور ان کیلئے ذلیل کرنے والا عذاب تیار کر رکھا ہے۔“ ایک اندھے شخص کی ایک ام ولد لونڈی تھی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیا کرتی تھی وہ اسے منع کرتا تھا وہ گالیاں دینے سے باز نہیں آتی تھی وہ اسے جھڑکتا تھا مگر وہ نہ رکتی تھی ایک رات اس عورت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دینا شروع کیں اس نے ایک بھالا لے کر اس کے پیٹ میں پیوست کر دیا اور اسے زور سے دبا دیا جس سے وہ مر گئی۔ صبح اس کا تذکرہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو جمع کرکے فرمایا۔ میں اس آدمی کو قسم دیتا ہوں جس نے کیا۔ جو کچھ کیا۔ میرا اس پر حق ہے کہ وہ کھڑا ہو جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ بات سن کر ایک نابینا آدمی کھڑا ہو گیا۔ اضطراب کی کیفیت میں لوگوں کی گردنیں پھلانگتا ہوا آیا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بیٹھ گیا۔ اس نے آکر کہا۔ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں اسے منع کرتا تھا اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دینے سے باز نہیں آتی تھی۔ میں اسے جھڑکتا تھا مگر وہ اس کی پرواہ نہیں کرتی تھی اس کے بطن سے میرے دو ہیروں جیسے بیٹے ہیں اور وہ میری رفیقہ حیات تھی گزشتہ رات جب وہ آپکو گالیاں دینے لگی تو میں نے بھالا لے کر اس کے پیٹ میں پیوست کر دیا میں نے زور سے اسے دبایا یہاں تک کہ وہ مر گئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ساری گفتگو سننے کے بعد فرمایا تم گواہ رہو اس کا خون ہد رہے گستاخ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور گستاخ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کا حکم:حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: (رواہ الطبرانی الصغیر صفحہ 236 جلد 1)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دی اسے قتل کیا جائے اور جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کو گالی دی اسے کوڑے مارے جائیں۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا فتویٰ:حضرت ابوبرزہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ: 
میں حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کے پاس تھا آپ کسی شخص سے ناراض ہوئے تو وہ بھی جواباً بدکلامی کرنے لگا۔ میں نے عرض کیا۔ اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفہ۔ مجھے اجازت دیں۔ میں اس کی گردن اڑا دوں۔ میرے ان الفاظ کو سن کر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا سارا غصہ ختم ہو گیا۔ آپ وہاں سے کھڑے ہوئے اور گھر چلے گئے۔ گھر جا کر مجھے بلوایا اور فرمانے لگے ابھی تھوڑی دیر پہلے آپ نے مجھے کیا کہا تھا۔ میں نے کہا۔ کہا تھا۔ کہ آپ رضی اللہ عنہ مجھے اجازت دیں میں اس گستاخ کی گردن اڑا دوں۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ فرمانے لگے اگر میں تم کو حکم دے دیتا۔ تو تم یہ کام کرتے؟ میں نے عرض کیا اگر آپ رضی اللہ عنہ حکم فرماتے تو میں ضرور اس کی گردن اڑا دیتا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا۔ نہیں۔ اللہ کی قسم۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد یہ کسی کے لئے نہیں کہ اس سے بدکلامی کرنے والے کی گردن اڑا دی جائے یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں گستاخی کرنے والے کی ہی گردن اڑائی جائے گی۔عصماء بنت مروان کا قتل:اسی طرح حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:”خَطمَہ“ قبیلے کی ایک عورت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو کی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس عورت سے کون نمٹے گا۔“ اس کی قوم کے ایک آدمی نے کہا۔ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! یہ کام میں سرانجام دوں گا، چنانچہ اس نے جا کر اسے قتل کر دیا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دو بکریاں اس میں سینگوں سے نہ ٹکرائیں یعنی اس عورت کا خون رائیگاں ہے اور اس کے معاملے میں کوئی دو آپس میں نہ ٹکرائیں۔ بعض مورخین نے اس کی تفصیل یوں بیان کی ہے۔عصماء بنت مروان بنی امیہ بن زید کے خاندان سے تھی وہ یزید بن زید بن حصن الخطمی کی بیوی تھی یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایذاء اور تکلیف دیا کرتی۔ اسلام میں عیب نکالتی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف لوگوں کو اکساتی تھی۔ عمیر بن عدی الخطمی کو جب اس عورت کی ان باتوں اور اشتعال انگیزی کا علم ہوا۔ تو کہنے لگا۔ اے اللہ میں تیری بارگاہ میں نذر مانتا ہوں اگر تو نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بخیر و عافیت مدینہ منورہ لوٹا دیا تو میں اسے ضرور قتل کردوں گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت بدر میں تھے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ بدر سے واپس تشریف لائے تو عمیر بن عدی آدھی رات کے وقت اس عورت کے گھر میں داخل ہوئے۔ تو اس کے اردگرد اس کے بچے سوئے ہوئے تھے۔ ایک بچہ اس کے سینے پر تھا جسے وہ دودھ پلا رہی تھی۔ عمیر نے اپنے ہاتھ سے عورت کو ٹٹولا۔ تو معلوم ہوا کہ یہ عورت اپنے اس بچے کو دودھ پلا رہی ہے۔ عمیر نے بچے کو اس سے الگ کر دیا۔ پھر اپنی تلوار کو اس کے سینے پر رکھ کر اسے زور سے دبایا کہ وہ تلوار اس کی پشت سے پار ہو گئی

You might also like
Leave A Reply

Your email address will not be published.