انتخابی اصلاحات (ڈاکٹر نواب غوث بخش خان باروزئی)

غوث بخش کالم نگار
0

انتخابات ایک ایسا نظام جس کی مدد سے عوام اپنے حکمرانوں کاچناؤکرتے ہیں اور پھر حکمران طبقہ ملک اورعوام کی قسمت کے فیصلے کرتا ہے۔بیشک بلدیات سمیت قومی سطح کے انتخابات کو پوری طرح صاف شفاف، منصفانہ اور قابل اعتبار ہونا چاہیے، مگر بد قسمتی سے وطن عزیز میں آج تک انتخابات پر انگلیاں اٹھائی جاتی ہیں۔ اللہ رب العزت کی طرف سے اقتدارانسان کے پاس ایک مقدس امانت عوام کی انتھک خدمت کاباوقارراستہ ہے۔اقتدار میں اس طرح سے آنا چاہیے کہ خلق خدا کی خدمت پر شکوک و شبہات نہ ہوں۔ وقت آگیا ہے کہ انتخابات کے نظام کو اس طرح صاف شفاف،منصفانہ اور خود مختاری والے انداز میں کروانے کیلئے ایک ایسا الیکشن کمیشن بنایا جائے اور ایسے قوانین بنائے جائیں کہ ان پرکوئی بھی اعتراض اورانگشت نمائی نہ کر سکے۔ملک عزیز میں جو حالات ہیں یقینا ان میں ریاست سیاست سے بہت مقدم ہے۔ریاست پرحکمرانی کرنے کیلئے اداروں کو ہر قسم کے اعتراضات اور الزامات سے پاک اور صاف رکھنے کیلئے وقت آگیا ہے کہ اعلیٰ درجے کی ایمانداری سے قانون سازی کی جائے۔عوام کے ووٹ سے اقتدار میں آنے والے اگر بلا امتیاز خدمت خلق کرناشروع کردیں تو وطن عزیزمیں خوشحالی اور ترقی ناممکن نہیں عمران خان کے چند حلقوں پر اعتراضات کا سنجیدگی اورمعاملہ فہمی سے نوٹس لے کر اگر معاملہ خوش اسلوبی سے حل کرلیاجاتاتوملک میں سیاسی انارکی صورتحال نہ ہوتی۔عمران خان اگر انتخابی اصلاحات کی بات کرتا ہے تو یہ غلط اور قابل اعتراض نہیں ہے۔جس نظام سے عوام حکمرانوں کا انتخاب کرتے ہیں اسے ہرفریق کیلئے بہترین،صاف اور شفاف،قابل قبول،قابل اعتماد بنانا جہاں ماضی میں اشد ضروری تھا وہاں آج بھی بیحدضروری ہے۔ آج پی ڈی ایم میں شامل پارٹیاں 2018ء کے عام انتخاب پر دھاندلی کے بعد گلگت بلتستان کے الیکشن پر بھی دھاندلی کا الزام لگاچکی ہیں۔
اگر نواز شریف اپنے دور اقتدارمیں انتخابی نظام کی بہتری اورنیک نامی کیلئے اصلاحات کرتے اوروطن عزیز کی تمام پارٹیزکو اعتماد میں لے کر قانونی شکل دیتے تو کیا آج وہ خود اورپاکستان کے عوام اطمینان کی کیفیت میں نہ ہوتے۔ ابھی بھی وقت ہے کہ وہ پی ڈی ایم کے زعم میں رہتے ہوئے سیاسی طور پریہ قدم اٹھا ئیں اور ملک و قوم کی خدمت کیلئے بنیادی ادارے کومزید مستحکم کریں۔ باقی اگروہ واقعی انقلابی بن چکے ہیں تو بیشک فوج سے اپنے مطالبات منوانے کی کوشش کرناان کاحق ہے۔ عقل و فہم کے تقاضے ان سب سیاستدانوں سے متقاضی ہیں کہ اب تو مسائل کا حل دیانت،متانت اور صداقت سے تلاش کریں۔پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ مولاناڈاکٹر طاہرالقادری کی سیاست سے اختلاف ہو سکتا ہے مگر انہوں نے 2012ء میں کراچی کے جلسہ عام میں سیاست نہیں ریاست بچاؤ کا نعرہ دے کر ملکی حالات کو درست سمت میں لانے کا اچھا اور قابل عمل مشورہ دیا تھا۔اب وقت آگیا ہے کہ ہر معاملے میں سازش اور بیرونی ہاتھ کی رٹ چھوڑ کر ریاست کی بنیادوں اورجغرافیائی سرحدوں اس قدر مضبوط کیاجائے کہ ہمیں کسی بیرونی طاقت سے کوئی خطرہ ہو بھی تو ہمیں کوئی خوف اور اندیشہ نہ ہو۔ ہم ایک مضبوط ملک اورمتحد قوم بن جائیں۔
ملک میں موجودہ سیاسی صورتحال تشویشناک ہو چکی ہے۔ بہت ہی آسانی سے اس مسئلے کے حل کی طرف جایا جا سکتا تھا۔مگر حکمران اتحاد اور متحدہ اپوزیشن کے پلیٹ فارم سے سرگرم سیاستدانوں نے ملک کو ایک گھمبیر اورتاریخ کے بد ترین بحران اور عوام کو مصیبت میں پھنسا دیا ہے۔اب بھی وقت ہے کہ معاملات کو اعلیٰ درجے کی ایمانداری اور خلوص نیت سے حل کرنے کی کوشش کی جائے۔بحران سے نکلنے کیلئے تمام سیاسی قائدین،زعماء اور جماعتوں کو انتہائی متانت،فہم وفراست،سنجیدگی،اخلاص اور ایمانداری سے کام کرنا ہو گا۔بد قسمتی یہ ہے کہ ہم سب انتہائی مخلص ہیں مگر مخصوص لوگ اپنی ذات اورسیاست کو ریاست پرفوقیت دے رہے ہیں۔ان حالات میں بھی لوگ اپنے مفادات کے تحفظ اور حصول کیلئے سرگرداں اورکوشاں نظر آتے ہیں۔ بد قسمتی سے ہمارے مفادات ایک ہیں چاہے پارٹی منشورمختلف ہوں۔کسی بھی پارٹی کا منشور عوام کی فلاح و بہبود اور ملکی مفادکیخلاف نہیں مگرافسوس آج تک عوام اور ملک کیلئے فائدہ مند ثابت نہیں ہوا۔کام کوئی بھی مشکل نہیں ہے مگراس کیلئے Will,Visionسوچ کی Clarityاوراپنی ذات کی نفی اور ملک و قوم کی خدمت کا جذبہ ہو تو پھر دنیا کی کوئی طاقت ہمیں ایک عظیم قوم و ملک بننے سے نہیں روک سکتی۔حکمران جماعت کو بہت ہی احتیاط،اعتدال اور استدلال سے معاملات کا ادراک کرکے ایک آبرو مندانہ حل ڈھونڈنا ہوگا۔
تعمیری سیاسی سماجی رویوں اورانداز سے ہی مثبت حل نکل سکتا ہے،جو دشوار نہیں نہایت آسان ہے۔ صرف اپنے مفادات کوپس پشت ڈالناہوگا۔یہ ایک خوبصورت ملک ہے، اس نے بہت سے لوگوں کو بہت کچھ دیا ہے مگر وہی اس وطن کی کمزوری کا باعث بن جائیں تو پھرپیچھے بچتا کیا ہے۔ہم سبھی مادروطن کے مقروض ہیں۔ وقت آگیا ہے کہ ہمیں یہ قرض ایک مقدس فرض سمجھ کر چکاناہوگا لیکن اگراب بھی کوئی سنجیدگی سے اس کا حل نہیں سوچے گاتو پھر یہ ملک و قوم کی بد نصیبی ہوگی اورخدانخواستہ ذلت ہمارا مقدر بن سکتی ہے۔

You might also like
Leave A Reply

Your email address will not be published.