ایک زمانہ تھا جب مسلمان یورپ، برطانیہ وغیرہ میں اجنبی تھے۔ اہل یورپ نے مسلمانوں کے لیے دروازے ضرورکھولے، مگر ان کے دل نہیں کھلے تھے،لیکن آج اسلام امریکا و برطانیہ سمیت پورے یورپ میں بڑے زور و شور سے پھیل رہا ہے، اسلامی لٹریچر تقسیم ہو رہا ہے۔ لوگ قرآنی تعلیمات، حقائق، سچائی اور دلائل پر مبنی ریسرچ اور تحقیق کے بعد اسلام میں داخل ہو رہے ہیں۔ برطانوی جریدے اکانومسٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق مغربی ممالک میں لوگ تیزی سے اسلام قبول کررہے ہیں۔ نائن الیون کے بعد صرف برطانیہ میں ایک لاکھ لوگ اپنا پرانا مذہب چھوڑ کر اسلام میں داخل ہوچکے ہیں۔ ویلز یونیورسٹی کے محقق کیون بروس کے مطابق ہر سال 5200 افراد دائرہ اسلام میں داخل ہورہے ہیں۔اسلام قبول کرنے والوں میں زیادہ تر وہ لوگ ہیں جنہوں نے مسلمانوں کے ساتھ قابل ذکر وقت گزارا اور ان سے متاثر ہوئے۔ برطانیہ میں نسلی امتیاز اور اخلاقی اقدار کے فقدان کی وجہ سے لوگ اسلام جیسے امن پسند مذہب کی جانب راغب ہو رہے ہیں۔ انگلینڈ میں تقریباً ساڑھے 7 ملین، فرانس میں 5 ملین اور جرمنی میں چار ملین سے زائدمسلمان موجود ہیں، ان بڑے ممالک کے علاوہ اسپین، اٹلی، ڈنمارک، ناروے، ہالینڈ، یونان وغیرہ میں بھی مسلمان موجود ہیں، جن میں سے اکثر پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش سے تعلق رکھتے ہیں۔برطانیہ میں مسلمان ہونے والی آبادی کا 66 فیصد حصہ خواتین پر مشتمل ہے، برطانیہ میں عام افراد تیزی سے اسلام کی جانب راغب ہورہے ہیں گزشتہ چند برس میں ایک لاکھ سے زائد افراد دینِ حق قبول کرچکے ہیں۔ ان میں اکثریت سفید فام نوجوان خواتین کی ہے۔ جو معاشرے کی بے راہ روی اور مادہ پرستی سے سخت نالاں ہیں۔ یہ خواتین روحانی سکون کی تلاش میں تھیں جو انہیں اسلام میں ملا ہے۔ برطانیہ میں کثیرالمذہبی تنظیم ’فیتھ میٹرز‘ نے ایک طویل سروے کے بعد کہا ہے کہ برطانیہ میں اسلام تیزی سے فروغ پارہا ہے اور اسے قبول کرنے والے خواتین و حضرات کے مطابق اسلام پر عمل پیرا رہتے ہوئے برطانیہ میں رہا جاسکتا ہے کیونکہ یہ معاشرے سے ’مکمل مطابقت‘ رکھتا ہے۔ واضح رہے کہ سابق برطانوی وزیرِ اعظم ٹونی بلیئر کی سالی لورین بوتھ نے جب اسلام قبول کیا تو اس کے بعد بھی دینِ اسلام کے دائرے میں داخل ہونے کا رجحان بڑھا اور برطانوی ذرائع ابلاغ میں اس کا بہت چرچا ہوا تھا۔تاہم فیتھ میٹرز نے کہا ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کی جانب سے اسلام قبول کرنے کا مقصد یہ نہیں کہ وہ مغربی طرزِ زندگی کے خلاف ہیں بلکہ عام نارمل افراد دین کی جانب مائل ہورہے ہیں اور وہ اسلام کو مغربی معاشرے اور اقدار کے ساتھ ہم آہنگ بھی سمجھتے ہیں۔ سروے کے مطابق اسلا م قبول کرنے والے دوتہائی افراد میں سفید فام خواتین شامل ہیں جن کی اوسط عمر 27 سال ہے۔ 50 فیصد خواتین نے اسلام قبول کرنے کے بعد اسکارف پہنا جبکہ 5 فیصد نے برقع کا انتخاب کیا۔ نصف سے زائد افراد نے کہا کہ اسلام اپنانے کے بعد انہیں اپنے خاندان کے منفی رویے کا سامنا ہوا۔ خوبصورت، مضبوط اور عالیشان عمارتوں، صاف ستھری شاہراہوں پر دوڑتی موٹر گاڑیوں اور بہترین نظم و ضبط والا شہر لندن ان دنوں تہذیبی تبدیلی کے دور سے گذر رہا ہے۔ پہلے جہاں عام طور پر مغربی تہذیب ہی نظر آتی تھی وہاں آج مشرقی اقدار کی جھلک بھی دکھائی دینے لگی ہے۔ اب یہاں صرف انگریزی طرز زندگی ہی نہیں دکھائی دیتی بلکہ اسلامی تمدن کی روشنی بھی دکھائی دینے لگی ہے۔ یہاں مسلمانوں کی تعداد بہت تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ یہ بات صرف لندن ہی کی نہیں بلکہ پورے انگلینڈ کی ہے۔ دوسرے لفظوں میں فی الحال برطانیہ میں اسلام کی بہارچل رہی ہے۔ برطانوی حکومت کے جاری کردہ اعداد و شمار اور مختلف تحقیقات کے نتیجے ظاہر کرتے ہیں کہ یہاں اسلام پسندوں کی تعداد میں اضافہ ہورہاہے اور عیسائیوں کی تعداد گھٹ رہی ہے۔ مسجدیں آباد ہو رہی ہیں اور چرچ ویران ہورہے ہیں۔ نئی نئی مسجدیں خوب تعمیر ہورہی ہیں یا پرانی عمارتوں کو خرید کر مسجد میں تبدیل کیا جا رہا ہے تو دوسری طرف عیسائیوں کی عدم توجہی کے سبب گرجا گھروں کو بند کیا جا رہا ہے۔ کئی جگہ تو یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ گرجا گھروں کے مالکان نے انھیں مسلمانوں کے ہاتھوں فروخت کردیا کہ وہ اسے مسجد بنا لیں۔ یہ صورت حال جہاں عیسائیت کے خیر خواہوں کے لئے فکر کا سبب ہے وہیں اسلامی داعیوں کے لئے باعث مسرت ہے۔ اس سے مغربی شہریوں کا مذہب کے تعلق سے مثبت رویہ کہا جاسکتا ہے کہ ایک طرف جہاں اسلام کی مخالفت ہوتی ہے وہیں دوسری طرف اس کے بارے میں عوام اچھے خیالات بھی رکھتے ہیں۔ برطانیہ میں ہوئے ایک نئے ریسرچ سے پتہ چلا ہے کہ اس ملک میں اسلام سب سے تیزی سے بڑھنے والا مذہب ہے۔ وہیں، چرچ آف انگلینڈ کو کم تعداد میں پیروکار مل رہے ہیں۔ نیٹسین کے برطانوی سوشل ایڈٹس یوٹس سروے کے مطابق گزشتہ دو سالوں میں چرچ آف انگلینڈ کے 20 لاکھ پیروکار کم ہوئے ہیں تو دین اسلام کے ماننے والوں کی تعداد میں 10 لاکھ تک کا اضافہ ہوا ہے۔ اسلام برطانیہ کا دوسرا سب سے بڑا مذہب بن چکا ہے۔ مسلمان جو دس برس قبل محض تین فیصد تھے اب بڑھ کر پانچ فیصد تک پہنچ گئے ہیں۔ حالانکہ مسلمان ان اعداد کو قبول کرنے سے گریز ہے اور وہ مانتے ہیں کہ ان کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔ مسلمانوں کا کہنا ہے کہ مردم شماری میں مذہب کا خانہ لازمی نہیں بلکہ اختیاری ہے لہٰذا ہرکوئی اپنے مذہب کے بارے میں جواب نہیں دیتا۔ اس رپورٹ کے مطابق 7.2 فیصد شہریوں نے اپنے مذہب کے بارے میں نہیں بتایا ہے۔ مسلمانوں کا ماننا ہے کہ جن لوگوں نے اپنے مذہب کے بارے میں جواب نہیں دیا ہے ان میں بڑی تعداد مسلمانوں کی ہے۔رطانیہ میں شائع ہونے والی ایک جائزہ رپورٹ کے مطابق برطانیہ میں ہر سال تقریباً 5 ہزار سے زائد لوگ اسلام قبول کر رہے ہیں۔ پچھلے عشرے کے دوران اسلام قبول کرنے والے لوگوں کی تعداد میں تقریباً دگنا اضافہ ہوا ہے اور برطانیہ میں اب تک تقریباً ایک لاکھ سے زائد لوگ اسلام قبول کرچکے ہیں۔عام طور پر دین اسلام کے بارے میں ناقص معلومات رکھنے والے غیر مسلم یہ پروپیگنڈا کرتے رہتے ہیں کہ اسلام میں خواتین کو آزادی حاصل نہیں ہے اور انھیں ان کے حقوق نہیں دیئے جاتے۔ اگر ایسی سوچ رکھنے والے افراد اگریورپ میں اسلام قبول کرنے سے متعلق جائزوں کو غور سے پڑھیں تو انھیں چشم کشا جواب مل جائے گا۔ اعدادو شمار کے مطابق یورپی خواتین، مردوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ اسلام قبول کررہی ہیں بلکہ ان کی تعداد مردوں کی نسبت تقریباً دگنا ہے۔WHY ISLAM IS OUR CHOICEنامی کتاب جو اسلام قبول کرنے والوں کے خیالات پر مشتمل ہے،اس کم از کم پچاس نو مسلم خواتین کے اعترفات جمع کئے گئے ہیں،جنہوں نے محض اس لیے اسلام قبول کیا کہ اسلام کے علاوہ کو ئی دوسرا مذہب ایسا نہیں،جس نے خوتین کو اتنے حقوق دئے ہوں،یہ اعترافی بیانات اور اس کے علاوہ نو مسلم خواتین کی روز افزوں تعداد مغرب کے جھوٹے پروپیگنڈوں کی قلعی کھول رہے ہیں۔