مسیحا انسانیت حضرت محمدﷺ کی حرمت پر جان قربان کرنا ہی ایمان ہے۔(نسیم الحق زاہدی)

0

خلیفہ عبدالحمید ثانیؒ ایک دن اپنے مشیروں اور وزاء کے درمیان موجود تھے کہ اچانک ایک حکومتی عہدیدار نے آپ کو آکر ایک ایسی خبر سنائی کہ آپ کا رنگ غصے سے سرخ ہوگیا اور نہایت جلال میں آکر کھڑے ہوگئے۔حکومتی عہدیدار کے ہاتھ میں فرانسیسی اخبار موجود تھا جس میں ایک اشتہار شائع ہوا تھا کہ فرانس کے ایک تھیٹر نے حضور کریم ؐ کی شان میں گستاخانہ ڈرامہ پیش کرنے کا اعلان کیا ہے اور اس سلسلہ میں اخبارات میں اشتہارات شائع کروائے ہیں۔اخبار کے تراشے سے خلیفہ عبدالحمید ثانی کو بتایا گیا کہ ایک شخص نے ایک ڈرامہ تحریر کیا ہے جسے تھیڑ میں پیش کیا جائے گا اس ڈرامے میں (نعوذباللہ)حضور کریم ؐکا کردار بھی بنایا گیا ہے اور وہ کردار تھیٹر میں ایک شخص ادا کرے گا (نعوذباللہ)۔خلیفہ نے حکومتی عہدیدار سے فرانسیسی اخبار لیکر اونچی آواز میں پڑھنا شروع کردیا۔نہایت جلال اور غصے کی حالت میں سلطان کا جسم کانپ رہا تھا۔جب کہ آپ کا چہرہ سرخ ہوچکا تھا۔آپ وہاں پر موجود حکومتی عہدیداروں کو مخاطب کرکے اخبار میں شائع اشتہار سے متعلق بتارہے تھے کہ”فرانس کے اس اخبار میں ایک اشتہار شائع ہواکہ ایک شخص نے ڈرامہ لکھا ہے اس میں حضور ؐ کا کرداربھی بنایا گیا ہے،یہ ڈرامہ آج رات پیرس کے تھیٹرمیں چلے گا،اس ڈرامے میں ہمارے نبی ؐکی شان میں گستاخیاں ہیں،وہ فخر کونین ؐ کی گستاخیاں کرینگے،اگر وہ میرے بارے میں بکواس کرتے تو مجھے کوئی غم نہیں ہوتا،لیکن اگر وہ میرے دین اور میرے رسول ؐ کی گستاخی کریں  تومیں جیتے جی مرجاؤں،میں تلوار اٹھاؤں گا یہاں تک کہ اپنی جان ان پر فدا کردوں گا،چائے میری گردن کٹ جائے،یا میرے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے ہوجائیں تاکہ کل بروز قیامت رسول اللہؐکے سامنے شرمندگی نہ ہو،میں انہیں برباد کردوں گا،یہ برباد ہوجائیں گے،راکھ ہوجائیں گے،یہ آگ اور تباہی ہرذلیل دشمن کے لیے نشان عبرت ہوگی،ہم جنگ کریں گے،ہم انکی طرح بے غیرت نہیں ہوسکتے اور یہ بھی ممکن نہیں کہ ہم اپنے دفاع سے پیچھے ہٹ جائیں،ہم ان سے جنگ کریں گے۔خلیفہ نہایت جلال میں باآواز بلند گستاخانِ رسولؐ کے خلاف جنگ کا اعلان کررہے تھے،اسی اثنا میں سلطان نے فرانسیسی سفیر کو طلب کرنے کے احکامات جاری کردئیے۔کچھ ہی دیر بعد خلیفہ دربار میں روایتی لباس میں فاخرانہ جوشاید فرانسیسی سفیر پر ہیبت ڈالنے کے لیے زیب تن کیا تھا نہایت جلال اور بے چینی کی حالت میں بجائے تخت پر بیٹھنے کے اس کے سامنے کھڑے تھے اور فرانسیسی سفیر ان کے سامنے حاضر تھا،سلطان کی حالت سے اسے اندازہ ہورہاتھا کہ اسے بلاوجہ طلب نہیں کیا گیا،اسکے ماتھے پر پسینہ آچکا تھا،جسم پر لزرہ طاری تھا اور ٹانگیں سلطان کے رعب سے کانپ رہی تھی۔سلطان نے فرانسیسی سفیر کو مخاطب کیا "سفیر صاحب!ہم مسلمان اپنے رسول کریم ؐ سے بہت زیادہ محبت کرتے ہیں،اسی وجہ سے ان سے محبت کرنے والے ان پر اپنی جانوں کو قربان کرتے ہیں اور مجھے بھی کوئی تردد نہیں ہے کہ میں بھی حضور کریم ؐ پر جان قربان کرتا ہوں،ہم نے سنا ہے کہ آپ نے ایک تھیٹر ڈرامہ بنایا ہے جو نبی مکرم ؐ کی توہین پر مشتمل ہے،یہ کہہ کر خلیفہ نے فرانسیسی سفیر کی جانب قدم بڑھا نا شروع کردئیے،خلیفہ کہتے جارہے تھے میں بادشاہ ہوں بلقان کا،عراق کا،شام کا،لبنان کا،حجازکا،اور قافقاز کا اور دارلحکومت کا۔میں خلیفۃالاسلام سلطان عبد الحمید خان ہو ں۔یہاں تک کہ خلیفہ فرانسیسی سفیر کے قریب پہنچ گئے فاصلہ نہایت کم ہوگیا،فرانسیسی سفیر کے جسم پر لزرہ طاری تھا،وہ خلیفہ کے جلال کے سامنے بہت مشکل سے کھڑا تھا،خلیفہ سلطان عبدالحمید ثانی نے فرانسیسی سفیر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر نہایت سفاکانہ لہجہ میں اسے کہا کہ اگر تم نے اس ڈرامے کو نہ روکا،تو میں تمہاری دنیا تباہ کردونگا،یہ کہہ کر سلطان نے ڈرامے کے اشتہاروالا اخبار فرانسیسی سفیر کی طرف اچھال دیا اور نہایت تیزی سے دربار سے نکل گئے۔فرانسیسی سفیر اخبار کو اٹھائے فوری طور پر ڈگمگاتاہوا دربار سے نکلا اور سیدھا سفارتخانے پہنچا اور ایک نہایت برق رفتار پیغام فرانس اپنی حکومت کو بھیج دیا کہا گر یورپ کو اپنی آنکھوں سے جلتا ہوانہیں دیکھنا چاہتے اور فرانس کی فصیلوں پر اسلامی پرچم نہیں دیکھنا چاہتے تو فوری طور پر گستاخانہ ڈرامے کو روکو،عثمانی لشکر حکم کے منتظر ہیں اور پیادہ فوج اور توپ خانہ چھاؤ نیوں سے نکل چکا ہے۔ادھر خلیفہ عبدالحمید ثانی فرانسیسی سفیر کو دربار میں طلب کرنے اور جنگ کا اعلان کرنے کے بعد چپ نہیں رہے۔وہ سچے عاشق رسولؐ اور دین کے داعی اور اللہ کے سپاہی تھے،ایسے ہی تو مسلمان آدھی دنیا پر حاکم نہیں رہا،سلطان جانتے تھے کہ ان کا اقتدار فانی ہے اصل بادشاہت اللہ تعالیٰ کی ہے اور اللہ تعالیٰ اپنے حقوق تو معاف کرسکتا ہے،مگر اپنے محبوب،خاتم النبیین جناب حضرت رسول کریم ؐ کی شان میں گستاخی کی کسی صورت میں معافی نہیں۔انہوں نے اپنے مشیر خصوصی کو اپنے دفتر میں طلب کیا اور اسے فوری طور پر پوری خلافت میں ایک سرکلر جاری کرنے کا حکم دیا،یہ سرکلر خلیفہ نے خود اپنی زبان میں لکھوایا جو کچھ ایسے تھا”فرانسیسیوں کی اسلام کے خلاف کاروائیاں حد سے تجاوز کرچکی ہیں،ہم پھر بھی پاس ادب رکھے ہوئے ہیں،لیکن اب ہمارے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا،اب ہم خلافت کا پرچم بلند کرنے جارہے ہیں،اور فرانسیسیوں سے ایک حتمی جنگ کرنے جارہے ہیں،یہ حکم ہے خلیفۃ وجہ الارض جلالت الملک عبدالحمید خان کا،اب ہم ان سے انکی زبان میں بات کرینگے مشیر خصوصی خلیفہ عبد الحمید کے لہجے میں تلوار کی کاٹ صاف محسوس کررہا تھا۔اس کی ریڑھ کی ہڈی میں سنسی کی لہر دوڑ گئی۔خلیفہ عبدالحمید کی فرانسیسی سفیر کی دربار میں طلبی اور جنگی حکم نامے کے ساتھ فوجوں کو تیار رہنے کے احکامات نے ہی اسلام دشمن پر خوف طاری کردیا۔پوری دنیا منتظر تھی کہ اب کیا ہوگا،یورپ کانپ اٹھا،فرانس نے گھٹنے ٹیک دئیے۔خلیفہ اپنے خاص کمرے میں موجود تھے۔اچانک ایک حکومتی عہدیدارہانپتا ہوا کمرے میں بغیر اجازت ہی داخل ہوگیا اور گویا ہوا "خلیفہ ایک خوشخبری آئی ہے۔خلیفہ:وہ کیا؟حضور فرانسیسیوں نے نے اس ڈرامے کو ہی نہیں روکا بلکہ اس تھیٹر کو ہمیشہ کے لیے بند کردیا ہے۔خلیفہ عبدالحمید ثانی حکومتی عہدیدارکی بات کے دوران ہی نمناک ہوچکے تھے،آپ کی زبان سے فرط جذبات سے صرف الحمدللہ ہی نکل سکا،حکومتی عہدیدار پاشا نے خلیفہ کو بتایا کہ پورے عالم اسلام سے ان کے لیے شکریہ کے پیغامات آرہے ہیں،انگلستان لیور پول کی ایک اسلامی تنظیم نے اس ڈرامے کو روکے جانے کی خبردی ہے،مصر اور الجزائر میں لوگ خوشی کے مارے سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔لوگ آپ کی صحت وعافیت کی دعائیں کررہے ہیں۔یہ تھے غیرت مند مسلمان حاکمین یہ وہ وقت تھا جب خلافت عثمانیہ کی ہیبت اور جلالت سے یورپ اور کفار کے مراکز ہل جایا کرتے تھے۔آج مسلمان پوری دنیا میں ذلت وپستی کا شکار ہوچکا ہے۔آج مسلمان دشمنان اسلام کو کیا جواب دے سکتے ہیں،انکی تو اپنی ٹانگیں لڑکھڑا چکی ہیں،فرقہ واریت کے نام پر ایک دوسرے سے دست وگریبان ہیں وہ وقت یاد کریں جب کسی مسلک،کسی فرقے کو ذہن میں لائے بغیر عالم اسلام کی اس شاندار فتح پر اسلامی ممالک میں مسلمان نئے کپڑے پہن کر ہاتھوں ہاتھ ڈالے درود شریف پڑھتے جشن مناتے تھے۔آج چند جاہل انتشار پسند دین فروش تعصب اور فرقہ واریت کو فروغ دے رہے ہیں۔اللہ تعالیٰ کی اذان پر یہ کہتے سنا ہے کہ اس اذان کا احترام مت کرو یہ دوسرے مسلک کی اذان ہے اور اس مسلک کے ماننے والوں کو سور سے تشبیح دینا،ایمان سے بتائیں ایسے لوگ عاشق رسولؐ ہوسکتے ہیں کیا؟کیا ایسے لوگ عالم کفر کو للکارنے کی جرأت رکھتے ہیں جن سے ان کے اپنے مسلمان بھائیوں کی عزت وتکریم محفوظ نہیں وہ لوگ نبی رحمت ؐ سے عشق کا دعویٰ کرتے ہیں۔آج فرانس کے صدر نے اگر نبی رحمت ؐکی شان میں گستاخی کی ہے تو اس کی وجہ مسلمان خود ہیں آج اکسٹھ کے قریب آزاد اسلامی ممالک ہیں پوری دنیا میں دوسرا بڑا مذہب اسلام اور مسلمان ہیں۔آج مسلمان ہرطرف سے دہشت گردی کا شکار ہونے کے باوجود دہشت گرد سمجھا جاتا ہے اس کی وجہ مسلمانوں کی نااتفاقی ہے جس کی وجہ سے آج مسلمان بے حس ہوچکا ہے وگرنہ فرانس کو جنگ کی وارننگ دیتے اور معاشی تعلقات ختم کرتے،آج اکسٹھ اسلامی ممالک کے حاکمین ماسوائے طیب اردگان کے سبھی بے ضمیر اور مردہ ضمیر ہیں۔نبی رحمتؐ کی شان میں گستاخی پر کسی صورت مصلحت پسندی کا درس نہ دیا جائے۔خلیفہ ہارون الرشید نے امام مالک ؒ سے پوچھا تھا اگر دنیا میں کسی جگہ حضور کریم ؐ کی گستاخی ہوجائے تو حضوکریمؐ کی امت کی کیا ذمہ داری ہے؟؟؟فرمایا امت مسلمہ بدلہ لے اس سے ہارون الرشید نے کہا کہ عراقیوں نے فتویٰ دیا ہے اسے کوڑے لگائے جائیں امام مالکؒ غصے میں آئے اورکہا کیا کہہ رہے ہو کس کے کوڑوں کی بات اس اُمت کو زندہ رہنے کا حق کیا ہے؟ جس کے پیغمبرؐ کے بارے میں کوئی زبان کھولے اور وہ زندہ رہے اور اس کے اندر غیرت نہ جاگے۔اس امت کو مرجانا چاہیے۔عجب معاملہ ہے توہین عدالت کا قانون موجود ہے توہین صدر اور وزیر اعظم کا قانون موجود ہے توہین وطن اور توہین آرمی کا قانون موجود ہے وطن اور فوج کے بارے میں بات کرنے پر بغاوت کا مقدمہ سزائے موت ادھر لفظ منہ سے نکلا ادھر ادارے حرکت میں آجاتے ہیں۔ایک تھانے کے کرپٹ ایس ایچ او کی شان میں گستاخی پر ان کاؤنٹر مگر نبی رحمت ؐ کی شان میں گستاخی پر مصلحت پسندی کا درس دیا جاتا ہے۔افسوس!سچ میں اب اس اُمت کو زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں وطن عزیز کے اندر آج تک کسی گستاخ رسول ؐکوقانون نے سزاء نہیں دی عاشقان رسولؐ کی تلواروں نے ہی فیصلے کیے ہیں۔عصر حاضر میں اٹھنے والے فتنوں میں سب سے عظیم فتنہ جو دنیاکو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہے،وہ شعائر اللہ کی توہین اور رسول ؐکی عزت وناموس پر رکیک حملے کیے جارہے ہیں،یہود ونصاریٰ نت نئے طریقوں سے اُمت مسلمہ کے مذہبی جذبات مجروح کرنے کی سعی میں مصروف ہیں،نوبت بایں جارسید کہ اسلام کے دعویدار حکومتوں کی ریاست میں بھی سرعام رسول اللہؐ کی حرمت وناموس کے حوالے سے عوام کے اذہان وقلوب کو منتشر کیا جارہا ہے،انگریز کے زر خرید غلام مسلمانوں کو محبت مصطفیؐ سے تہی دامن کرنا چاہتے ہیں۔فتنہ فساد کے اس شورش میں یہود وہنوز کے کچھ گماشتے ملک پاکستان کی بنیادوں میں لادینیت اور سیکولرازم کا زہر گھولنا چاہتے ہیں۔جس میں وہ بہت حد تک کامیاب ہوچکے ہیں۔آج تمام مسلم ممالک کے حاکمین کا یہ فرض اول ہے کہ وہ آقا نامدارﷺ کی شان میں گستاخی کرنے والے ممالک سے ہر قسم کے تعلقات کو ختم کرتے ہوئے اعلان جنگ کریں تاکہ عالم کفر کو اندازہ ہو کہ مسلمان سب کچھ برداشت کرسکتا ہے،مگر اپنے نبی ؐ کی شان میں کسی قسم کی گستاخی برداشت نہیں کرسکتا۔کم از کم وطن عزیز کے حاکم کو چاہیے تھا فی الفور فرانس کے سفیر کو واپس بھیج دیا جاتا اور تمام طرح کے تعلقات منقطع کرلیے جاتے۔یقین کیجئے ہتھیار اٹھانے کی بھی ضرورت نہیں پڑے گی،عالم کفر اپنی موت آپ مرجائیں گے مگر اس وقت انکو یہ بتانا ہوگا کہ ہم سب کچھ برداشت کرسکتے ہیں مگر اپنے نبیؐ کی توہین نہیں کیونکہ مسیحاانسانیت حضرت محمدؐ کی حرمت پر جان قربان کرنا ہی ایمان ہے۔

You might also like
Leave A Reply

Your email address will not be published.