”جاکر پہاڑوں کی چو ٹیوں پردانے پھیلا دو،کہیں مسلمانوں کے ملک میں پرندے بھوک سے نہ مر جائیں“ترکی ایسا ملک ہے جہاں ایک بہت پرانی اسلامی روایت ابھی تک زندہ ہے کہ جب سردی کا عروج ہو اور پہاڑوں پر برف پڑجائے تو یہ لوگ چوٹیوں پر چڑھ کر اس وقت تک دانہ پھیلاتے رہتے ہیں جب برفباری ہوتی رہے اور یہ اس لیے ہے کہ پرندے اس موسم میں کہیں بھوک سے نہ مرجائیں۔یہ روایت مسلمانوں کے خلیفہ حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ نے شروع کروائی تھی۔ان کا یہ تاریخی قول آج بھی تاریخ کی کتابوں کی زینت ہے۔تحریک انصاف کی حکومت کا ماٹو پاکستان کو ریاست مدینہ ؐ ثانی بنانا تھا۔مجھے تو ایسا لگتا کہ یہ ریاست مدینہؐ کو بدنام کرنے کی سازش ہے۔عوام کی خدمت کا دعوی ٰ کرنے والے حکمرانوں نے ہمیشہ عوام کا ہی استحصال کیا ہے۔ کبھی کسی وزیر خزانہ نے یہ کہا کہ ٹماٹر مہنگے ہیں تو کیا ہوا دہی کا استعمال کرلیا کرو،کبھی کسی مذہبی امور کے وزیر نے یہ کہا کہ حج غریبوں پر فرض نہیں اور کبھی حاکم وقت یہ فرماتا ہے کہ سکون تو انسان کو صرف قبر ہی میں ملتا ہے۔کہاں ہیں وہ انصاف کے بلند وبانگ دعوے۔کبھی پٹرولیم مصنوعات،بجلی،گیس مہنگی نہیں ہونگی ہرشخص کو انصاف ملے گا؟
سبحان اللہ اس انصاف پہ کہاں ہے انصاف۔ وہ وزیر اعظم کی سادگی مہم وہ فوری اورسستا انصاف؟؟؟ اس حکومت نے تو مہنگائی کے تمام پچھلے ریکارڈ توڑ دئیے ہیں امیر الباکستان کی دور حکومت میں کرپشن بھی نہیں ہورہی ٹیکسز میں بھی بے پناہ اضافہ ہونے کے باوجود ملک قرضوں کی دلدل میں مسلسل ڈوبتا جارہا ہے آخر یہ عوام کا پیسہ خرچ کہاں کیا جارہا ہے؟ اس سوال کا جواب کون دے گا؟؟؟اگر سچی بات لکھ دیں تو پہلی بات ہے کہ اخبارات والے شائع ہی نہیں کرتے اور دریافت کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ یہ اخبارات کی پالیسی نہیں کہ ہم اپنے ساتھ ہونے والے ظلم پر یہ پوچھنے کا بھی حق نہیں رکھتے کہ ہمیں کس جرم کی سزا دی جارہی ہے۔فرمان مصطفیؐ ہے کہ افضل ترین جہاد جابر حکمران کے سامنے کلمہ حق کہنا ہے۔ویسے جنت کے تو ہم ٹھیکیداربنتے ہیں مگر جنت میں جانے کے لیے مرنا بھی لازم ہے۔میں تو چاہتا ہوں کہ مجھے حق گوئی کے جرم میں تختہ دار پر لٹکا دیا جائے اور میری موت،میری ہم خیالوں کے لیے حیات ثابت ہو۔موجودہ دور حکومت کی مہنگائی نے غریبوں کا نہ صرف جینا دو بھر کردیا ہے بلکہ مرنا بھی مشکل بنا دیا ہے۔جیسے حالات ہوچکے ہیں عنقریب غریب اپنے پیاروں کی لاشوں کو کوڑے دانوں میں پھینک کر جایا کریں گے۔روٹی کے لیے ترسنے والوں کے پاس بیس سے پچیس ہزار روپے کفن، قبر کے کہا ں سے آئیں گے؟۔آٹا ایک دم ستر روپے اور اکثر اشیاء کے مہنگا ہونے پر ہمارے حاکم وقت کو لاعلمی کا اظہار کرتے دیکھا ہے بتائیے جس حاکم وقت کو اپنی رعایا کی پریشانیوں کو علم نہ ہو میرے خیال میں اس شخص کو حاکم وقت کہلانے کا کوئی حق حاصل نہیں اور ویسے بھی اسلام میں اقتدار کے خواہشمند کو اقتدار کے لیے نااہل قرار دیا ہے۔ حضرت ابوبکرصدیق ؓ اور حضرت عمر فاروقؓ کی مثالیں دینے سے پہلے انکی سیرت اور دور حکومت کا مطالعہ بھی نہایت ضروری ہے۔حضرت عمر ؓ کا ایک مشہور واقعہ ہے کہ آپؓ رعایا کا احوال جاننے کے لیے راتوں کو آبادی کا گشت کرتے اور لوگوں کی مدد فرماتے،زید بن اسلم اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمر ؓ ایک رات مدینہ کی گلیوں میں گشت کررہے تھے کہ ایک جگہ دیکھا کہ ایک عورت گھر میں بیٹھی ہے اور اس کے گرد بچے بیٹھے رو رہے ہیں اورپانی سے بھری دیگچی آگ پر رکھی ہوئی ہے۔حضرت عمر ؓ نے پوچھا کہ یہ دیگچی آگ پر کیوں رکھی ہے؟اس عورت نے جواب دیا کہ بچوں کو بہلانے کے لیے تاکہ یہ سمجھیں کہ کھانا پک رہا ہے اور انتظار کرتے کرتے سو جائیں۔حضرت عمرفاروقؓ یہ سن کر رونے لگے اور بیت المال سے آٹا،گھی،چربی کپڑے اور درہم لے کر ایک بوری میں ڈالے،اپنے غلام اسلم سے کہا کہ یہ بوری مجھ پر لاد دو،غلام نے عرض کی امیر المومنین ؓ اس بوری کو میں اٹھا لیتا ہوں،آپ ؓ نے فرمایا آخرت میں اس کے،متعلق مجھ سے سوال ہوگا،اس لیے یہ بوری مجھے ہی اٹھانے دو،حضرت عمرؓ انکے گھر گئے اور اپنے ہاتھوں سے کھانا بناکر انکو کھلایا۔ریاست مدینہ منورہ ایک ایسی اسلامی،فلاحی ریاست ہے جس کی بنیاد آقا دوجہاں رحمت دوعالم ؐنے رکھی تھی۔اس بابرکت اسلامی ریاست کی چند خصوصیات یہ تھیں۔”رعایا کے لیے خوراک،لباس،صحت اور تعلیم کا مناسب انتظام کیا گیا،شیر خوار بچوں تک کے لیے ریاست کی طرف وظائف کے انتظامات کی مثالیں بکثرت ملتی ہیں۔“نہ صرف انسانوں کی زندگی میں اس کی کفالت کا انتظام کیا بلکہ مرنے کے بعد بھی اس کی جانب سے رہ جانے والی ذمہ داریوں کی ادائیگی کا انتظام کیا۔“انسان تو کجا جانوروں اور نباتات کے بارے میں بھی واضح احکامات جاری کیے۔درختوں کے کاٹنے کو ناپسند کیا گیا۔“معاشرہ میں دولت اور دیگر وسائل ثروت کی عادلانہ تقسیم کا بندوبست کیا گیا۔زکوۃ اور انفاق فی سبیل اللہ کی ترغیب کے ذریعہ دولت کا رخ امراء سے غربا ء کی طرف پھیرا گیا ایسے ذرائع اور طور طریقوں پر پابندی لگائی گئی جس سے کسی خاص طبقے کے ہاتھ دولت کے ارتکاز کا امکان تھا مثلاً سود احتکار،ذخیرہ اندوزی،ناجائز منافع خوری وغیرہ۔اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ چند ہی سالوں میں دولت صالح خون کی مانندپورے معاشرے میں گردش کرنے لگی اور خوش حالی کادوردورہ ہوگیا۔“قانون کا احترام سب کے لیے لازم قرار دیا گیا۔حکمران اور رعایا کے درمیان فرق ختم کیا گیا۔لوگوں کے لیے اپنے خلیفہ گورنر یا امیر تک رسائی انتہائی آسان بنائی گئی۔“زکوۃ،صدقات اموال فے اور دیگر مدات میں جمع ہونے والی رقوم کو رعایا کی فلاح وبہود اور خدمت خلق کے دیگر کاموں پر خرچ کیا گیا،اور چند ہی سالوں میں صورت حال یہ ہوگئی کہ صدقات دینے والے تو موجود تھے لیکن لینے والا کوئی نہ رہا۔“یا امیرالباکستان خدارا ہمیں صوفی ازم کا لولی پاپ نہیں چاہیے،ہمیں اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ آپ نے قوم کے چوروں سے قوم کا لوٹا ہوا پیسہ نکلوایا ہے یا کہ نہیں؟آپ نے سادگی کی مثالیں قائم کی ہیں یا کہ نہیں؟ آپ نے کرتارپورراہدای کھول کر ابھی نندن کو واپس کرکے خیر سگالی کا ثبوت دیا ہے یا کہ نہیں۔بس خدارا ہم غریبوں کے حال پر رحم کرکے اس ریاست کو ریاست مدینہ بلاشک نہ بنائیں مگر ہم غریبوں کی پہلا اور آخری نوالہ ہم سے ”آٹا“اور روٹی مت چھینے۔امیر المومنین حضرت علیؓ کا فرمان ہے ”اگر کوئی شخص اپنی بھوک مٹانے کے لیے روٹی چوری کرے تو چور کے ہاتھ کاٹنے کی بجائے بادشاہ کے ہاتھ کاٹے جائیں۔“حاکم وقت اللہ کا واسطہ ہے رحم کریں اپنی مجبور،بے بس رعایا پر رحم کھائیں ترس کھائیں ورنہ آپکی دور حکومت میں روٹی کے چور پیدا ہونگے۔
”ریاست مدنیہ کا دعو یٰ۔۔۔۔ اورآٹا بھی غائب“ (حاجی محمد لطیف کھوکھر)
You might also like