درندوں کے لپیٹ میں معصوم بچے(مولانا مجاہد خان ترنگزئی)

0

سات سالہ لیہّ بدھ کو دس روپے لے کر گھر سے نکلی تاکہ اپنے لیے دکان سے کچھ خرید سکے لیکن بچی واپس گھر نہیں تو گھر والوں نے تلاش شروع کی، شام تک ڈھونڈتے رہے۔ اس دوران پولیس کو اطلاع دی گئی تاکہ وہ بچی کو ڈھونڈنے میں مدد کرسکیں۔ لیکن بچی نہیں ملی۔ صبح سویرے اطلاع ملی کہ بچی کی لاش قریبی قبرستان میں پڑی ہے جسے جلایا گیا تھا۔ اور جسم پر گولیوں کے نشانات بھی تھے۔ یہ درندگی کا دوسرا دلخراش واقعہ تھا پشاور کے علاقہ بڑھ بیر میں۔ اس سے چند دن پہلے ایک معصوم 4سالہ بچے کو بڑی بے دردی سے قتل کیا گیا تھا اور جسم پر تشدد کے نشانات تھے مقامی لوگوں کے مطابق بچے کے اعضاء کاٹ دیئے گئے تھے اور گردے بھی نکال لئے گئے تھے۔یہ واقعات سُننے،لکھنے اور پڑھتے ہوئے ہمارے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ ذرا سوچئے اس بچوں کے والدین پر کونسی قیامت گزری ہوگی۔
وطن عزیز میں آئے روز ایسے ایسے خوفناک واقعات سامنے آتے ہیں کہ درندوں کی درندگی سے انسانیت شرماجاتی ہیں۔ تشویش ناک بات یہ ہے کہ ہوس کے پجاریوں نے معصوم بچوں کو بھی نہ چھوڑا۔ بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے ایسے ایسے دل دہلا دینے والے سانحات رونما ہوتے ہیں، جس سے جسم ماؤف ہوکر رہ جاتا ہے اور میں تو یہ سوچتا ہوں کہ اللہ کا غضب نازل نہ ہوجائے اور جو ایسے سانحات پر چپ سادھ لیئے بیٹھے ہیں، وہ بھی اس غضب کے لپیٹ میں نہ آجائے۔کیونکہ ایسے معصوموں کے ساتھ ذیادتی پھر تشدد اور قتل کرنا یقیناً اللہ کے عذاب کو للکارنے کے مترادف ہے۔ اِن درندوں کی درندگی حیوانوں سے بھی بدتر ہے، زمانہ جاہلیت کے لوگوں کے بارے میں سُنا اور پڑھا تھا کہ وہ بچوں کو زندہ درگور کرتے، مگر یہ آج کل درندہ صفت انسان اس جاہلیت کے دور کے جاہلوں کو بھی پیچھے چھوڑ گئے یہ درندے نہ صرف بچوں کو قتل کرتے ہیں بلکہ پہلے اپنی ہوس کو بجھا کر پھر تشدد کرکے قتل کردیتے ہیں۔
ایک ادارے کے رپورٹ کے مطابق 2015 میں بچوں کے ساتھ ذیادتی کے مجموعی طور پر 3768 واقعات رپورٹ ہوئے۔ان واقعات کی تعداد 2016 میں 10 فیصد بڑھ کر 4139 ہوگئی۔سال 2017 میں 3445 جبکہ 2018میں بچوں کے ساتھ ذیادتی کے 3832 واقعات رپورٹ ہوئے۔ ان میں سے تقریباً 59 فیصد واقعات بچیوں اور 41 فیصد واقعات بچوں کے ساتھ پیش آئے۔ اس رپورٹ کے مطابق پاکستان میں روزانہ 10سے زائد بچوں کے ساتھ ذیادتی ہوئی ہے۔ اب 2020 تک اس رپورٹ میں کافی تیزی آئی ہے۔
یہ حکومت وقت کے لیئے انتہائی لمحہ فکر یہ ہے کہ وہ اس معاملے میں رعایہ کے بچوں کے حفاظت کے حوالے سے ٹھوس اقدامات سے چشم پوشی برت رہی ہے۔ صرف مذمتی بیانات جاری کرنے، میڈیا پر اور اسمبلی فلور پر جذباتی باتوں سے کچھ نہیں ہونے والا ہے۔ حکومت کو چاہیئے کہ اس معاملے کیلئے قومی اسمبلی اور سینٹ میں ایسی قانون سازی اور سزائیں تجویز کی جائے جو نشان عبرت ہوں۔
اس معاملے پر ملک کے جید علماء کرام کو بھی اعتماد میں لیا جائے اور قانون سازی وسزاء میں اُن سے مشاورت کی جائے اور ایسے مجرموں کو عبرتناک سزائیں دی جائے۔ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بھی سزاؤں پر فوری اقدامات کا کہا جائے۔ حکومتیں اپنی مفاد اور حکومت کے بچانے کے لیے قانون میں حتیٰ کہ آئین میں راتوں رات ترامیم کرتی رہتی ہیں اور قانون و بلوں کو جلدی منظور کرالیتی ہیں، تو عوام کے مفاد اور اُن کے بچوں کی حفاظت کیلئے کیوں اقدامات نہیں کرسکتی؟۔ اگر چہ قومی اسمبلی میں بچوں سے جنسی زیادتی اور قتل کرنے والے مجرموں کو سرعام پھانسی دینے کی قرارداد تومنظور ہوچکی ہے لیکن تاحال اس پر عملدرآمد نہیں ہوسکا۔
اس کے ساتھ ہی چند اور محرکات پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسے واقعات میں اکثر وہ لوگ ملوث ہوتے ہیں جو بچپن میں جنسی تشدد کا نشانہ بنے ہوں، ساتھ ہی یہ آج کل غیر اخلاقی ویڈیوز دیکھنا بھی محرکات میں داخل ہے۔ تو یہاں والدین کا کردار بہت ذیادہ اہم ہے کہ اولاد کی صحیح نہج پر تربیت کریں، انہیں ذیادہ وقت دیں،ان سے دوریاں ختم کرکے دوستی کے رشتے کو پروان چڑھائیں۔ تاکہ کوئی تیسرا اس تعلق میں نہ گھس سکے۔ بچوں کے ہر عمل پر والدین کی نظر ہو، ان کی اُٹھک بیٹھک نظر میں رہے۔ان سے ملنے ملنے والوں پر نظر رکھیں۔ کسی پر آندھا اعتماد نہ کریں۔ اگرچہ آپ کو کسی بات یا کسی کی حرکت کی آپ کو شکایت کریں توآپ چپ رہنے یا نظر انداز کرنے،خیر ہے کوئی بات نہیں یا وہ ایسا نہیں کرسکتے، الٹا بچے کو ڈانٹنے پر اکتفا نہ کریں۔ بلکہ جا کر معاملہ کی تحقیق کریں اور ایکشن لے ورنہ آپ بھی مجرم ہونگے۔ اسی طرح بچوں کی حفاظت کو یقینی بنائے اور انہیں ابتدائی تعلیم وحفاظتی تدابیر سے روشناس کروائیں، تاکہ وہ کسی کی بھی لالچ میں نہ آسکیں۔
کیونکہ اکثر واقعات میں بچے کو کسی چیز کا لالچ دے کر، گھمانے پھرانے لالچ دے کر پھانسا جاتا ہے۔ آج اگر ہم نے خود یہ ذمہ داری پوری نہ کی تو صرف پچھتاوا ہی رہے گا۔ اسی طرح بچوں کے ساتھ جو آئے روز ذیادتی کے واقعات میں اضافہ ہوتا جارہاہے تو ایسے صورت میں تعلیمی اداروں، معاشرے، والدین اور سرپرستوں کی اہم ذمہ داری یہ بھی بنتی ہیں کہ بچوں کو جسمانی صحت، جنسی افعال اور خطرات کے حوالے سے آگاہ کیا جائے اور خطرناک صورت حال سے نمٹنے کیلئے ذہنی طور پر تیار کیا جائیں۔ یہ صرف قانونی مسئلہ نہیں بلکہ سماجی مسئلہ بھی ہے۔
پشاور کے علاقہ بڈھ بیر میں حالیہ دو واقعات پر سی سی پی او پشاور علی امین گنڈاپور صاحب اور ایس ایس پی آپریشن منصور امان صاحب نے خصوصی ایکشن لیا ہے اور فرسٹ پرئیراٹی پر اس کیس کی خصوصی نگرانی کررہے ہیں۔ اس کے علاوہ آئی جی پی ڈاکٹرثناء اللہ کا صوبے بھر کے ریجنل اور ڈسٹرکٹ آفسران کو بھی اس سلسلے میں احکامات جاری کردئیے ہیں۔
بہر حال عوام کو بھی آس پاس ایسے درندوں کی نشاندہی کرنی چاہیئے اور معاشرے کو ایسے درندوں سے صاف کرنا ہم سب کی ذمہ داری ہے، تاکہ ہم سب کی بچی اور بچہ بھی محفوظ رہ سکے ورنہ چھپ رہنے اور صرف تماشائی بننے سے ہم خود ایک روز تماشہ بن کر رہ جائے گے۔ خدانخواستہ کل یہ واقعات ہمارے بچوں کے ساتھ بھی رونما ہوسکتے ہیں۔
مولانا مجاہد خان ترنگزئی

You might also like
Leave A Reply

Your email address will not be published.