آج کل جس بندے سے ملتے ہے تو مہنگائی، بے روزگاری، خستہ حالی، ڈپریشن اور کاروبار میں نقصان کے فریاد کرتے رہتے ہیں۔ بعض لوگ حکومت کو کوستے ہے، حکومت والے پہلے حکومتوں پر نزلہ گراتے ہیں اور یوں ہر ایک کا اپنااپنا موقف ہے۔ ایسے حالات میں مومن بندہ اگر سوچے تو اس کے پاس ایک ایسا زبردست ہتھیار ہے کہ اگر وہ اس ہتھیار کو صحیح طریقے اور یقین کے ساتھ استعمال کریں تو یقیناً اس کے تمام گلے شکوے دور ہوسکتے ہیں۔اور وہ ہتھیار ہے دعاء کا ہتھیار۔
اول تو مومن اپنے پاس اس ہتھیار کی اہمیت سے ناواقف ہے اور اگر تھوڑا بہت واقف بھی ہے تو غفلت وتکاسل سے کام لے رہا ہے۔ بہت سے لوگ مسجد میں نماز پڑھ کر جلدی سے نکلتے ہیں گویا فلائٹ مس ہو رہی ہو اور اپنے کام کے بارے میں نماز ہی میں سوچ بچار کرتے رہتے ہیں، جیسے ہی امام صاحب سلام پھیرے تو حضرت اپنے چپل کی جانب گامزن ہوتا ملے گا۔ اب اس حضرت نے ایک عبادت تو پڑھ لی لیکن اس کے بعد اگلی عبادت جو عبادت کا مغز اور نچوڑ ہے، اس کو چھوڑ کر اپنے خیال میں بری الزمہ ہو جاتا ہے۔ یہی حضرت دعاء کی اہمیت سے ناواقف ہے۔
دعاء کے اصل معنی طلب کرنے اور مانگنے کے ہے، لیکن اس میں عاجزی اور انکساری، تو اضع وتذلل بھی شامل ہونا چاہیئے۔ ملا علی قاری ؒ فرماتے ہیں کہ دعا یہ ہے کہ حقیر وادنیٰ آدمی اپنے سے اعلیٰ وبلند ہستی (اللہ) سے کوئی چیز انکساری وعاجزی کے طریقہ پر مانگے۔ دعاء میں عاجزی وعبودیت کا مفہوم شامل ہے اس لیئے حدیث میں دعاء کو بعینہ عبادت اور عبادت کا مغز فرمایا گیا ہے۔ حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جس کے لیئے تم میں سے دعاء کا دروازہ کھول دیا گیا، اس کے لیئے قبولیت کے دروازے کھول دیئے گئے۔ مطلب یہ ہے کہ جس آدمی کو دعاء کی تو فیق مل گئی تو اس کے لیئے قبولیت کے دروازے کھول دیئے گئے، مطلب یہ ہے کہ جس آدمی کو دعاء کی توفیق مل گئی تو اس کے لیئے قبولیت کے دروازے کھول دیئے گئے اور ظاہر ہے کہ جس کے لیئے قبولیت کے دروازے کھول دیئے گئے،اس کی عبادات بھی اور دعاء بھی قبول کی جائیں گی۔
حضرت علی ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ”دعاء مومن کا ہتھیار، دین کا ستون اور آسمانوں اور زمین کا نور ہے۔
کیونکہ جس طرح انسان ہتھیار سے اپنے دشمن کا مقابلہ کرتا ہے، اسی طرح مومن دعا کے ذریعہ بلاؤں، مصیبتوں، وسوسوں اور شیطان کا مقابلہ کرتا ہے۔ ایک اور حدیث میں اللہ سے دعاءنہ کرنا اور نہ مانگنا اللہ کے ناراضگی کا سبب بتایا ہے۔ ارشاد ہے کہ ”جو اللہ سے نہیں مانگتا تو اللہ کا غضب ہوں اس پر“ دیکھو ذرا رحیم ذات کو کہ نہ مانگنے پر ناراض ہوتا ہے اور مخلوق سے مانگنے پر وہ خفا ہوتے ہیں۔ تو ہر حال میں اللہ سے مانگنا چاہیئے وہ ہمارے حاجت روا، مشکل کشا اور ہمارے دلوں کے حال سے بھی واقف ہے۔
بعض لوگ دعا کی حقیقت اور اہمیت سے تو باخبر ہوتے ہیں لیکن پھر بھی اس کی دعائیں قبول نہیں ہوتی۔ دراصل دعاء چونکہ عبادت ہے اور اس کے اپنے شرائط وآداب ہے۔ تو دعاء میں ان شرائط وآداب کو ملحوظ خاطر رکھا جائے تو تب دعا عنداللہ مقبول ہوجاتی ہے۔
پہلی شرط دعاؤں کی قبولیت کے لیئے یہ ہے کہ حرام سے پر پرہیز کیا جائے، کھانا، پینا، کپڑے اور تمام چیز یں حلال ہوں۔اگر حرام چیز کھا کر، حرام پی کر یا حرام لباس پہن کر دعاء کرے گا تو قبولیت کی اُمید نہیں ہے۔ کیونکہ حدیث میں نبی ﷺ نے فرمایا ہے کہ ایک شخص جو لمبا سفر کرتا ہوا (کسی مقدس مقام پر ایسی حالت میں جاتا ہے) کہ اس کے بال بکھرے ہوئے ہیں اور وہ گرد آلود ہے، اور وہ آسمان کی طر ف ہاتھ اُٹھاکر دعاء کرتا ہے، یا ربِّ یا ربِّ، حالانکہ اس کا کھانا حرام ہے، اس کا پینا حرام ہے اور اس کے کپڑے حرام ہیں اور وہ حرام غذا سے سیراب ہوا ہے تواس کی دعاء کہاں قبول ہوگی؟۔
دوسرا شرط یہ ہے کہ دعاء میں کسی گناہ کی درخواست نہ کی جائے اور نہ قطع رحمی کی دعاء کی جائے کیونکہ یہ اللہ قبول نہیں کرتا۔ تیسری شرط کہ جہاں اور جب امر باالمعروف ونہی عن المنکر کی ضرورت ہوں، اس فریضہ کو انجام دیا جائے اور اس میں قسم کی کوتاہی اور غفلت نہ کی جائے۔ حدیث میں نبی ﷺ فرماتا ہے ”اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے، تمہیں نیک باتوں کا حکم کرنا ہوگا اور برائی سے روکنا ہوگا ورنہ کچھ بعید نہیں کہ اللہ تعالیٰ تم پر اپنا عذاب نازل فرمائیں پھر تم دعائیں بھی کروگے تو قبول نہ ہوں گی۔چوتھی شرط اور ادب یہ ہے کہ دعا یقین کے ساتھ مانگی جائے کیونکہ نبی کریم ﷺ فرماتا ہے کہ اللہ غافل دل کی دعاء قبول نہیں کرتے۔پانچویں شرط اور قبولیت کے لیئے ادب یہ ہے کہ دعاء سے پہلے اللہ تعالیٰ کی حمد وثناء بیان کی جائے پھر نبی کریم ﷺ پر درود شریف پڑھا جائے اور پھر دعا مانگی جائے۔ چھٹی شرط اور ادب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے لگ لپٹ کر دعاء کرنا چاہیئے جیسے بچے اپنے والدین سے لگ لپٹ کر مانگتے ہیں اور جب تک لیتے نہیں، ٹلتے نہیں تو دعا کرنا بچوں سے سیکھو کہ جس طرح وہ اپنے ماں باپ سے لگ لپٹ کر مانگتے ہیں، اس طرح مانگو۔ساتویں بات یہ کہ دعاء میں اللہ تعالیٰ کے سامنے خوب رونا اور گڑ گڑ انا بھی چاہیئے ایک روایت میں ہے کہ ”اے لوگو! تم رویا کرو اور اگر رونانہ آئے تو رونے کی صورت ہی بنالو“۔ حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ کو دو قطرے بہت محبوب ہے ایک اللہ کے خوف سے آنکھ سے نکلنے والا آنسو کا قطرہ۔ دوسرا خون کا وہ قطرہ جو اللہ کے راستہ میں بہایا گیا ہوں۔
آٹھویں ادب یہ ہے کہ دین اور دنیا دونوں کیلئے دعاء مانگو۔ صرف دنیا نہیں بلکہ دین کا سوال بھی کروکہ اے اللہ مجھے دنیا میں بھی اچھی حالت عطاء فرما اور آخرت میں بھی۔
نویں شرط اور ادب یہ ہے کہ دعاء میں عجلت نہ کی جائے۔ عجلت یہ ہے کہ ایک دو بار دعاء کی اور قبولیت میں تاخیر ہوئی اور تم بیٹھے لگے شکایتیں کرنے۔ یہ سب شیطانی وساوس ہے۔ حضرت ابوسعید خدری رض سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایاکہ کوئی مسلمان دعاء کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو تین باتوں میں سے ایک عطاء فرماتے ہیں، یا تو اس کو وہ مانگی ہوئی چیز دنیا ہی میں دے دیتے ہیں یا اس کو آخرت میں اس کے لیئے ذخیرہ بنادیتے ہیں یا اس سے کوئی برائی دور کر دیتے ہیں۔ لہذا عجلت سے بچنا چاہیئے۔
آخری آدب دعاء کا یہ ہے کہ دعاء کا اختتام آمین پر ہونا چاہیئے۔ ابوداؤدمیں روایت ابوذھیر النمیری ؓ نقل فرماتے ہیں ”ایک رات ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نکلے اور ہمارا گزر اللہ کے ایک بندے پر ہوا جو بڑے الحاح وعاجزی کے ساتھ اللہ سے دعاء کررہا تھا، رسول اللہ ﷺ کھڑے ہوکر اس کی دعاء سننے لگے، پھر آپ ﷺ نے ہم لوگوں سے فرمایا کہ اگر اس نے دعاء کا خاتمہ صحیح کیا اور مہر بھی ٹھیک لگائی، تو جو اس نے مانگا ہے، اس کا اس نے فیصلہ کرالیا۔ ہم میں سے ایک نے عرض کیا کہ حضور! صحیح خاتمہ اور مہر ٹھیک لگانا کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ آخر میں آمین کہہ کر ختم کرے۔
دعا ء مومن کا ہتھیار ہے۔ ( مولانا مجاہد خان ترنگزئی )
You might also like