ابوعفک یہودی کاانجام:مدینہ میں ایک سوبیس سالہ بوڑھا ایک یہودی رہتا تھا جب سرکاردوعالم ﷺ مدینہ منورہ ہجرت کرکے تشریف لائے تو یہ بوڑھا لوگوں کو آپ ﷺکی عداوت پر بھڑکاتاتھا،جب رسول اللہ ﷺغزوہ بدرکے لئے نکلے اور اللہ تعالیٰ نے غزوہ بدر میں مسلمانوں کو کامیابی نصیب فرمائی تو یہ خرناٹ بڈھاحسدکی آگ جل بھن گیا اور بغاوت وسرکشی پر اُتر آیا،اس بڈھے خرناٹ نے رسول اللہ ﷺاور صحابہ کرام کی گستاخی میں ایک زہریلاقصیدہ لکھا،اس قصیدے کو سن کر عاشق رسول حضرت سالم بن عمیر ؓ کی وہی حالت ہوئی جو ایک عاشق رسول کی ہونی چاہئے،انہوں نے نذرمانی کہ اس بڈھے خرناٹ (ابوعفک) کو قتل کروں گا یا اسے قتل کرتے ہوئے خود اپنی جان دے دوں گا،اب صرف رسول اللہ ﷺکی اجازت کی ضرورت تھی،کیونکہ صحابہ کرام ؓ کوئی کام رسول اللہ ﷺکی مرضی اور اجازت کے بغیر نہیں کرتے تھے،انہوں نے رسول اللہ ﷺسے اس کی اجازت مانگی جو دے دی گئی،حضرت سالم بن عمیرؓ موقع کی تلاش میں تھے،موسم گرماکی ایک رات یہ بڈھا ابوعفک قبیلہ بنو عمر بن عوف کے صحن میں سویاہواتھا،حضرت سالم بن عمیر ؓ اس کی طرف آئے اور اس کے گستاخ جگر پر اپنی تلوار رکھ دی،جس سے وہ بستر پر چیخنے لگا،مگر اس منحوس کا کام تمام کردیاگیا،اس طرح عاشق رسول حضرت سالم بن عمیر ؓ نے اس گستاخ رسول کو اس کے انجام تک پہنچادیا۔
ابورافع یہودی کا انجام:سلام بن ابی الحقیق ابورافع بھی ایک یہودی تھا جو مدینہ منورہ کے قریب خیبرمیں رہائش پذیر تھا،یہ بدبخت بھی اسلام کا بہت بڑادشمن تھا جو لوگوں کو اسلام اور پیغمبر اسلام کے خلاف اُبھارتاتھا،یہ بدبخت نبی کریم ﷺکے ساتھ خود بھی دشمنی کرتا تھا اور ولوگوں کو بھی نبی کریم ﷺکے ساتھ دشمنی کرنے پراکساتاتھا،انصار کے قبیلہ خزرج کے لوگوں نے نبی کریم ﷺسے اس کے قتل کی اجازت مانگی تو آپ ؐنے ان کو اجازت دے دی۔امام بخاری اپنی کتاب صحیح بخاری میں حضرت براء بن عازب ؓ کے حوالے سے نقل کرتے ہیں،رسول اللہ ﷺنے ابورافع یہودی کے قتل کے لئے چند انصار صحابہ کرام ؓ کو بھیجا،اور سیدناعبداللہ بن عتیک ؓ کو ان کا امیر مقررفرمایا،ابورافع نبی کریم ﷺکو ایذائیں پہنچاتاتھااور آپ ﷺکے دشمنوں کی مددکرتاتھا مدینہ کے قریب خیبرمیں اس کا ایک مضبوط قلعہ تھا جس میں یہ ناہجار سکونت پذیر تھا،عاشقانِ رسول کی یہ جماعت جب اس قلعہ کے قریب پہنچی تو سورج غروب ہوچکاتھا۔لوگ اپنے مویشی لے کر (اپنے گھروں کو)واپس جاچکے تھے،حضرت عبداللہ بن عتیکؓ نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ تم لوگ یہیں ٹھہرے رہو،میں اس قلعہ میں جاکر دربان]سیکیورٹی گارڈ[ پر کوئی تدبیر کرتا ہوں،تاکہ میں اندرجانے میں کامیاب ہوجاؤں چنانچہ وہ قلعہ کے پاس آئے اور دروازے کے قریب پہنچ کر انہوں نے خود کو اپنے کپڑوں میں اس طرح چھپالیا جیسے کوئی قضائے حاجت کررہاہو،قلعہ کے تمام آدمی اندرداخل ہوچکے تھے دربان نے آوازدی اے خدا کے بندے! اگر اندر آنا ہے تو جلدی آجاؤ،میں دروازہ بندکرنے لگا ہوں،حضرت عبداللہ بن عتیکؓ کہتے ہیں کہ میں بھی اندر چلا گیا اورچھپ کر اس کی حرکات وسکنات دیکھنے لگا،جب سب لوگ اندر آگئے تو اس نے تو اس نے دروازہ بندکردیا اور چابیوں کا گھچاایک کھونٹی پر لٹکادیا،حضرت عبداللہ بن عتیکؓ کہتے ہیں کہ اب میں ان کنجیوں کی طرف بڑھا اور انہیں اُٹھالیا،پھر میں نے قلعہ کا دروازہ کھول دیا،ابورافع کے پاس رات کے وقت داستانیں بیان کی جارہی تھیں،جب رات کے وقت قصہ گوئی کرنے والے ]دستان گو[اس کے پاس سے اُٹھ کر چلے گئے تو میں اس تک پہنچنے کے لئے اس کے مخصوص کمرے کی طرف بڑھنے لگا، اس دوران میں جتنے دروازے کھولتاتھا،انہیں اندر سے بند کرتاجاتاتھا تاکہ اگر قلعہ والوں کو میرے متعلق علم بھی ہوجائے تو اس وقت تک یہ لوگ میرے پاس نہ پہنچ سکیں جب تک میں ا سکو قتل نہ کرلوں،آخرمیں اس کے قریب پہنچ ہی گیا،اس وقت وہ ایک تاریک کمرے میں اپنے اہل وعیال کے ساتھ ]سورہا[تھا،مجھے کچھ اندازہ نہ ہوسکاکہ وہ کہاں ہے؟اس لئے میں نے آوازدی ابورافع!وہ بولا کون؟اب میں نے آوازکی طرف بڑھ کر تلوار کی ایک ضرب لگائی،،اس وقت میرا دل دھک دھک کررہاتھا،یہی وجہ ہے کہ میں اس کا کام تمام نہ کرسکا،جب وہ چیخاتو میں کمرے سے باہر آیا،اور تھوڑی دیر تک باہر ہی ٹھہرا رہا،پھر دوسری مرتبہ اندرگیا میں نے پھر آوازبدل کر پوچھا،ابوارافع!یہ آوازکیسی تھی؟وہ بولا تیری ماں غارت ہو ابھی ابھی مجھ پر کسی نے تلوار سے حملہ کیا ہے ]حضرت عبداللہ فرماتے ہیں [ میں نے پھر ]آوازکی طرف بڑھ کر [ایک ضرب لگائی،اگرچہ میں اس کو خوب لہولہان کرچکاتھا،مگر وہ ابھی مرا نہیں تھا اس لئے میں نے تلوار کی نوک اس کی پیٹ پر رکھ کردبائی جو اس کی پیٹھ تک پہنچ گئی،مجھے اب یقین ہوگیا کہ میں اس کو قتل کرچکاہوں،چنانچہ میں نے ایک ایک کرکے دروازے کھولناشروع کردئے بالآخرایک زینے پر پہنچا،میں یہ سمجھا کہ میں زمین پر پہنچ چکاہوں ]لیکن میں ابھی پہنچاہی نہیں تھا [اس لئے جب میں نے اس پر پاؤں رکھا تو تو نیچے جاکر گر پڑا،،چاندنی رات تھی،اس طرح گرپڑنے سے میری پندلی زخمی ہوگئی میں نے اس کو اپنی پگڑی سے باندھ لیا اور دروازے پر بیٹھ گیا،میں نے یہ ارادہ کرلیا تھا کہ اس وقت تک نہیں جاؤں گا جب تک یہ معلوم نہ کرلوں کہ میں اسے قتل کرچکاہوں یا نہیں؟صبح جب مرغ نے اذان دی تو اسی وقت قلعہ کی فصیل ]دیوار[پر ایک آواز دینے والے نے آوازدی،لوگو! میں اہل حجازکے تاجرابورافع کی موت کا اعلان کرتا ہوں،تب میں اپنے ساتھیوں کے پاس آیا اور ان سے کہا کہ چلنے کی جلدی کرو اللہ تعالیٰ نے ابورافع کو میرے ہاتھوں قتل کرادیا ہے،پھر میں نبی کریم ﷺکی خدمت میں حاضرہوااور آپ ؐ کو ابورافع کے قتل کی اطلاع دی،رسول اللہ ﷺنے فرمایا:اپناپاؤں آگے کرو،میں نے اپنا پاؤں آگے کیا تو آپ ؐ نے اس پر اپنا دست مبارک پھیرا،میرا پاؤں فوراًاس قدر اچھا ہوا کہ جیسے کبھی اس میں تکلیف ہی نہیں ہوئی تھی،حافظ ابن حجر عسقلانی مذکورہ بالا حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں،اس حدیث سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ایسے لوگوں پر اچانک چھاپہ مارکاروائی کی جاسکتی ہے جن سے مسلمانوں کو انتہائی درجہ کی اذیتیں لاحق ہورہی ہوں۔
ایک گستاخ عیسائی کا انجام:کعب بن علقمہ کہتے ہیں کہ غرفہ بن الحارث کندی کے پاس ایک عیسائی گزرا تو انہوں نے اسے اسلام کی دعوت پیش کی،تو اس عیسائی نے رسول اللہ کی گستاخی کرڈالی،غرفہ کندی نے ہاتھ اُٹھایا اور ایسازرودار طمانچہ دے مارا کہ اس گستاخ کی ناک پھوڑ ڈالی،یہ کیس حضرت عمر وبن العاصؓ کے پاس لایاگیا تو حضرت عمرو ؓ فرمانے لگے ہم نے ان کو عہد وپیمان دیا ہے،]یعنی ان کی حفاظت ہم پر لازم ہے[غرفہ کندی نے فرمایا:اللہ کی پناہ!ہم ان کواس بات پر عہدوپیمان دیں کہ وہ ہمارے نبی کریم ﷺپر سب وشتم کا اظہار کریں،ہم نے ان کو اس بات کا عہد دیا ہے کہ ہم انہیں ان کے گرجاگھروں میں چھوڑدیں وہ اپنے گرجاگھروں میں جو جو کہناہے کہیں اور ان کی طاقت سے بڑھ کر بوجھ نہ ڈالیں اور اگر کوئی دشمن ان کاقصدکرے تو ہم ان کے پیچھے ان سے لڑائی لڑیں اور انہیں ان کے احکامات پر چھوڑدیں،الا یہ کہ وہ ہمارے احکامات پر راضی ہوکر آئیں تو ہم ان کے درمیان اللہ اور اس کے رسول کے حکم کے مطابق فیصلہ کریں اور اگر وہ ہم سے غائب ہوں تو ہم ان کے پیچھے نہ پڑیں۔حضرت عمروبن العاصؓ نے فرمایا ”صدقت“ تم نے سچ کہا۔مذکورہ بالا تمام واقعات سے ثابت ہوا کہ شاتم رسول اور دشمنام طرازی کرنے والے گستاخ کا علاج قتل ہے،نبی کریم ﷺاور آپ کے صحابہ کرام ؓ نے ایسے لوگوں سے توبہ کا مطالبہ کئے بغیر انہیں قتل کیا ہے،عفوودرگزر کا حکم مدینہ منورہ کی ابتدائی زندگی میں تھا،نبی کریم ﷺاور آپ کے صحابہ کرام ؓ ان کی اذیتوں اور گالم گلوچ پر صبروتحمل سے کام لیتے تھے،پھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کا علاج قتل وقتال تجویز کیاگیا،لہذاشاتم رسول اورگستاخ رسول کو بالخصوص قتل کی سزاسے معافی نہیں دی جاسکتی،اگر کوئی غیر مسلم پکڑے جانے کے بعد توبہ کرلے تو اس کی توبہ کا فائدہ عنداللہ تو ہوسکتا ہے لیکن دنیا میں حدکی معافی نہیں ہوگی
گستاخانِ رسول کا انجام(قسط نمبر 4)حافظ مومن خان عثمانی
You might also like