عجیب بات کہ اینگلو انڈین قانون کا ضابطہ اپنے مخصوص اور روایتی چال کی بجائے اتنی تیزی سے حرکت میں آیا کہ مہینوں کا کام گھنٹوں میں طے ہونے لگا،پہلی رپورٹ کے بعد تفتیش، چالان وغیرہ سب کچھ دو دن میں ہو گیا اورمقدمہ قتل ِ عمد سماعت کے لئے ابتدائی عدالت میں پہنچ گیا، جب غازی عبدالقیوم کے وکیل محمداسلم نے گوہانِ صفائی کی فہرست پیش کی تو اسے پڑھ کر مجسٹریٹ بہادر چونک اٹھے، انہوں نے دوسرے گواہوں کے علاوہ مولانا ظفر علی خانؒ، خواجہ حسن نظامیؒ، علامہ اقبالؒ، مولانا ابوالکلام آزادؒ، مولانا شوکت علیؒ،سیدعطاء اللہ شاہ بخاریؒ مفتی کفایت اللہ دہلویؒ کے علاوہ دیوبند اور فرنگی محل کے متعدد مقتدر علماء کو طلب کیا تھا۔ عدالت نے اعتراض کیا کہ یہ گواہ مقدمے سے غیر متعلق ہیں، اس لئے نہیں بلائے جا سکتے، انہوں نے جواب دیا کہ جس جذبے کے تحت استغاثہ عبدالقیوم کو قاتل قرار دیتا ہے، اس جذبے کی نفسیاتی ترجمانی یہی حضرات کر سکتے ہیں۔ ظاہر ہے ان کی یہ دلیل جج کے فہم سے بالاتر تھی چنانچہ جج نے درخواست خارج کر دی۔ انہوں نے فوراً جوڈیشل کمشنری کراچی میں اپیل دائر کر دی جس کے دو جج اوسالون اور فیرس واقعہ کے چشم دید گواہ تھے۔ اپیل دائر کرنے کے ساتھ ساتھ انہوں نے ان ججوں کے اختیارِ سماعت پر قانونی اعتراض کر دیا۔ کراچی جوڈیشل میں اس وقت چار جج تھے، دو چھوٹے اور دو بڑے،ان میں سے تین اس درخواست کی سماعت کے اہل نہ تھے، چوتھے سیشن جج تھے۔ چنانچہ عدالت ِ عالیہ کے ججوں نے ایک جج مسٹر لوبو (LOBO) کو طلب کر کے بنچ ترتیب دے لیا۔ اپیل کی سماعت شروع ہوئی اور بنچ نے بھی یہی فیصلہ دیا کہ ان غیر متعلق گواہوں کو بلانے کی کوئی گنجائش نہیں، گویا اپیل خارج ہوگئی۔ دو تین روز مقدمہ سیشن جج کراچی کی عدالت میں آ گیا، مقدمے کی اہمیت کے پیش نظر عدالت نے اسے ”جیوری ٹرائل“ قرار دیا۔ جیوری نو افراد پر مشتمل تھی جن میں چھ انگریز، ایک پارسی اور دو عیسائی تھے، یہ سب کے سب اچھی شہرت، معقول سوجھ بوجھ کے مالک اور باعزت شہری تھے۔ قتل کے عام مقدموں کے برعکس اس مقدمے کاکام بہت سیدھا سادا اورمختصر تھا۔ صفائی کا تو کوئی گواہ تھا ہی نہیں، سارا دارومدار قانونی بحث پر تھا۔ ثبوت میں اوّل تو خود عدالت ِ عالیہ کے دو انگریز جج تھے، دوسرے غازی عبدالقیوم نے اپنے اقبالی بیان میں تسلیم کر لیا تھا کہ میں نے جونا مارکیٹ کی مسجد میں پیش امام کی زبانی نتھورام کے فحش پمفلٹ کے مندرجات سنے اوریہ بھی معلوم ہوا کہ کل اس کی اپیل کی سماعت کے لئے عدالت میں پیشی ہو رہی ہے، چنانچہ اگلے روز میں نے اپنا کاروبار چھوڑا، بازار سے ایک خنجر خریدا، اسے تیز کرایا اور سماعت سے پہلے ہی عدالت میں پہنچ گیا۔ ایک نامعلوم شخص کے ذریعے نتھورام کو شناخت کیا اورپھر اس کے قریب ہی جا کر بیٹھا، میں نے اسے کنکھیوں سے دیکھا۔ یکایک میرے سینے میں غیظ و غضب کا طوفان امنڈ آیا۔ میں آپے سے باہر ہو کر اپنی نشست سے اٹھا، شلوار کے نیفے میں چھپایا ہوا خنجر نکالا اور چشم زدن میں نتھورام کے پیٹ میں گھونپ دیا۔ اس کی آنتیں نکل آئیں اور وہ منہ کے بل گر پڑا، دوسرا وار اس کی گدی پر کیا اوریہ ضرب پہلی سے بھی زیادہ کاری ثابت ہوئی، خون کا فوارہ پھوٹ نکلا اورچند ہی منٹ میں اس کا قصہ تمام ہو گیا، اس اقبالی بیان کی تائید میں ضابطے کے بیانات ہوئے اور استغاثے کے چشم دید گواہ (عدالتِ عالیہ کے دو جج) پیش ہوئے۔ جہاں تک واقعاتی پہلو کا تعلق تھا، بچاؤ کی کوئی گنجائش نہ تھی، بس جذے اور ارادے والی بات رہ جاتی تھی۔ مگر غازی موصوف کے اقبالی بیان سے صاف ظاہر تھا کہ اس نے یہ اقدام ٹھنڈے دل و دماغ سے سوچ کر کیا تھا، اس میں فوری اشتعال اور فوری عمل کا کوئی ہاتھ نہ تھا۔ تا ہم وکیل موصوف نے کیس کو تقریباً انہی خطوط پر تیار کیا اور قانون سے زیادہ نفسیاتِ انسانی اور تاریخ سے بحث کی۔ جیوری اورجج کے سامنے انہوں نے جو بحث کی، وہ شاید برطانوی ہند میں اپنی نوعیت کی واحد اورمنفرد بحث تھی۔جس روز بحث ہونا تھی، توغازی عبدالقیوم کے وکیل محمداسلم قانونی پلندوں کی بجائے قرآن کریم کا ایک نسخہ لے کر عدالت میں پیش ہوئے۔ان کابیان ہے کہ جج اورجیوری میرے ہاتھ میں قرآن ِ پاک کا نسخہ دیکھ کر متحیر رہ گئے، عام وکلاء سے ذرا پیچھے ہٹ کر میں نے بلند آواز میں بحث کا آغاز کیا اورکہا۔حضورِ والا اورمعزز صاحبان ِ جیوری! مجھے مقدمے کے واقعے کے بارے میں کچھ نہیں کہنا کیونکہ جہاں تک وقوعے کا تعلق ہے، وہ ثابت ہو چکا ہے،مجھے صرف اتنا عرض کرنا ہے کہ میرا یہ اقدام اس قانون پر مبنی تھا اوریہ آئین جو آج چین کی سرحد سے لے کر مراکش تک جاری و ساری ہے، جسے کئی حکومتیں اپنے پینل کوڈ کے طورپر استعمال کر رہی ہیں، ہماری تہذیب اورہمارے کلچر کی بنیاد ہے۔ میں جانتا ہوں عدالت اس کوڈ سے انکار کر کے اس کے تقدس کو ٹھیس پہنچائے گی لہٰذا میں اسے کھول کر نہیں دکھاؤں گا لیکن مجھے جو کچھ کہنا ہے، اسی کے سہارے کہوں گا۔ اس میں بار بار مذہبی پیشواؤں کو برا کہنے کی سخت ممانعت کی گئی ہے،مجھے یہ عرض کرنا ہے کہ یہ اپنی نوعیت کا پہلا حادثہ نہیں ہے، گزشتہ چند سال میں ایسی متعدد وارداتیں ہو چکی ہیں۔ خصوصاً دلی اورلاہور میں بالکل اسی نوعیت کے دو قتل ہو چکے ہیں۔ہر شخص جانتا ہے کہ فطرتِ انسانی دوسرے کی بدزبانی برداشت نہیں کر سکتی، اس سے نفسیاتی طورپر جواب اور انتقام کا جذبہ پیدا ہوتا ہے جس کے نتیجے میں انسان اپنی استطاعت کے مطابق زبان، قلم یا ڈنڈے سے کام لے کر اپنی انا کی تسکین کرتا ہے۔ اگر گزشتہ واقعات کے فوراً بعد اس قسم کی حرکتوں کے انسداد کے لئے قانون کوئی مؤثر کاروائی کرتا تو نتھورام کی وارداتِ قتل ہر گز ہونے نہ پاتی۔ مسلمان ایک عرصے تک ہندو اکثریت اور برطانوی حکومت کو سمجھا رہا ہے کہ حضرت محمد ﷺ اس کے جذبات و حسیات اور حیات کی شہ رَگ ہیں۔ حضور ﷺ کے معاملے میں وہ اتنا ذکی الحس واقع ہوا ہے کہ معمولی سی گستاخی پر بھی اپنا دماغی توازن کھو بیٹھتا ہے۔ دوسرے کی جان تو ایک طرف، وہ خود اپنی جان کی کوئی قیمت نہیں سمجھتا، لیکن نہ ہندو اکثریت نے اس طرف دھیان دیا، نہ برطانوی حکومت کے کانوں پر جوں رینگی، نتیجہ ظاہر ہے۔ ماہرِ نفسیات ہونے کی حیثیت سے میں دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ اگر اس مسئلہ کی طرف توجہ نہ دی گئی تو ایسے ہولناک واقعات آئندہ بھی ہوتے رہیں گے۔ انہیں نہ ہندو اکثریت روک سکے گی اورنہ تعزیراتِ ہند کی کوئی دفعہ۔اس مرحلے پر جج نے مداخلت کی، ہاتھ کے اشارے سے مجھے روکا اورپہلو بدلتے ہوئے بولا، کیا فاضل جورسٹ اپنی بحث سے فرقہ وارانہ منافرت کو نہیں ابھار رہے ہیں؟ حضورِ والا! میں نے جج کو مخاطب کرتے ہوئے جواب دیا۔ منافرت کا مخرج اور سرچشمہ جہاں ہے، دراصل وہیں سے نفرت کے جذبات ابھر رہے ہیں۔ میں تو مقتول نتھورام کی کتاب ”تاریخ ِ اسلام“ کے ابھارے ہوئے جذبہ منافرت کے عوامل و نتائج پر تقریر کر رہا تھا۔ میں پھر عرض کرتا ہوں کہ اس ضمن میں مسلمان کے اعصاب توازن برقرار رکھنے سے قاصر ہیں، اس لئے وہ نہ تعزیرات ِ ہند سے گھبرائے گا، نہ پھانسی کے پھندے سے ڈرے گا۔ حتیٰ کہ چین سے مراکش تک پھیلے ہوئے مسلمانوں کا بچہ بچہ اس فتنے کا سر کچلنے کے لئے میدان میں آ جائے گا۔ میں چاہتا ہوں کہ ایسی صورت سے دو چار ہونے والے مسلمان کا سوچ سمجھ کر اٹھایا ہوا قدم بھی فوری اشتعال کی تعریف میں آنا چاہئے۔اس مرحلے پر میں نے قرآن ِ مجید کو ذرا بلند کرتے ہوئے کہا، حضورِ والا! جو کچھ میں نے کیا ہے، اس قانون کی رُو سے اپنا فرض سمجھ کر کیا ہے جس کے ساتھ چودہ سو برس سے میں نے پیمان ِ وفا باندھ رکھا ہے اورجن خطوط پر پشت ہا پشت سے میرا تربیتی ماحول تشکیل ہوتا چلا آ رہا ہے۔ میں نے اپنی دانست میں قانون کو نہیں، انصاف کو اپنے ہاتھ میں لیا ہے، میرے اس اقدام میں شدید اور فوری غیظ و غضب کی عمل فرمائی تو ضرور ہے مگر قاتل کے سے جذبے کا کوئی شائبہ دور دور تک نہیں ہے۔ پھر سب سے زیادہ معصوم جذبہ اس عہد کی پاسداری ہے جس پر میرے ایمان کی بنیاد ہے۔ اور یہی چیز مجھے بے قصور اور سزا سے بری قرار دیتی ہے۔جج ان کی تقریر پر بہت جز بز ہوا۔ شاید یہ منطقی بحث اس کے مزاج کے لئے قابل ِ قبول نہ تھی مگر ان کے پاس بھی اپنے دفاع کو مستحکم کرنے کے لئے کوئی اور دلیل نہ تھی۔ جج نے ”عہد کی پاسداری“ کے الفاظ دہرائے اور بڑبڑاتے ہوئے کہا، تم اپنے فہم و تدبر اور سطح سے نیچی بات کر رہے ہو، تمہارے جیسے فاضل مقنن سے اس کی توقع نہ تھی۔ وکیل موصوف کو وکیل کی جبلت کے برعکس تاؤ آ گیا، پینترا بدلا اورکہا۔ حضورِ والا! یوں سمجھ لیجئے کہ کچھ اس قسم کے عہد کی پاسداری نہ کرنے پر چار اگست 1914ء کو ہمارے شہنشاہ جارج پنجم نے ایک چھوٹے سے ملک کے خلاف اعلان ِ جنگ کر دیا تھا۔ عظیم برطانیہ کو اس جنگ میں سب سے بڑے رکن کی صورت میں شامل ہونا پڑا۔ ایک چھوٹے سے عہد کی خلاف ورزی کے نتیجے میں وہ خون ریزی ہوئی کہ لاکھوں بچے یتیم ہو گئے، لاکھوں عورتوں کے سہاگ لٹ گئے اور دنیا کا جغرافیہ کچھ کا کچھ ہو گیا۔ (جاری ہے)