گستاخانِ رسول کا انجام(آخری قسط)حافظ مومن خان عثمانی

چٹان
0

ایک رات اس نے خواب دیکھا، ایک بزرگ ملے اور انہوں نے کہا، علم الدین! ابھی تک سو رہے ہو، تمہارے نبی ؐ کی شان کے خلاف دشمن کاروائیوں میں لگے ہیں، اٹھو جلدی کرو،علم الدین ہڑبڑا کر اٹھے، ان کا تمام جسم پسینے میں شرابور تھا، پھر آنکھ نہ لگی، منہ اندھیرے اٹھے، اوزار سنبھالے اور سیدھے شیدے کے گھر پہنچے، شیدے کو لیا اور بھاٹی دروازہ کی طرف چلے گئے، ایک جگہ بیٹھ کر باتیں کرنے لگے، عجیب بات ہے کہ علم الدین نے خواب دیکھا تھا تو ویسا ہی خواب شیدے نے رات کو دیکھا تھا۔ دونوں ہی کو بزرگ نے راجپال کا صفایا کرنے کو کہا، دونوں پریشان ہوئے۔ کون یہ کام کرے، کون نہ کرے،دیر تک بحث چلتی رہی، دونوں ہی یہ کام کرنا چاہتے تھے لیکن ان میں کوئی فیصلہ نہ ہو رہا تھا، دونوں ہی اپنے مؤقف پر ڈٹے ہوئے تھے۔ آخر قرار پایا کہ قرعہ اندازی کی جائے، دونوں اس پر رضامند ہو گئے، دو مرتبہ قرعہ اندازی کی گئی، دونوں مرتبہ علم الدین کے نام کی پرچی نکلی، شیدے نے اصرار کیا کہ تیسری بار پھر قرعہ اندازی کی جائے،پرچی نکالنے والا اجنبی لڑکا حیران تھا کہ یہ دونوں جوان کیا کر رہے ہیں،آخر تیسری بار پر علم الدین رضامند ہو گئے، اب پھر انہی کا نام نکلا۔اب شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہ رہی،علم الدین مارے خوشی کے پھولے نہ سمائے، قرعہ فال انہیں کے نام نکلا، وہی باہمی فیصلے سے شاتم رسول ؐ کا فیصلہ کرنے پر مامور ہوئے۔ پھر دونوں وہاں سے اٹھ کر چلے گئے،گھر والوں کو خبر ہی نہ ہوئی کہ علم الدین نے کیا فیصلہ کیا ہے، ان کے اندر کب سے طوفان انہیں بے چین کر رہا ہے اور اس کا منطقی انجام کیا ہو گا؟ ان کی زندگی میں جو بے ترتیبی آئی ہے، اس کا کیا سبب ہے؟ ایک مرتبہ پھر خواب میں آ کر بزرگ نے اشارہ کیا، علم الدین! اٹھو، جلدی کرو، دیر کی تو کوئی اور بازی لے جائے گا۔ ارادہ تو کر ہی چکے تھے مکرر خواب میں بزرگ کو دیکھا تو ارادہ اور بھی مضبوط ہو گیا۔ آخری بار اپنے دوست شیدے سے ملنے گئے، اسے اپنی چھتری اور گھڑی یادگار کے طورپر دی، گھر آئے، رات گئے تک جاگتے رہے۔ نیند کیسے آتی؟ وہ تو زندگی کے سب سے بڑے مشن کی تکمیل کی بابت سوچ رہے تھے، اس کے علاوہ اب کوئی دوسرا خیال پاس بھی پھٹک نہ سکتا تھا۔ اگلی صبح گھر سے نکلے، گمٹی بازار کی طرف گئے اور آتما رام نامی کباڑئیے کی دکان پر پہنچے جہاں چھریوں کا ڈھیر لگا تھا، وہاں سے انہوں نے اپنے مطلب کی چھری لے لی اور چل دئیے، اب ”نغمہ بیش از تار“ ہو گیا، روح بے قابو ہوگئی،انار کلی میں ہسپتال روڈ پر عشرت پبلشنگ ہاؤس کے سامنے ہی راجپال کا دفتر تھا۔ معلوم ہوا کہ راجپال ابھی نہیں آیا، آتا ہے تو پولیس اس کی حفاظت کے لئے آ جاتی ہے۔ اتنے میں راجپال کار پر آیا، کھوکھے والے نے بتایا، کار سے نکلنے والا راجپال ہے، اسی نے کتاب چھاپی ہے،دفتر میں جا کر اپنی کرسی پر بیٹھا اور پولیس کو اپنی آمد کی خبر دینے کے لئے ٹیلیفون کرنے کی سوچ ہی رہا تھا کہ علم الدین دفتر کے اندر داخل ہوئے، اس وقت راجپال کے دو ملازم وہاں موجود تھے، کدار ناتھ پچھلے کمرے میں کتابیں رکھ رہا تھا جب کہ بھگت رام راجپال کے پاس ہی کھڑا تھا، راجپال نے درمیانے قد کے گندمی رنگ والے جوان کو اندر داخل ہوتے دیکھ لیا لیکن وہ سوچ بھی نہ سکا کہ موت اس کے اتنے قریب آ چکی ہے……پل جھپکنے میں چھری نکالی……ہاتھ فضا میں بلند ہوا اورپھر راج پال کے جگر پر جا لگا……چھری کا پھل سینے میں اتر چکا تھا، ایک ہی وار اتنا کارگر ثابت ہوا کہ راجپال کے منہ سے صرف ہائے کی آواز نکلی اور وہ اوندھے منہ زمین پر جا پڑا،علم الدین الٹے قدموں باہر دوڑے، کدار ناتھ اور بھگت رام نے باہر نکل کر شورمچایا…پکڑو…پکڑو…مار گیا…مار گیا…مار گیا،راجپال کے قتل کی خبر آناً فاناً شہر میں پھیل گئی،پوسٹ مارٹم ہوا تو کئی ہزار ہندو ہسپتال پہنچ گئے اور آریا سماجی ”ہندو دھرم کی جے……ویدک دھرم کی جے“ کے نعرے سنائی دینے لگے،علم الدین کے گھر والوں کو علم ہوا تو وہ حیران ضرور ہوئے لیکن انہیں یہ پتہ چل گیا کہ ان کے چشم و چراغ نے کیسا زبردست کارنامہ سرانجام دیا ہے اور ان کا سر فخر سے بلند کر دیا ہے،پولیس نے بغرض ِ حفاظت ان کے گھر پر پڑاؤ ڈال لیا اور ہجوم کو ہٹا دیا۔ اب کوئی ان کے گھر میں جا نہ سکتا تھا، وہ بھی گھر سے باہر نہ آ سکتے تھے۔ شیدا باہر رہ کر انہیں ضرورت کی چیزیں پہنچانے لگا،طالع مند کو قرعہ اندازی کا علم ہوا تو شیدے کے بارے میں سارے شکوک و شبہات رفع ہو گئے، پھر اس نے جس لگن سے خدمت کی اس سے، اس نے ان کا دل موہ لیا۔ آخر عدالت کا دروازۂ کھلا اورغازی علم الدین کی قسمت کے فیصلے کی نوبت آئی، سب کی نظریں ایک نقطے پر جمع ہو گئیں،10اپریل کو پہلی پیشی ہوئی، غازی علم الدین کی طرف سے کوئی وکیل پیش نہ ہوا، کیسی تعجب کی بات ہے کہ اس سے پہلے بھی یہی صورت تھی۔ مرد ِ غازی خدا بخش اکو جہاں پر راجپال پر قاتلانہ حملہ کرنے کے الزام میں مقدمہ چلا تو انہیں کوئی وکیل میسر نہ آیا، اسی طرح افغانستان کے تاجر غازی عبدالعزیز بھی راجپال پر قاتلانہ حملے کے لئے الزام میں وکیل کے بغیر ہی عدالت میں پیش ہوئے، بعد ازاں غازی علم الدین کی طرف سے چوٹی کے وکیل پیش ہوئے۔ خواجہ فیروز الدین بیرسٹر نے یہ مقدمہ لے لیا، ان کے معاون ڈاکٹر اے آر خالد تھے، فرخ حسین بیرسٹر تو پہلے سے شامل تھے، ان میں مسٹر سلیم اوردیگر وکلاء بھی شامل ہو گئے۔ وکلاء نے جرح کی اورصفائی میں دلائل پیش کئے لیکن یہاں دلائل سننے والا اور انہیں درخور ِ اعتناء کرنے والا کون تھا؟ عدالت طوفان میل کی طرح مقدمے کی سماعت کرنے اور فیصلہ سنانے کے لئے بے چین تھی۔ صفائی کے وکلاء کی کوئی بات مانی نہ گئی، کوئی دلیل قبول نہ کی گئی اور 22مئی کوغازی علم الدین کو سزائے موت سنا دی گئی۔ فرخ حسین بیرسٹر بمبئی گئے اور نوجوان وکیل محمد علی جناح سے ملے تا کہ وہ ہائی کورٹ میں غازی علم الدین کی اپیل کی پیروی کریں۔جناح صاحب مان گئے،ہائی کورٹ میں سماعت ہوئی، قائداعظم محمد علی جناحؒ نے دفاع میں دو نکات پیش کئے]۱[راجپال نے پیغمبر اسلام ؐ کی شان میں گستاخی کی ہے، بدزبانی کی ہے، ملزم کے ذہنی جذبات کو ٹھیس پہنچائی گئی جس سے غصے میں آ کر اس نے راجپال پر حملہ کیا، جرم اس پر ٹھونسا گیا ہے]۲[ملزم کی عمر انیس اور بیس سال کے قریب ہے۔ وہ سزائے موت سے مستثنیٰ ہے۔اس لئے ملزم غازی علم الدین کے خلاف زیردفعہ 302قتل عمدکی بجائے 308 قتل بوجہ اشتعال کاروائی کی جانی چاہئے اور ملزم کو موت کے بجائے سات سال قید کا سزاکامستوجب سمجھناچاہئے،اس کی زیادہ سے زیادہ سزا دفعہ 304 کے تحت پھانسی کی بجائے دس سال قید ہے،15جولائی 1929ء کو فرنگی ججوں نے فریقین کے وکلاء کے دلائل سننے کے بعد غازی علم الدین کی اپیل خارچ کردی اور سیشن جج کے فیصلے کو برقرار رکھا،شام کو جب غازی علم الدین کو ہائی کورٹ کا فیصلہ سنایاگیا تو انہوں نے مسکرا کر کہا:شکر!الحمدللہ!میں یہی چاہتا تھا کہ بزدلوں کی طرح قیدی بن کر گل سڑنے کے بجائے تختہ دار پر چڑھ کر شفیع المذنبین،رحمۃ للعالمین،ہادی بر حق ﷺپر اس حقیر سی جان کو قربان کردینا صدہزار ابدی سکون وراحت کا موجب ہے،اللہ تعالیٰ میری اس ادنیٰ اور پر خلوص قربانی کو قبول فرمائے۔“جمعرات 26جمادی الآخر 1348ھ (31اکتوبر 1929ء)کو میانوالی جیل میں مجسٹریٹ نے غازی علم الدین سے اس آخری خواہش دریافت کی،انہوں نے کہ صرف دورکعت نماز شکر اداکرنے کی اجازت دی جائے،انہوں نے دورکعت نفل پڑھے اور کلمہ شہادت پڑھ کر تختہئ دار پر چڑھ گئے،انگریز حکومت نے ان کو ایک بے بس قوم کا فرد سمجھ کر ان کی میت کو میانوالی جیل کے قبرستان میں ایک حیوان کی طرح کسی گڑھے میں دبادیا،جنازہ تو درکنار کفن تک نہیں دیاگیا،ان کی میت کو دبایاجارہاتھا کہ کہ پاس کھڑے ایک نمبردار قیدی نے درود شریف اورکلمہ شہادت پرھ کراپنی چادر علم الدین پر ڈال دی،جونہی یہ خبر لاہو رپہنچی تو اہلیان لاہور کے شدید احتجاج پر 13نومبر 1929ء کو مسلمانوں کا ایک وفد میانوالی پہنچا،دوسری دن غازی علم الدین کی نعش کوگڑھے سے نکال کر ایک صندوق میں بند کردیا گیا،14نومبر 1929ء کو شہید کے جسدخاکی کو لاہور پہنچایا گیا،شاعرمشرق علامہ اقبال ؒ اور سرمحمدشفیع نے وہ صندوق وصول کرنے کی سعادت حاصل کی،غازی علم الدین شہید کے والد طالع مند نے نماز جنازہ پڑھانے کے اختیارات علامہ محمداقبال ؒ کے حوالے کئے،علامہ اقبال نے سید حبیب مدیر اخبار سیاست کے مشورہ سے سن رسیدہ عالم مولاناسید دیدارعلی شاہ الوری کا نام تجویز کردیا،لیکن ان عدم موجودگی میں قاری شمس الدین خطیب مسجد وزیر خان نے پہلی نمازجنازہ پڑھائی،دوسری مولاناسید دیدارعلی شاہ نے تیسری نماز جنازہ سیداحمدشاہ اور باقی نمازیں مختلف علماء کرام نے پڑھائی،نمازجنازہ میں چھ لاکھ افراد نے شرکت کی،مولانادیدار علی شاہ اور علامہ محمداقبال نے میت کو اپنے ہاتھوں سے لحدمیں اتارکر بدنام زمانہ گستاخِ رسول راجپال کوجہنم رسید کرنے والے عاشق رسول کو سپردِ خاک کیا۔

You might also like
Leave A Reply

Your email address will not be published.