جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف دائر ریفرنس کے فیصلے کے حوالے سے دائر نظر ثانی کی درخواست سماعت کے لیے مقرر کر لی گئی۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے صدارتی ریفرنس میں دیے گئے عدالتی فیصلے پر نظر ثانی درخواست دائر کی گئی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ سرکاری عہدے داروں نے میرے اور اہل خانہ کے خلاف پروپیگنڈہ مہم چلائی، ایف بی آر کی رپورٹ نہ مجھے نہ اہلیہ کو فراہم کی گئی، ایف بی آر رپورٹ بھی ریفرنس کی مانند گمراہ کن پروپیگنڈہ کے لیے میڈیا کو لیک کی گئی، ایف بی آر کی رپورٹ سے میں اور اہلیہ متاثر ہو سکتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ 19 جون 2020کے فیصلے کے پیرا گراف 2 تا 11 پر نظر ثانی کر کے واپس لیا جائے، جون کے فیصلہ سے عدلیہ کی آزادی کو ایگزیکٹو کے ہاتھ میں دے دیا گیا، اور عدلیہ کی آزادی ایگزیکٹو کے ہاتھ میں دینا آئین کے خلاف ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ عمران خان کی حکومت کے کئی عہدے داروں کی بیرون ملک جائیدادیں ہیں، علم نہیں کہ انہوں نے جائیدادوں کو پاکستان میں اپنے ٹیکس ریٹرنز میں ظاہر کیا یا نہیں، ان عہدیداروں میں سید ذوالفقار عباس بخاری، شہزاد اکبر، یار محمد رند، ندیم بابر، عاصم سلیم باجوہ، شہباز گل شامل ہیں، فیصل واوڈا اور عثمان ڈار شامل ہیں۔انہوں نے اپنی درخواست میں بتایا کہ ذوالفقار عباس بخاری کی 45 ولنگٹن روڈ لندن میں فلیٹ نمبر 3 جائیداد ہے، یار محمد رند کی سپرنگ ریذیڈنشل ولا اور انٹرنیشنل سٹی دبئی میں جائیداد ہے، ندیم بابر کا ہیوسٹن امریکا میں گھر ہے، شہباز گل کا امریکا میں گھر ہے۔ان کا یہ بھی بتانا تھا کہ عاصم سیلم باجوہ کی اہلیہ کی امریکا میں 13 کمرشل اور 5 رہائشی جائیدادیں ہیں، فیصل واوڈا کی بیرون ملک 9 جائیدادیں ہیں، فیصل واوڈا کی لندن میں 7، ملائشیا اور دبئی میں ایک ایک جائیداد ہے جب کہ عثمان ڈار کی برطانیہ کے شہر برمنگھم میں جائیداد ہے، شہزاد اکبر کی لندن میں جائیداد ہے اور ان کی اہلیہ کا اسپین میں ایک فلیٹ ہے۔اپنی درخواست میں قاضی فائز عیسیٰ نے مطالبہ کیا کہ جسٹس یحیٰی آفریدی کے فیصلے کی روشنی میں میری درخواست کو قابل سماعت قرار دیا جائے، جسٹس مقبول باقر، جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس یحیٰی آفریدی کو بھی بینچ کا حصہ بنایا جائے، اور درخواست کی سماعت ٹی وی پر لائیو نشر کرنے کا حکم دیا جائے۔