17مئی 1937ء کو غازی میاں محمد کو مقدمے کی تفتیش کے لئے پولیس کے حوالے کر دیا گیا، ابھی آپ دس دن پولیس کی حراست میں رہے تھے کہ کمانڈر انچیف (جی ایچ کیو دہلی) کا حکم آیا کہ میاں محمد پر فوجی قانون کے تحت مقدمہ چلایا جائے، غالباً کو خدشہ تھا کہ شاید سول عدالت میں مقدمہ کا فیصلہ حکومت کے منشاء کے خلاف ہو۔فوجی حکام کی خواہش تھی کہ مقدمے کے فیصلے تک غازی صاحب کے والدین کو کوئی اطلاع نہ دی جائے لیکن صوبیدار غلام محمد کو کسی طرح فوجی حکام کی اس سازش کی اطلاع ہو گئی اور وہ فوراً مدراس پہنچ گئے۔عدالتی چارہ جوئی اورمقدمے کی پیچیدگیوں سے نپٹنے کے لئے مدراس کے معروف مسلمان ایڈووکیٹ سید نور حسین شاہ کی خدمات حاصل کی گئیں۔ نور حسین شاہ نے قانون کا امتحان لندن سے پاس کیا تھا اور ایک عرصہ تک وہیں پریکٹس بھی کی تھی، انہوں نے بڑی دیانتداری اور فرض شناسی سے اس عظیم کام کا آغاز کیا لیکن کیس ابھی ابتدائی مراحل میں تھا کہ کسی سنگ دل نے محافظ کی موجودگی میں ایڈووکیٹ موصوف کو چھرا گھونپ دیا، زخم کاری اورمہلک تھا جس سے وہ رحلت کر گئے۔ ان کے بعد یہ مقدمہ اصغر علی ایڈووکیٹ نے اپنے ہاتھ میں لیا۔ یہ بھی لندن کے تعلیم یافتہ تھے۔ انہوں نے بھی بڑی جانفشانی اورلگن کے ساتھ کیس کی تیاری میں حصہ لیا اورپیشیوں کے معاوضہ میں کبھی کسی رقم کا مطالبہ نہ کیا۔ فوجی حکام چاہتے تھے کہ غازی صاحب کو ذہنی مریض قرار دے کر سزا دی جائے تا کہ کیس کو مذہبی رنگ بھی نہ ملے اور ہندو بھی خوش ہوجائیں۔ اس مقصد کے تحت غازی صاحب کو گورنمنٹ مینٹل ہسپتال مدراس میں داخل کر دیا گیا۔ ایک ماہ بعد ڈاکٹر نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ میں نے پورا مہینہ میاں محمد کو اپنی خصوصی نگرانی میں رکھا ہے، نفسیاتی جائزہ بھی لیا ہے، کئی بار چھپ کر بھی معائنہ کیا ہے لیکن اس عرصہ مں ایک بار بھی میں نے انہیں فکر مند یا کسی سوچ میں گم نہیں پایا (جیسا کہ پاگل اکثر گم صم رہتے ہیں) ایک ماہ میں ان کا وزن بھی بڑھ گیا ہے۔ اگر ان کو یہ فکر ہوتی کہ قتل کے مقدمہ میں میرا کیا حشر ہو گا تو ان کا وزن کم ہوجاتا، یہ کسی غم و فکر میں مبتلا نہیں۔ جب چرن داس ایک ہی گولی لگنے سے مر گیا تھا تو پھر ساری گولیاں چلانے اور سنگین سے پے درپے زخم لگانے کی ضرورت نہ تھی اور ایسی حالت میں جب کہ کوئی دیکھنے والا بھی نہ تھا، یہ آسانی سے فرار ہو سکتے تھے لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔ میرا میڈیکل تجزیہ یہی بتاتا ہے کہ میاں محمد نے قتل کا ارتکاب مذہبی جذبات برانگیختہ ہونے کی وجہ سے کیا ہے۔16اگست کو غازی صاحب کا جنرل کورٹ مارشل شروع ہوا، پانچ دن کاروائی ہوتی رہی۔ کل اٹھارہ گواہوں کے بیانات قلمبند ہوئے، تین ڈاکٹروں کی شہادت بھی ریکارڈ پر آئی۔ جرح کے دوران انہوں نے یہ متفقہ موقف اختیار کیا کہ غازی محمد نے جو کچھ کیا ہے، ہماری رائے میں وقوعہ کے وقت وہ اپنے جذبات کو قابو میں نہیں رکھ سکا۔ لیکن غازی صاحب اپنے ابتدائی بیان پر ڈٹے رہے اورکہا، میں نے جو کچھ کیا ہے، خوب سوچ سمجھ کر کیا ہے، یہی میرا فرض تھا۔ چرن داس نے میرے آقا و مولیٰ ﷺ کی شان ِ اقدس میں گستاخی کی تھی۔کورٹ مارشل کے دوران ان کے وکیل نے رائے دی کہ وہ یہ بیان دیں کہ میں نے گولی اپنی جان بچانے کی غرض سے چلائی تھی کیونکہ چرن داس بھی مجھ پر حملہ کرنا چاہتا تھا لیکن غازی نے سختی کے ساتھ اس تجویز کو مسترد کر دیا اورکہا کہ میری ایک جان تو کیا، ایسی ہزاروں جانیں بھی ہوں تو سرکارِ دو عالم ﷺ کی حرمت پر نچھاورکر دوں،23ستمبر 1937ء کو پلٹن میں غازی میاں محمد کو سزائے موت کا حکم سنایا گیا۔ جس کا جواب غازی نے مسکرا کر دیا۔
محمد ﷺ کی محبت دین حق کی شرطِ اوّل ہے
اسی میں ہو اگر خامی تو سب کچھ نامکمل ہے
5اکتوبر 1937ء کو وائسرائے ہند کے پاس اپیل کی گئی جو مسترد ہو گئی۔ پھر پریوی کونسل لندن میں اپیل دائر کی گئی جو مختصر سماعت کے بعد رَد کر دی گئی۔ اپیلیں مسترد ہو جانے کے بعد فوجی حکام نے 12اپریل 1938ء کو سزا پر عمل درآمد کا فیصلہ کیا۔ ادھر حراست میں غازی کا معمول تھا کہ نماز کے لئے علاوہ ہمہ وقت قرآن پاک کی تلاوت میں مشغول رہتے۔ اس دوران رمضان شریف کا مہینہ آیا جو انہوں نے جاگ کرگزارا۔ وہ رات دن نوافل اور درود شریف پڑھتے۔ عید کے روز غازی نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ عید کی نماز عید گاہ میں مسلمانوں کے ساتھ پڑھنا چاہتے ہیں۔ بڑی ردّوقدح کے بعد جیل کے چند غیرت مند مسلمان فوجی افسروں کی ضمانت پر حکام نے اس کی اجازت دی۔ غازی کی سزائے موت کی خبر اب تک پورے ہندوستان میں مشہورہو چکی تھی۔ حکام نے بہت کوشش کہ نماز ِ عید کے موقع پر مسلمانوں کو غازی کی آمد کا علم نہ ہو لیکن عید گاہ میں موجود نمازیوں کو اس کا علم ہو گیا۔ نقص ِ امن کا خطرہ پیدا ہونے لگا تو غازی موصوف کھڑے ہو گئے اورمسلمانوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:”پیارے بھائیو!اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کرو، آپس میں بھائیوں کی طرح اورپرامن رہو۔ میں پیارے رسول حضرت محمد ﷺ کا ایک ادنیٰ غلام ہوں۔ مجھ میں اس کے سوا کوئی خوبی نہیں کہ میرے ہاتھوں سے شانِ رسولؐ پر ناروا حملہ کرنے والے ایک مردود کو قرار واقعی سزا ملی ہے۔ تاجدارِ مدینہ ؐ کی شان میں ذرا سی توہین بھی برداشت نہیں کی جا سکتی۔ آئندہ بھی کسی گستاخ نے یہ حرکت کی تو ناموسِ رسالتؐ پر فدا ہونے کے لئے ہزاروں جان نثار مقتل کی طرف بڑھیں گے۔ تمام بھائی دعا کریں کہ اللہ کریم راضی ہو اور بارگاہِ رسالت ؐ میں مجھ ناچیز کی جان جیسی یہ حقیر قربانی قبول ہو جائے۔“شہادت سے چار روز قبل 7اپریل 1938ء کو غازی میاں محمد نے اپنے حقیقی بھائی ملک نورمحمد کو ایک خط لکھا، اس میں بعض وصیتیں بھی کیں۔ آپ نے لکھا:”خداوند کریم کی رضا پر راضی رہنا، ہر حال میں صبر کرنا، کسی پر تمہارا غم ظاہر نہ ہو۔ میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میرا دل اس قدر خوش ہے کہ جس کا اندازہ کوئی دوسرا آدمی نہیں کر سکتا۔ میری دلی آرزو یہی تھی جو اللہ کریم نے پوری کر دی۔ میں گناہ کے سمندر میں غرق تھا کہ میرے مالک نے اپنی رحمت کے دروازے کھول دئیے۔ اس مالک کی مہربانی کا ہزار ہزار شکریہ۔ (پھر اپنی اہلیہ کا ذکر کرتے ہوئے لکھا) بندۂ کی عیال (بیوی) کو واضح ہو کہ میں آپ سے نہایت خوش اور راضی ہوں۔ تم نے کبھی کوئی ایسی غلطی نہیں کی جس کے لئے تمہیں معافی کا خواستگار ہونا پڑے۔ میری شہادت پر بجائے رونے دھونے کے اپنی رَبّ کو یاد کرنا، نماز پڑھنا، اپنے رَبّ کی بندگی کرنا اورمیرے لئے بخشش کی دعا کرنا۔“پھانسی کے انتظامات کا جائزہ لینے کے لئے 3/10 بلوچ رجمنٹ کا ایک افسر کراچی سے مدراس پہنچا۔ اس نے غازی صاحب سے پوچھا، کوئی آخری خواہش ہو تو بتاؤ۔ فرمایا، ساقی کوثر کے ہاتھوں سے جام پی کر سیراب ہونا چاہتا ہوں۔غازی صاحب کا باڈی گارڈ دستہ چھ سپاہیوں، ایک انگریز افسر اوربیرے پر مشتمل تھا۔ جن لوگوں نے آخری وقت آپ کی زیارت کی، ان کا کہنا ہے کہ چہرے پر سرور کی تازگی اور آنکھوں میں خمار کی چمک پہلے سے کہیں زیادہ ہو گئی تھی۔ والدین سے آخری ملاقات میں ہنس ہنس کر باتیں کرتے رہے۔ والدہ اپنے تئیس سالہ جواں سال بیٹے کا دیوانہ وار کبھی سر چومتیں، کبھی منہ۔ والد نے بہ ہزار مشکل اپنے آپ کو سنبھالے رکھا۔ اسی رات 11اپریل کو انہیں مدراس سول جیل لے جایا گیا۔ رات بھر آپ عبادت میں مشغول رہے، تہجد کے بعد غسل فرمایا، سفید لباس زیب ِ تن کیا، نمازِ فجر ادا کی۔پھر سرپر پگڑی باندھ کر اپنی پگڑی والد صاحب کے سپرد کی،پھر سرکاری طورپر ان کاایک فوٹولیاگیا،وہ بالکل ہشاش بشاش تھے،پہلے اپنے والد سے بغل گیر ہوئے پھر اپنے پلٹن کے مولوی صاحب سے گلے ملے ان کے والد آخری وقت تک وہاں موجود رہے،بلکہ کنٹوپ بھی انہوں نے خود ہی بیٹے کوپہنایا،وہ کلمہ شریف اور درود شریف کا ورد کرتے رہے،غازی صاحب شان وشوکت سے چل کر تختہئ دار پر جاکر کھڑے ہوئے۔ تختہ دار پر کھڑے ہوتے ہی آپ نے نعرۂ تکبیر بلند کیا۔ چہرہ اُٹھاکر ایک بار مدینہ منورہ کی طرف دیکھاپھر بڑی عقیدت سر جھکالیا،پھانسی کا پھندااپنے والد سے پکڑااور دوبار چوم کراپنے گلے میں ڈال لیا۔تھوڑی دیر بعد تختہ دار کھینچ دیا گیا۔ دیکھنے والوں نے دیکھا کہ آپ کے چہرۂ پر برستا ہوا نورکچھ اور فزوں ہو گیا۔ فضا کی عطر بیزی کچھ اور بڑھ گئی۔ ڈاکٹر نے معائنہ کر کے کہا، بے قرار روح قفسِ عنصری سے پرواز کر گئی۔اگلے ہی لمحے ساقی کوثر کا دیوانہ حوضِ کوثر کے کنارے اپنی پیاس بجھا رہا تھا۔ یہ واقعہ بروزمنگل ۰۱ صفر المظفر ۷۵۳۱ھ مطابق 12اپریل 1938ء کی صبح پانچ بج کر پینتالیس منٹ پر پیش آیا ڈیوٹی پر موجود داکٹر نے آپ کی شہادت کی تصدیق کی پھر نوش ورثاء کے سپرد کی گئی۔فسادِ امن کے خطرے کے پیش نظر غازی صاحب کی نعش وطن لانے کی اجازت نہ دی گئی،آخرانہیں مدراس (انڈیا) سنٹرل ریلوے اسٹیشن سے تین میل دور ایک بڑے قبرستان میں معروف ولی اللہ پیر ساوی ؒ کے مقبرہ اور مسجد کے درمیان مقبرہ کی بائیں جانب سپردِ خاک کیا گیا
ہری ہے شاخ تمنا ابھی جلی تو نہیں
دبی ہے آگ جگر کی مگر بجھی تو نہیں
جفا کی تیغ سے ہے گردن وفا شعاروں کی
کٹی ہے برسر میدان مگر جھکی تو نہیں