بچوں کے رسائل میں ”چاچا“ کا کردار(عبدالوارث ساجد)

0

بچوں کے رسائل میں اگر مقبول ترین سلسلے کی بات کی جائے تو یقیناً وہ ”چاچا“ کا کردار ہے یہ کردار اس قدر پسند کیا گیا کہ بچوں کے بہت سے رسائل نے مختلف ناموں سے یہ سلسلہ ہر رسالے میں شامل کیا اور ہر رسالے کے قاری بچوں نے اسے سب سلسلوں سے زیادہ پسند کیا بچوں کے اردو رسائل میں سب سے پہلے یہ سلسلہ بچوں کے معروف ادیب امتیاز علی تاج نے شروع کیا تھا۔ امتیاز علی تاج برصغیر پاک و ہند کے معروف ادیب تھے اور بچوں کے ادب کے لیے انہوں نے گراں قدر خدمات پیش کیں، چاچا چھکن بچوں کے اردو ادب کا پہلا نام ہے جو مزاح کے طور پر پیش کیا گیا یہ سلسلہ اس قدر مقبول ہوا کہ پھر چاچا کا کردار ہر رسالے کا حصہ بننے لگا چاچا چھکن کے بعد ”چاچا حر“ چاچا خواہ مخواہ، چاچا تیز گام، چاچا وہمی جیسے ناموں کے ساتھ یہ سلسلہ ہر رسالے میں چھپنے لگا ہر رسالے میں چاچا کا کردار مختلف رہا مگر زیادہ تر رسالوں میں اس کردار کو مزاح کے طور پر پیش کیا گیا اور مزاح ہی میں اس کردار کو پسند کیا گیا۔ ہم نے بچوں کے ادب میں ایک نئے طرز پر فرضی قصے کہانیوں سے پاک رسالے کا آغاز کیا تو اس میں بھی چاچا کا سلسلہ ”چاچا کے قلم سے“ شروع کیا مگر یہ سلسلہ مزاح کی بجائے اصلاح کے روپ میں پیش کیا اور حیرت انگیز طور پر یہ کردار بھی اس رسالے کا مقبول ترین سلسلہ بن گیا۔
اردو رسالوں میں چاچا کے کردار سے شامل ہونے والا یہ سلسلہ اصل میں انگریزی ادب سے تخلیق شدہ ہے پہلے پہل تو یہی سمجھا جا رہا تھا کہ اس کردار کے خالق امتیاز علی تاج ہیں مگر تحقیق سے یہ بات غلط نکلی اور پتہ چلا کہ یہ کردار بھی انگریزی ادب سے لیا گیا ہے ایک کتاب جا معہ کراچی سے ”چہ دلاور است“ کے نام سے شائع ہوئی۔
اس کتاب میں اردو ادب کے بڑے بڑے ناموں کے متعلق سیر حاصل گفتگو کی گئی ہے کہ کس منصف یا ادیب نے کب اور کس کتاب سے مدد لے کر اپنی تخلیقات کو حسن بخشا اس کتاب میں سید علی اکبر قاصد نے چاچا چھکن کے بارے میں بھی اظہار کیاہے وہ لکھتے ہیں:
یادش بخیر آج سے پندرہ بیس سال پہلے اردو ادب میں نئے ادبی تجربے کئے جا رہے تھے، نئے اسالیب سامنے آ رہے تھے اور مغربی اثرات کا غلبہ تھا، یورپ کے ادب کے ساتھ ترکی اور عربی ادب کی طرف بھی توجہ کی جا رہی تھی۔ اس دور میں کئی ایسی چیزیں لکھی گئیں جن میں ایک نئی فضا تھی۔ مثال کے طور پر امتیاز علی تاج کا ”چاچا چھکن“ قاضی عبدالغفار کی کتاب ”لیلیٰ کے خطوط“ اور ”اس نے کہا“ ان کے بعد محترمہ عصمت چغتائی کا ناولٹ ”ضدی“ اردو کے عام پڑھنے والوں نے ان تمام فن پاروں کا خیر مقدم کیا اور انہیں ادب میں قیمتی اضافہ قرار دیا، لیکن چھان بین سے پتہ چلا کہ یہ کتابیں تخلیقی کارناموں کی جگہ ترجمہ تھیں۔ یا ان کا مرکزی خیال اور تمام تر جزئیات ماخوذ تھیں۔ مثلاً ”چاچا چھکن“ امتیاز علی تاج کا کارنامہ انگریزی زبان کے مشہور مصنف ”جے کے جے روم“ کا مکمل چربہ تھا چاچا چھکن کا سلسلہ جب تک رسالوں میں شائع ہوتا رہا تاج صاحب نے کہیں اس بات کی طرف اشارہ نہ کیا لیکن جب یہ مضامین کتابی صورت میں شائع ہونے لگے تو تاج صاحب نے مناسب سمجھا کہ دبی زبان سے کہیں اصل مصنف کا تذکرہ کیا جائے اسی طرح ”لیلیٰ کے خطوط“ کی تازگی الیگزینڈر کوپرین کے گلے تر سے لی گئی تھی۔ ”اس نے کہا“ کی اشاعت نے قاضی صاحب کے ترجمہ کرنے اور اخذ کرنے کی صلاحیت کا شاندار ثبوت فراہم کیا، یہ کتاب ”خلیل جبران“ کی مرہون منت تھی جس کے قاضی صاحب بقول خود ”خوشہ چیں“ تھے مگر انہوں نے ترجمے کو ترجمہ کہنا مناسب نہ سمجھا یہ ”خوشہ چینی“ کا جدید مفہوم ہے۔
عصمت چغتائی اردو کے جدیدافسانہ کے معماروں میں سے ایک ہیں ان کے افسانوی نقوش ادب کا قیمتی سرمایہ ہیں اور اردو ادب کی تاریخ میں عصمت اپنے لیے ممتاز جگہ بنا چکی ہیں۔ ”کلیاں“ اور ”چوٹیں“ کے بعد آج سے بارہ تیرہ سال پہلے عصمت کا ناولٹ ”ضدی“ شائع ہوا تھا۔ اس ناولٹ کو عصمت کی فنی عظمت کا ثبوت قرار دیا گیا تھا، اس زمانے میں ادبی سراغرساں نے ”ضدی“ کو بڑے ذوق و شوق سے پڑھا تھا، لیکن پڑھ کر اسے بے حد صدمہ ہوا تھا کیونکہ یہ ناولٹ ترکی کے ناول ”ہاجرہ“ کا مکمل چربہ تھا اور ادبی سراغرساں نے اکتوبر 1943ء کے ”ماہنامہ معاصر“ پٹنہ میں ”ضدی“ کے متعلق اس انکشاف کو پیش کیا تھا مدتوں بعد پاکستان کے ایک نیم ادبی اور نیم مذہبی رسالے نے ”ضدی“ سے متعلق اس تحریر کو بغیر کسی حوالے سے شائع کر دیا یہ گویا ”انکشاف جرم کی دستاویز“ پر ڈاکہ تھا۔ (چہ دلاور است صفحہ نمبر 277 مطبوعہ جامعہ کراچی)
چاچا چھکن کے مضامین پر مشتمل امتیاز علی تاج نے اپنی کتاب کا جو دیباچہ لکھا تھا وہ یوں ہے۔
انگریز مصنف جیروم کے جیروم کی ایک کتاب ”تھری من ان اے بوٹ“ ہے اس کتاب میں ایک مقام پر ”انکل پوجر“ کے تصویر ٹانگنے کا تذکرہ ظریفانہ انداز میں ہے۔ 1926ء میں مدیر ”نیرنگ خیال“ نے مجھ سے فرمائش کی کہ میں ان کے عید نمبر کے لیے اس مضمون کا ترجمہ اردو میں کروں۔ مجھے جیروم کی ظرافت کا لطف ترجمے میں برقرار رکھنا ناممکن معلوم ہوا، چنانچہ میں نے بجائے ترجمہ کرنے کے انگریزی مضمون سامنے رکھ کر از سر نو اردو میں لکھ دیا اور ”انکل پوجر“ کو اردو میں ”چاچا چھکن“ کے نام سے موسوم کیا۔
ان دنوں اردو کے مصنف ظریفانہ انداز میں کردار نگاری کررہے تھے، چنانچہ جو لوگ انگریزی نہیں جانتے انہیں یہ مضمون نیا اور دلچسپ معلوم ہوا اور انہوں نے مجھ سے اسی قسم کے اورمضامین لکھنے کی فرمائش کی، مذکورہ بالا کتاب میں ایک دوسرے مضمون کے لیے بہت تھوڑا سا مواد موجود تھا، اس میں بیشتر باتیں خود شامل کرکے میں نے دوسرا مضمون ”چاچا چھکن نو چندی دیکھنے چلے“ لکھ دیا۔
یہ مضمون پہلے مضمون سے بھی زیادہ پسند کیا گیا، کئی رسالوں کے ایڈیٹروں نے مجھ سے فرمائش کی کہ میں ان کے خاص نمبروں کے لیے چاچا چھکن کا کوئی اور کارنامہ لکھ دوں، بعض رسائل و جرائد نے اس موضوع کو اپنی رونق افروزی کے لیے اس درجہ اہم سمجھا کہ دوسرے لکھنے والوں سے چاچا چھکن کے کارنامے لکھوا کر اپنے ہاں شائع کرنے شروع کر دئیے۔
میں شاید اس موضوع پرزیادہ مضامین نہ لکھتا، لیکن میرے بزرگ اور نامور دوست شفاء الملک حکیم فقیر محمد صاحب چشتی نظام (مرحوم) کا اصرار اکثرموقعوں پر مجھ سے اسی موضوع پرقلم اٹھواتا رہا فی الحقیقت ان ہی کی حوصلہ افزائی اس امر کی ذمہ دار ہے کہ ان مضامین کی ضخامت نے ایک مختصر سی کتاب کا حجم اختیار کرلیا اس کتاب میں صرف چاچا چھکن کی اندرون خانہ زندگی کے بعض پہلوؤں کا تذکرہ ہے اگر اس موضوع سے میں اور زیادہ نہ اکتا گیا تو شاید کبھی ان کی بیرون خانہ سرگرمیوں پر بھی قلم اٹھاؤں۔
یہ مضامین بے حد ناچیز ہیں صرف اس خیال سے انہیں کتابی صورت میں شائع کر رہا ہوں کہ جو لوگ انہیں پڑھنا چاہتے ہیں انہیں رسائل کے نمبر دستیاب نہیں ہو سکتے، مضامین کے یکجا ہونے سے انہیں سہولت ہو گی، مگر میری رائے میں ان مضامین کی اشاعت سے اردو کو اتنا فائدہ ضرور پہنچا کہ انہوں نے مجھ سے بہتر ظرافت نگاروں کو کردار نگاری کی طرف متوجہ کیا۔
سید امتیاز علی تاج
خیر یہ کردار کہیں سے بھی لیا گیا ہو یہ تو طے شدہ ہے کہ یہ مقبول عام سلسلہ ہے بچوں کے معروف رسائل میں یہ تاحال جاری و ساری ہے۔ بچوں کے مشہوررسالے تعلیم و تربیت میں ”چاچا تیز گام“ سے یہ سلسلہ بچوں کے ادب کے سرتاج نذیر ابنالوی نے شروع کروایا،نذیر انبالوی جب تعلیم و تربیت کے ایڈیٹر بنے تو انہوں نے اپنے ہونہار شاگرد محمد فیم عالم کو ”چاچا تیز گام“ کے سلسلے سے لکھنے کا کہا اور یہ سلسلہ مقبول ترین ہوتا چلا گیا۔ ماہنامہ مجاہد جو اب روشنی کے نام سے روالپنڈی سے شائع ہوتا ہے اس میں یہ کردار ”چاچا حر“ کے نام سے شائع ہو تا رہا ہے۔ ماہنامہ مجاہد میں یہ بہت مقبول سلسلہ تھا بچے دلچسپ سوال اور چاچا حر کے ظریفانہ جواب شوق سے پڑھتے تھے۔
کراچی سے بچوں کا ایک مقبول رسالہ چندا کے نام سے نکلتا ہے بچوں کے ادب میں یہ ایک دیرینہ اضافہ رہا ہے اس رسالے میں ”چاچا“ کے کردار کا سلسلہ بہت مقبول ہے اور چاچا خواہ مخواہ بچوں کے سوالات سے پتہ چلتا ہے یہ سلسلہ اس رسالے میں بچوں کو بہت پسند ہے زیر نظر جو رسالہ ہے اس میں چاچا کے کردار کی ہیڈنگ اور سوالات کچھ یوں ہیں۔
س: انکل جی سب قارئین کو دھوکا دے رہے ہیں آپ نے اپنی اصل تصویر اصل میں دکھانی ہے یا نہیں سب قارئین آپ کے منتظر ہیں جواب دیں ورنہ…………
ج: ہم دھوکے بازوں کے بیچ میں ضرور ہیں مگر تم سے پہلے کسی کو دھوکا نہیں دیا ہے اپنی اصل تصویر ضرور شائع کریں گے بس تھوڑے صبر کی ضرورت ہے انتظار میں مزہ ہے۔
(غلام فاطمہ منشاء…… پیال کلاں)
س: چاچا شعر کا جواب شعرمیں دیں
چپ ہو جا چاچا نہ کر گلا بے وفائی کا
ہم کو تو معلوم تھا وقت آئے گا جدائی کا
ج:
تم جیسے بے وفا سے کیوں رکھیں وفا کی امید
ایسے بے وفا کے ملنے سے بہتر ہے ہماری جدائی
(عبدالمجید…… باغ علی والا)
س: اگر آپ کو پورے پاکستان میں بلدیہ کا افسر بنا دیا جائے تو کہاں کہاں صفائی کروائیں گے۔
ج: پنڈ دادنخان میں تمہاری گلی اور کراچی میں ہمارا محلہ باقی پورا پاکستان تو پاک صاف ہی ہے۔
(یاسر محمود…… پنڈ دادنخان)
بچوں کے رسائل میں ایسے سوالات اور جوابات کا سلسلہ زیادہ رسائل کے مدیروں نے اپنایا کئی ایڈیٹر بچارے خود ہی چاچا کے نام سے یہ سلسلہ چلاتے رہے سوال جواب کے علاوہ چاچا کا کردار کہانی کے روپ میں بھی مقبول عام رہا اس کا آغاز بھی کہانی سے شروع ہوا، بعد از محمد فہیم عالم کے قلم سے چاچا تیز گام اور محمد توصیف ملک کے قلم سے چاچا وہمی بھی کہانی کی صنف میں بھی مقبول ہیں محمد توصیف ملک بچوں کے ادب میں ایک ابھرتا ہوا نام ہے وہمی کے نام سے بچوں کا پاکستان میں ان کی کئی کہانیاں شائع ہوئیں۔
لاہور سے بچوں کا قدیم رسالہ ”ذہین“ شائع ہوتا تھا جس کے مدیر اعلیٰ ابو وقاص تھے، یہ بچوں کے معروف لکھاری ظہور الدین بٹ کی کنیت تھی ظہور الدین نے بچوں کے ادب میں گراں قدر خدمات سرانجام دیں ماہنامہ ذہین تن تنہا وہ اٹھائیس سال تک شائع کرتے رہے بچوں کا یہ معیاری رسالہ ان کی وفات کے بعد شائع نہیں ہو رہا، اس رسالے میں ایک سلسلہ ”انکل سرگم“ کے نام سے شائع ہوتا جو بہت مقبول تھا۔
ماہنامہ ذہین نومبر 2002 کا شمارہ اقبال نمبر تھا اس کے صفحہ 25پر ”انکل سرگم سے پوچھیئے“ کے عنوان سے یہ سلسلہ ہے جس میں انکل سرگم کی تصویر ہے اور نیچے بچوں کے سوال اس سلسلے میں طنز و مزاح بھی ہے اور اصلاح و تربیت بھی نمونے کے چند سوال اور جواب آپ بھی ملاحظہ کریں۔
س: انگل سرگم! خیال پلاؤ آپ نے کبھی کھایا ہے؟
ج: برخوردار! آپ چھوڑیں گے تو ہمیں ملے گا آپ تو سارے کا سارا کھا جاتے ہیں۔
س: انکل سرگم! آپ اپنی عمر کیوں چھپاتے ہیں؟
ج: آپ سے کس نے کہا کہ ہم اپنی عمر چھپاتے ہیں؟ شاید ہمارے کسی دشمن نے آپ سے کہہ کر یہ خط لکھوایا ہے۔
(شاہد اقبال گوجرانوالہ)
س: انکل سرگم!شہید حکیم محمد سعید کا نمبر آپ نے چپکے چپکے ہی چھاپ دیا۔
ج: اقبال صاحب! چپکے چپکے کیوں سب کو بتا کر چھاپا تھا۔
س: انکل سرگم!سنا ہے آپ انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔
ج: جی ہاں آپ کی اطلاع درست ہے صرف ووٹ ڈالنے کی حد تک۔
(ذاکر انور، گوادر)
س: انکل سرگم!آپ کی نظر میں کائنات کی سب سے خوبصورت چیز کیا ہے؟
ج: نور بھائی! کائنات کی سب سے خوبصورت چیز والدین ہے۔
چاچا کا کردار بچوں کے رسائل میں مقبولیت کے ریکارڈ بنانے لگا تو اس نام سے رسالوں کے ساتھ ساتھ کتابوں کا سلسلہ بھی چل نکلا ”چاچا چھکن“ کے نام سے امتیاز علی تاج کی کتاب اس سلسلے میں کامیابی کے جھنڈے گاڑ چکی تھی اور بچوں میں چاچا چھکن کی کہانیاں بہت پسند کی جا رہی تھی پھر بہت سی کتابیں چاچا کے کردار کی شائع ہونے لگیں۔ بچوں کے معروف ادیب محمد فہیم عالم کی کتاب ”چاچا تیز گام“ شائع ہوئی تو اسے بھی بہت پسند کیا گیا ایک کتاب ادیبات پبلشرز کی طرف سے ”چاچا آٹو گراف“ شائع ہوئی جس کی مصنفہ محترمہ فرزانہ چیمہ صاحبہ ہیں۔

You might also like
Leave A Reply

Your email address will not be published.