گستاخِ رسولؐ ”نتھورام“ کا انجام(قسط اول) حافظ مومن خان عثمانی

چٹان
0

یہ ان دنوں کی بات ہے جب شردھا نند کی شدھی تحریک زوروں پر تھی اور بد زبان اورگستاخ ہندو ذاتِ رسالت مآب ﷺ پر رکیک حملے کر رہے تھے۔ 1933ء کے اوائل میں آریہ سماج حیدر آباد (سندھ) کے سیکرٹری نتھورام نے ایک کتابچہ بعنوان ”ہسٹری آف اسلام“ شائع کیا۔ یہ پمفلٹ ”رنگیلا رسول“ اور اس جیسی دیگربدنام زمانہ کتابوں سے ماخوذ مواد پر مشتمل تھا۔ اور اس میں ناموسِ رسالت ؐ پر اسی انداز میں حملے کئے گئے تھے جیسا کہ گزشتہ کئی عرصہ سے آریہ سماجی کر رہے تھے۔ اس وقت سندھ صوبہ بمبئی میں شامل تھا۔ گو صوبہ بمبئی ہندو اکثریت کاصوبہ تھا۔ لیکن سند ھ کے تمام اضلاع میں مسلمانوں کی اکثریت تھی،مسلمان اکثریت ہونے کے باوجود ملازمت، تجارت، تعلیم اور اقتصادی شعبوں میں ہندوؤں سے پیچھے تھے۔ تاہم وہ اپنے مذہب پر کسی حملے کو برداشت کرنے کے روادار نہ تھے۔چنانچہ نتھو رام کا ناپاک کتا بچہ بازار میں آیا‘ عبدالمجید سندھی‘ حاتم علوی اور دوسرے مسلمان لیڈر اٹھ کھڑے ہوئے۔نتھو رام کے خلاف استغاثہ دائر کیا گیا، حیدر آباد کی عدالت نے کتا بچہ ضبط کر لیا اور ملزم کو ایک سال قید بامشقت اور جرمانے کی سزادی یعنی وہی کھیل کھیلا گیا جو مسلمانوں نے راج پال کے مقدمے میں دیکھاتھا۔ نتھو رام نے عدالت (ان دنوں جو ڈیشل کمشنری کہلاتی تھی) میں اپیل کردی۔ ضمانت پر وہ پہلے ہی رہاہوچکا تھا۔مارچ1934ء میں اپیل کی سماعت شروع ہوئی، ہندو اور مسلمان بھاری تعداد میں کاروائی سننے آئے جن میں میں (سیدمحمداسلم ایم اے بار ایٹ لاء) بھی شامل تھا۔نتھو رام اپنے ساتھیوں کے ہمراہ خوش گپیاں کرتا ہوا آیااور عدالت میں ڈائس کے قریب پڑے ہوئے ایک بنچ پر بیٹھ گیا۔ تھو ڑی ہی دیر گزری تھی کہ ایک مسلم نوجوان عدالت کے کمرے میں داخل ہوا، معذرت کرتے ہوئے نتھو ر ام کو تھوڑا سا سرکایا اور پھر اس کے بالکل قریب بیٹھ گیا۔ پونے بارہ بجے کا عمل تھااور پندرہ منٹ بعد نتھو رام کی اپیل کی سماعت شروع ہونے والی تھی، میں پہنچا تو بارہ بجنے میں سات منٹ باقی تھے۔ عدالت کے برآمدے میں، میں ایک دوست سے باتیں کرنے لگا۔ اچانک عدالت کے کمرے سے تیز تیز آوازیں آنے لگیں جیسے کوئی نعرے لگا رہا ہو، ساتھ ہی بہت سے آدمی باہر کو بھاگے۔ میں لپک کر کمرے میں داخل ہوا تو دیکھا کہ نتھورام کی آنتیں نکلی پڑی ہیں اور وہ زمین پر پڑا موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا ہے۔ اس کی گدی سے خون کا فوارہ ابل رہا ہے۔ قریب ہی ایک مسلمان نوجوان ہاتھ میں ایک بڑا سا خون آلود خنجر لئے کھڑا ہوا نظر آیا۔ انگریز ججوں میں سے ایک جس کا نام اوسالون (O.Solvin) تھا، ڈائس سے اترا۔ مسلم نوجوان پر قہر آلود نگاہ ڈالی اور تحکمانہ انداز میں بولا، تو نے اسے مار ڈالا؟ہاں …… اورکیا کرتا؟ نوجوان نے بڑی بے باکی سے جواب دیا اورپھر کمرے میں آویزاں جارج پنجم کی تصویر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، اگر یہ تمہارے اس بادشاہ کو گالی دیتا تو تم کیا کرتے؟ تم میں غیرت ہوتی تو کیا قتل نہ کر ڈالتے؟ پھر انتہائی حقارت سے نتھورام کی لاش کی طرف انگلی اٹھاتے ہوئے بولا۔ اس خنزیر کے بچے نے میرے آقا اور شہنشاہوں کے شہنشاہ رسول اللہ ﷺ کی شان میں گستاخی تھی اوراس کی یہی سزا تھی، پھر بڑے اطمینان کے ساتھ اپنی نشست پر بیٹھ گیا۔اسی اثناء میں ایک سب انسپکٹر ریوالور تانے کمرۂ عدالت میں داخل ہوا۔ آنکھیں چار ہوتے ہی غازی نے چھری پھینک دی، کھڑا ہو گیا اور بڑی جوشیلی آواز میں کہا۔ ڈرئیے نہیں، ریوالور ہولسٹر میں رکھ لیں، مجھے جو کچھ کرنا تھا الحمد للہ کر چکا ہوں۔ سب انسپکٹر نے ریوالور والا ہاتھ نیچے کر لیا۔ آگے بڑھ کر غازی کی کلائی پکڑ لی، ساتھ والے کانسٹیبل نے فوراً ہتھکڑی پہنا دی۔ اس عاشق رسول کا نام عبدالقیوم تھا،شمعِ رسالتؐ کا یہ بے تاب پروانہ ہزارہ کے ایک دور افتادہ گاؤں ”غازی“ ]ضلع ہری پور[کا رہنے والا تھا۔ اسے بچپن ہی سے دینی تعلیم کا شوق تھا چھٹی جماعت پاس کرکے گاؤں کے علماء کرام سے پڑھنا شروع کیا،اکثر قرآن مجید کی تلاوت کرتے رہتے،سکول چھوڑ کر قرآن مجید کی تعلیم کی طرف ہمہ تن متوجہ ہوگئے،صوم وصلوۃ کی آخری وقت تک پابندی کرتے رہے،ان کی چھ بہنیں تھیں جو اچھے گھرانوں میں باہی گئیں ایک بھائی جو ان سے بڑے تھے،ان کا ہمایوں خان تھا جو محکمہ امدادِ باہمی میں بحیثیت ہیڈکلرک‘سپرنٹنڈنٹ ملازمت کرکے ریٹائرڈ ہوچکے تھے،21،22سال کی عمر میں 1934ء کوان کی شادی کرادی گئی۔ شادی کے چند ماہ بعد تلاش ِ معاش کے سلسلہ میں کراچی پہنچے، ان کے حقیقی چچارحمت اللہ خان وہاں پہلے سے مقیم تھے،اور وکٹوریہ گاڑیوں کا کاروبار کرتے تھے،چنانچہ یہ کراچی چلے گئے اور وہاں اپنے چچاکے ہاں ٹھہرے، مذہب سے لگاؤ ان کی گھٹی میں پڑا تھا، اس کی بے داغ جوانی پروان چڑھی تو صحیح معنوں میں ایک مسلمان اورصالح جوان کی جوانی تھی، نماز، روزہ، کسب ِ حلال پر عمل، اللہ تعالیٰ کی ذات پر ایمانِ خالص اورحضورنبی کریم ﷺ سے بے پایاں عقیدت جو عشق کی ریشمی چادر میں لپٹی ہوئی تھی، اس کے ایمان کے اجزائے ترکیبی تھے اوریہ کوئی خاص بات نہ تھی۔ اس وقت برعظیم کے ہر مسلمان کی تعمیر عموماً انہی اجزائے ترکیبی سے مرکب ہوتی تھی،غازی عبدالقیوم خان کے والد عبداللہ خان 1932 میں انتقال کرگئے تھے،وہ ایک بوڑھے چچا، ایک ضعیف ماں اور ایک بیوہ بہن کی روزی کے واحد کفیل اور ان کے علاوہ ایک نئی نویلی دلہن کی آرزوؤں اور تمناؤں کا امین بھی تھا۔ وقوعہ سے ہفتہ عشرہ قبل ہی اس کی شادی ہوئی تھی،وہ صرف ناظرہ قرآن پڑھا ہوا تھا، اللہ تعالیٰ اور رسولؐ کے علاوہ کچھ نہ جانتا تھا، بدر و حنین کے واقعات سنے ہوئے تھے،یہ وفا کا پتلا بحرِ عشق کا شناور اور عمل کے میدان کا غازی تھا۔ اس کی مالی حالت کراچی میں بھی نہ سدھری، اکثر دوپہر کا آٹا دوپہر کو اور شام کاآٹا شام کو پرچون کی دکان سے آتا تھا، پیٹ تو خالی تھا مگر دردِ دل کی دولت سے مالا مال تھا۔ رسائی، پشت پناہی جو کچھ بھی نام دیں، اپنی جھونپڑی کے قریب والی مسجد کے امام تک تھی جہاں وہ فجر اور عشاء کی نماز پڑھا کرتا، خود اخبار پڑھنے کی استعداد نہ تھی، پیش امام کی زبانی نتھو رام کی خرافات کا ذکر اس نے سنا، اس کی غیرت ِ ایمانی نے کروٹ لی، اس نے وہیں مسجد کے صحن میں اللہ تعالیٰ کو حاضر و ناظر جان کر یہ عہد کیا کہ وہ اس گستاخ ناہنجار کو واصل ِ جہنم کر کے رہے گا اور آوارہ وبے خانماں عشق ایک ہی جست میں عرفان و عمل کی آخری منزل طے کر گیا۔ کراچی کا یہ گمنام مزدور اس مقام پر پہنچ گیا جس کی جانب ہاتھ بڑھاتے ہوئے ملک الموت کے بھی پر جلتے ہیں۔میں (سیدمحمداسلم بار ایٹ لاء) نے غازی کے چچا کو تلاش کیا اور انہیں پیشکش کی کہ میں اس مقدمے کی پیروی مفت کروں گا۔ انہوں نے تشکر آمیز الفاظ کے ساتھ میری پیشکش قبول کر لی۔ دوسرے روز میں غازی کے قانونی مشیر کی حیثیت سے ان سے ملاقات کرنے جیل گیا، اس سے پہلے بھی میں نے جیل میں قتل کے ملزموں سے ضابطے کی ملاقاتیں کی تھیں اور ان کی صورتیں مجھے یاد ہیں مگر جو اطمینان اور سکون غازی عبدالقیوم ؒکے چہرے سے ہویدا تھا، وہ کسی اور چہرے پر نظر نہ آیا۔ جب میں نے بتایا کہ میں آپ کا مقدمہ لڑوں گا تو مردِ مجاہد پکار اٹھا، آپ جو چاہیں کریں مگرمجھ سے انکارِ قتل نہ کرائیں، اس سے میرے جذبہ جہاد کو ٹھیس پہنچے گی، میں نے نوجوان غازی کو تشفی دی اورکہا، بے شک آپ اقرار کریں اورمیں اس اقبال کے ذریعہ ان شاء اللہ آپ کو پھانسی سے اتار لوں گا، مگر میری اس تشفی پر انہوں نے خوشی کا اظہار نہ کیا، میں نے دو چار باتیں اورکیں اور ایک کاغذ پر دستخط کرا کے لوٹ آیا۔(جاری ہے)

You might also like
Leave A Reply

Your email address will not be published.