گزشتہ روز ہمارے ادارے مدرسہ تعلیم القرآن میں تقریری مقابلے کا ایک پروگرام یوتھ ڈیبیٹ کمپیٹیشن کے نام سے منعقد کیا گیا تھا، جس میں ماشاء اللہ طلباء کرام نے بہترین صلاحیت کا مظاہرہ کیا اور سامعین کی جانب سے خوب داد وصول کیا۔ نوجوان طلباء کرام نے قرأت، نعت اور تقاریر ایسے انداز اور جذبے سے پیش کئے کہ آنے والے مہمانوں اور طلباء کے والدین نے ادارے کی کارکردگی اور اساتذہ کرام کی تربیت کو خوب سراہا۔ایک مہمان خصوصی جوکہ اس ادارے کے بانی یعنی بندہ ناچیز کے کاوش کو سنہرے الفاظ میں بیان کررہے تھے کہ اس دوران بندہ ناچیز کے آنکھوں میں آنسو آئے کہ کہاں میں کم علم کم عمل اور کہاں یہ دین کی خدمت۔
”ای سعادت بزوربازو نیست۔۔۔۔۔ تا نہ بخشد خدائے بخشندہ۔
بہر کیف مہمان نے بتایا کہ میں اُس وقت سے یہاں آرہاہوں جب آپ ایک چھوٹے سے پرائیویٹ سکول میں درس دیا کرتے تھے اور اب ماشاء اللہ،اللہ کے فضل اور مخلص ساتھیوں کے محنت سے ایک بہترین بلڈنگ میں دین وقرآن کی خدمت جاری وساری ہے۔
مدرسہ تعلیم القرآن کی بنیاد اگست 2008ء میں رکھی گئی تھی۔ اور ادارے کامقصد ہر مسلمان اور خصوصاً نوجوانوں کو اللہ کے کتاب قرآن کریم سے وابستہ کرنا تھا اور معاشرے کے ہر فرد کو ایک ایسا فکر اور دینی سوچ فراہم کرنا تھا تاکہ وہ خود ایک ایماندار اور سچامومن بن سکے اور اس پیغام کو دوسروں تک بھی پہنچائے۔ تاکہ ملک خداد پاکستان اور معاشرے کے اصلاح، امن اور ترقی کیلئے اپنا مخلصانہ کردار ادا کرسکے۔ یہ ادارہ تعلیم وتعلم، اصلاح عقائد واعمال، اصلاح معاشرہ، خدمت خلق اور قرآن کریم کے ترجمہ وتفسیر کے حوالے سے ایک منفردادارہ ہے۔ یہ ادارہ صرف سیکنڈ ٹائم سکولز، کالجز اور یونیورسٹیز کے سٹوڈنٹس کیلئے دینی وقرآنی خدمات فی سبیل اللہ سرانجام دے رہا ہے۔ ادارے میں ابتدائی قاعدہ، قرآن کا ناظرہ، حفظ القرآن اور قرآن کریم کا ترجمہ وتفسیر عصر حاضر کے تقاضوں کے مطابق پڑھا یا جاتا ہے۔ چونکہ میری وابستگی عصری اور دینی تعلیمی اداروں سے رہی ہے اسلیئے دونوں اداروں کے نصاب، انتظام وانصرام اور معمولات سے باخبر ہوں توان دونوں تعلیمی اداروں کے امتزاج کو آپ ادارہ ہذا میں دیکھ سکتے ہیں۔ ادارہ ہذا میں شرعی حدود کے تحت ماڈان ٹولز کے ذریعے بچوں کو بہترین منیجمنٹ اور کمپیوٹرائزڈ ریکارڈ کے ساتھ ساتھ بہترین ڈسپلن کے ساتھ تعلیم وتربیت فراہم کی جاتی ہے۔ اور نصابی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ ہم نصابی سرگرمیوں کا بھی انعقاد کیا جاتا ہے، تاکہ بچہ صرف تعلیم نہیں بلکہ تربیت اور معاشرے کے اصلاح کیلئے بھی مستقبل میں کچھ کرسکے، اور وہ ہم نصابی سرگرمیوں کے بغیر ممکن نہیں۔
میری والدہ ماجدہ وہ بزرگ ہستی ہے جس کی بدولت ہم اور ہمارا سارا خاندان دین سے وابستہ ہوا ہے۔ ہمارے نانا عالم دین تھے اور اُنھوں نے میرے والدہ اور ان کے سب بہنوں کو وصیت کی تھی کہ جو قرآن اور علم میں نے آپ کو پڑھایا تو اب تم اس سلسلے کو میرے مرنے کے بعد اپنے اپنے مقام پر جاری رکھوگے۔ تو والدہ ماجدہ نے اُن کی وصیت کو احسن انداز سے پورا کیا اور ہمارے بہن وبھائیوں کے پیدائش سے بھی پہلے ہمارے گھر میں طالبات کا مدرسہ شروع ہوگیا تھا۔ تو ہم بہن بھائیوں نے آنکھ اُسی پہلے مدرسے والی گود میں کھولی ہے اور اپنے والدہ ماجدہ سے قرآن کریم کا کم عمری میں ناظرہ وترجمہ پڑھا ہیں، الحمد اللہ وہی مدرسہ تقریباً 40سالوں سے اب تک ہمارے گھر میں جاری ہیں۔اور والدہ ماجدہ کی برکت سے میرے والد محترم دین کی تبلیغ سے وابستہ ہوئے اور جب تبلیغ میں پہلا چھلہ لگایا تو ہم بہت چھوٹے تھے، اس کے بعد ہم بھی دین کے تبلیغ سے وابستہ ہوئے اور اس دوران ہمارا دینی رشتہ ایک ایسے مخلص اور مخلوق خدا کا درد رکھنے والے نہایت مشفق ومحسن استاد ممتاز مذہبی سکالر مولانا مفتی محمد آیاز صاحب سے پیدا ہوا، جہاں سے ہم نے اپنے قرآنی مشن کو مزید تقویت دی۔ اُ ن سے ترجمہ وتفسیر پڑھا اور وہی سے علم دین کا آٖغاز کیا اور تکمیل تک پہنچا دیا۔ اور ماشاء اللہ آج اُن ہی کی سرپرستی میں ہمارا ادارہ ہذا مدرسہ تعلیم القرآن کا تعلیمی وعلمی وتربیتی سفر جاری وساری ہیں۔
ادارہ ہذا سے اب تک ماشاء اللہ سینکڑوں طلباء وطالبات فارغ التحصیل ہوچکے ہیں۔ اور اُن میں اب بہت سے علماء ہیں، کچھ پاکستان کے مختلف اداروں اور سول سروسز سے وابستہ ہیں۔ ادارے کے شاگرد جہاں بھی ہوں جس ادارے میں بھی ہوں۔مگر ادارہ ہذا کاچاپ ونقش اُن پر اب بھی قائم دائم ہے اور اسی مدرسہ کی برکت سے وہ ایک ایماندار مسلمان کے طور پر فرائض سر انجام دے رہے ہیں اور اب تک اپنے مادر علمی سے کسی نہ کسی حوالے سے منسلک ہے۔
مدرسہ تعلیم القرآن کی اصل بنیاد اخلاص پر ہے یہاں نہ نوٹ اور نہ ووٹ کی بات ہوتی ہے بلکہ فی سبیل اللہ بغیر کسی معاوضے وغرض کے اللہ کے کتاب کو مخلوق عالم تک پہنچانے کا ایک جدوجہد ہے، اور یہ گویا ایک سمندر ہے اور ہر کوئی اپنے بس کے مطابق اس سے وابستہ ہے۔ ماشاء اللہ مدرسہ کی تعلیم وتربیت کا اثر یہ ہے کہ یہاں علماء ومشائخ، سرکاری آفیسرز، سیاسی پارٹیوں کے رہنما ء، تاجر حضرات، ڈاکٹرز، پروفیسر ز، صحافی اور دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے حضرات آتے رہتے ہیں اورنوجوانوں کی حوصلہ افزائی کرتے رہتے ہیں اور ادارے کی خدمت پر ہمیشہ لبیک کہتے ہیں۔ اور ہر کسی کا یہ تاثر ہوتا ہے کہ یہ دینی دنیوی تعلیم کا جو امتزاج یہاں ہے، یہ ہمارے مسلمانوں کا ورثہ ہے جوہمارے مسلمانوں سے اغیار نے منظم سازش کے تحت بھلایا ہوا ہے۔ کیونکہ 1857ء سے پہلے سکول ومدرسہ ایک تعلیمی نظام ہوتا تھا اور علماء، ڈاکٹر ز، انجنیرز، انتظامی آفیسر صرف ایک ہی ادارے سے نکل آتے تھے مگر انگریز جب یہاں قابض ہوا تو ہمارے درمیان دینی وعصری تعلیم کے جدا گانے نظریہ کو چھوڑا جو اب تک ایک خلا ہے اور وہ کسی نے پُر نہیں کیا، اس پر آپ میرا کالم نظام تعلیم کی وحدت ملاحظہ کرسکتے ہے۔
اسی کو شاعر مشرق علا مہ اقبال ؒ نے یوں بیان کیا ہے۔
"جد ا ہود دین سیاست سے
تو رہ جاتی ہے چنگیزی”