اپوزیشن اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) نے فارن فنڈنگ کیس بلاتعطل چلانے اور انسپکٹر جنرل (آئی جی) پولیس سندھ کے اغواء کی رپورٹ پبلک کرنے کا مطالبہ کردیا۔اسلام آباد میں پی ڈی ایم کے اجلاس کے بعد میڈیا بریفنگ میں سربراہ پی ڈی ایم مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ اپوزیشن اتحاد کا سربراہی اجلاس آج منعقد ہوا جس میں نواز شریف اور آصف زرداری ویڈیو لنک کے ذریعے اجلاس میں شریک ہوئے۔ان کا کہنا تھا کہ اجلاس میں ملک کی مجموعی صورتحال اور آئندہ لائحہ عمل پر غور کیا گیا جبکہ پی ڈی ایم نے مختلف حصوں میں جلسے منعقد کرنے کے سابقہ شیڈول پر بات کی۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستان کا سب سے سنگین اور حساس مسئلہ معاشی بحران ہے، پی ڈی ایم کا ہدف آئینی اور جمہوری حقوق کی بحالی ہے۔ مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ 13 نومبر کو اسٹیرنگ کمیٹی کا اجلاس ہوگا جس میں تمام پارٹیاں اپنی تجاویز لائیں گی جبکہ 14 نومبر کو اسلام آباد میں سربراہی اجلاس ہوگا۔ان کا کہنا تھا کہ اجلاس میں کیپٹن(ر) صفدر اور پولیس کے اعلیٰ افسران کی تذلیل کی مذمت کی گئی، آرمی چیف کی مداخلت پر 10 روز میں تحقیقات کا کہا گیا تھا لیکن تین ہفتے گزرنے کے باوجود رپورٹ سامنے نہ آنے پر تشویش کا اظہار کیا گیا، اس کے علاوہ وزیر داخلہ اعجاز شاہ کے بیان پر بھی احتجاج کیا گیا۔سربراہ پی ڈی ایم نے حکمران جماعت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ فارن فنڈنگ کا کیس کیوں زیر التواء ہے؟ ساری دنیا کو چور کہا جارہاہے اور عدالت میں گھسیٹا جارہا ہے لیکن خود پر دائر مقدمات التواء کا شکار کیے جارہے ہیں، صاف ظاہر ہے دال میں کچھ کالا ہے۔ایک سوال کے جواب میں مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ کسی ادارے یا کسی شخص کا نام لینے پر پی ڈی ایم میں کوئی مسئلہ نہیں، کوئی لحاظ کرتا ہے تو کوئی صراحت سے نام لیتا ہے۔صحافی کے سوال پر سربراہ پی ڈی ایم نے کہا کہ ہم اداروں کا احترام کرتے ہیں، اگر سیاستدانوں میں ایک شخص کا نام لیا جا سکتا ہے، صدر مملکت اور وزیر اعظم کا نام لیا جاسکتا ہے تو کسی ادارے کے فرد کا نام لینا بھی جرم نہیں۔ن لیگ کے رہنما شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ پی ڈی ایم کے پاس نوازشریف کا بیانیہ قبول کرنے کے علاوہ راستہ کیا ہے؟ راجا پرویز اشرف نے کہا کہ اگر جلسوں ميں اسٹیبلشمنٹ کے بجائے افراد کے نام لینے ہیں تو پی ڈی ایم کا نیا اجلاس بُلاکر طے کرنا ہوگا۔سربراہ پی ڈی ایم مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ہمیں اپنی جماعتوں کے بیانیے سے بالاتر ہوکر مشترکہ مؤقف اختیار کرنا ہوگا۔خیال رہے کہ گزشتہ دنوں کیپٹن ریٹائرڈ صفدر پر مقدمے اور گرفتاری کیلئے پولیس حکام پر دباؤ کے معاملے پر انسپکٹر جنرل ( آئی جی) سندھ سمیت اعلیٰ پولیس افسران نے چھٹیوں پر جانے کا فیصلہ کیا تھا۔بعد ازاں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے کراچی واقعے پر نوٹس لینے اور پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی جانب سے ملاقات کے بعد یہ فیصلہ مشروط طور پر واپس لیا گیا تھا۔