روزنامہ ”تیج“ دہلی میں شردھانند کے قلم سے اسلام اور مسلمانوں کو گالیاں دی جاتی تھیں اور قرآن مجید کی آیتوں کا مذاق فحش الفاظ میں اڑایا جاتا تھا۔ ہندی اخبار ”ارجن“میں ہندوؤں کو مشتعل کرنے کے لیے عہد ِ سابق کے مسلم سلاطین کے فرضی مظالم کی کہانیاں بہت بڑھا چڑھا کر شائع کی جاتی تھیں اورکوئی دن ایسا نہ گزرتا تھا جب ہندو عورتوں کے اغوا اور مسلمانوں کے ہاتھوں ان کے بے عزت کئے جانے کے دو چار جھوٹے قصے درج نہ کئے جاتے ہوں۔ ایک آریہ سماجی نے قرآن مجید کا جواب لکھنا شروع کیا۔ شردھانند کی اشیرباد سے ایک اخبار ”گروگھنٹال“ جاری کیا گیا تھا جس کا مقصد مسلمانوں اور ان کے مقدس رہنماؤں کو (جن میں اولیاء کرامؒ بھی شامل تھے) انتہائی شرمناک الفاظ میں گالیاں دینا تھا۔شردھانند کے ایک چیلے نے ”جڑپٹ“ کے نام سے ایک کتاب لکھی جس میں حضور سرکارِ دو عالم ﷺ اور دیگر انبیائے کرام، خاص کر حضرت ابراہیم خلیل اللہ، حضرت لوط، حضرت ایوب، حضرت اسحق علیہم السلام کی شان میں اس قدر سخت گستاخیاں بالکل عریاں الفاظ میں کی گئی تھیں کہ اس خباثت کا تصور بھی مشکل ہے۔ شردھانند کا کلیجہ اس قدر سخت اشتعال انگیزیوں پر بھی ٹھنڈا نہ ہوا اور اس نے خاندانِ مغلیہ کی بے گناہ شہزادیوں کے خلاف فحش ڈرامے لکھنے کی تحریک سارے ملک میں شروع کر دی۔ چنانچہ اس نوعیت کے کئی ڈرامے اردو ہندی میں لکھے گئے۔ شہزادی زینت آراء بیگم کے متعلق ایک ڈرامہ اخبار ”ریاست“ میں چھپا، جس میں اس پاک دامن شہزادی کو انتہائی بدچلن عورت کے روپ میں پیش کیا گیا تھا۔ بعد میں جب آریہ سماجیوں نے اس ناپاک ڈرامے کو سٹیج پر پیش کرنے کی کوشش کی تو کئی شہروں میں ہنگامے بھی ہوئے۔مسلمانوں کے سینے میں بھی دل تھا۔ وہ غلامانِ بارگاہ رسالت کی شانِ اقدس و اعلیٰ میں شرمناک گستاخیاں، انبیائے کرام علیہ السلام پر پُر خباثت حملے، قرآن مجید کی آیتوں کا مذاق اور بے گناہ مغل شہزادیوں کے خلاف فحش ڈرامے جو سب کچھ شردھانند کی قیادت میں شردھانند کے اشارے سے ہو رہا تھا، کب تک برداشت کرتے۔ ضبط و صبر کی آخر حد ہوتی ہے جس سے آگے بڑھنے کا نام بے غیرتی ہے۔ قاضی عبدالرشید مرحوم پیشہ کے لحاظ سے خوش نویس تھے۔ لمبا قد، چھریرا جسم، گندمی رنگ، لمبا چہرہ، کرتہ پاجامہ، ترکی ٹوپی، یہ ان کی عام پوشاک تھی۔ شردھانند کے زمانہ قتل کے قریب اخبار ”ریاست“ میں فرائض ِ کتاب انجام دیتے تھے۔ نماز کے بہت پابند تھے، دفتر کے اوقات میں ظہر و عصر کی نمازیں ہمیشہ دریبہ کی مسجد میں جماعت سے ادا کرتے تھے اور آریہ سماجیوں کی نجس و ناپاک حرکتوں سے ان کے جذبات بے انتہا مجروح ہو چکے تھے۔واقعہ قتل سے تین چار دن پیشتر قاضی عبدالرشید مرحوم بہت گم صم رہتے تھے۔ کام میں دل نہ لگتا تھا، جب تک جی چاہتا کتابت کرتے اورجب چاہتے تو برآمدے میں بچھے ہوئے کھرے پلنگ پڑے رہتے تھے۔ ریاست کے پروپرائیٹر دیوان سنگھ ان دنوں نابھہ کے معزول آنجہانی مہاراجہ پردھن سنکھ کے کسی سیاسی و ذاتی کام سے دو ہفتوں کے لئے شملہ گئے ہوئے تھے۔ دفتر کے انتظامات درست رکھنے اوراخبار کو بروقت نکالنے کی ساری ذمہ داری سردار گجن سنگھ مینیجر کے ذمے تھے۔ قاضی عبدالرشید مرحوم کو ان کی بے توجہی پر ایک دو مرتبہ ٹوکا گیالیکن ان پرکوئی اثر نہ ہوا۔جمعرات23دسمبر 1926کو اخبار کی آخری کاپی پریس بھیجنے کے لئے جوڑی جا رہی تھی۔ دفتر کا وقت نو بجے مقرر تھا۔ دن کے ساڑھے گیارہ بج رہے تھے اورمنشی قاضی عبدالرشید کا پتہ نہ تھا۔ چند اشتہاروں کے چربے اورمسودے انہی کے پاس تھے۔ قاضی صاحب کے اس قدر دیر سے آنے پر ہیڈ کاتب منشی نذیر حسین میرٹھی نے اعتراض کیا تو جھلا کر جواب دیا۔ ”چولہے میں گئی تمہاری کاپی۔“ یہ کہہ کرکام کرنے کی بجائے برآمدے میں پلنگ پر لیٹ رہے۔ اعتراض کیاگیا، مگرکچھ جواب نہ ملا۔ سردار گجن سنگھ مینیجر سے شکایت کی گئی۔ ان کے اصرار پر برہم ہو گئے۔ بولے، مجھے نوکری کی پرواہ نہیں، لکھ دو اپنے سردار کو میں کام نہیں کرتا۔ یہ کہہ کر پلنگ سے اٹھے، قلمدان بغل میں دبایا اور چل دئیے۔ چار پانچ بجے سہ پہر کے رمیان دریبہ کے ہندو علاقے میں سنسنی اوربے چینی سی محسوس ہوئی، سامنے سڑک پر ایک دو زخمی بھی گزرے۔ اس زمانے میں خبر رسانی کے ذرائع بہت محدود تھے۔ شہر میں ٹیلیفون تک کم تعداد میں تھے۔ ساڑھے پانچ بجے شام کے درمیان روزنامہ ”تیج“ کا ضمیمہ شائع ہوا جس میں شردھانند کے قتل کی تفصیلات کے ساتھ قاضی عبدالرشید کی تصویر بھی تھی کہ ہتھکڑیاں پہنے پولیس کی حراست میں کھڑے تھے اورجسم پر چادر ہے۔ تفصیلات سے معلوم ہوا کہ قاضی صاحب مرحوم اسی چادر میں پستول چھپا کر شردھانند کے دفتر گئے تھے اور اسے گولی کا نشانہ بنا دیا تھا۔قاضی صاحب نے عدالت میں اقبالِ جرم کیا۔ 15مارچ 1926ء کو سیشن کورٹ سے پھانسی کی سزا کا حکم سنایا گیا۔ ڈاکٹرسیف الدین کچلو نے سیشن کورٹ میں کسی معاوضہ کے بغیر پیروی کرنے کے علاوہ لاہور ہائی کورٹ میں اپیل بھی دائر کی مگر مسترد ہو گئی اورجولائی 1927ء کے آخری ہفتے یا اگست کے اوائل میں غازی عبدالرشید نے دلی سنٹرل جیل میں پھانسی کے تختے پر جامِ شہادت نوش کیا۔پھانسی کے دن سنٹرل جیل کے سامنے مسلمانوں کا بے پناہ ہجوم تھا۔ ہزاروں برقع پوش عورتوں کے علاوہ بہت سے بچے بھی غیرت ِ اسلامی کے جذبہ سے مخمور ہو کر گھروں سے باہر نکل پڑے تھے۔ لاش کوجیل کے اندر ہی غسل و کفن دیا گیا اورحکام نے جیل کے احاطے ہی میں دفن کرنے کا ارادۂ کیا تھا لیکن عمائدین شہر کے شدید اصرار پر شہید عبدالرشید کے وارثوں کو اس شرط پر لاش دینے کا فیصلہ کیا گیا کہ جنازہ کا جلوس نہیں نکالا جائے گا اور اسے جیل کے سامنے والے قربستان میں نذرِلحد کر دیا جائے گا لیکن جیل کا پھاٹک کھلتے ہی جب عاشق ِ رسولؐ کا جنازہ باہر نکلا تو مسلمانوں کا زبردست ہجوم اللہ اکبر اور یا رسول اللہ کے نعرے لگاتا ہوا دیوانہ وار ٹوٹ پڑا۔ جنازے کو حکام سے چھین لیا اور سامنے قبرستان لے جانے کی بجائے جامع مسجد روانہ ہو گیا۔نعرۂ تکبیر کی معجزہ نما اثر انگیزی کا یہ کرشمہ اس وقت موجود لوگوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ خونی دروازے کے سامنے مسلح پولیس کے کئی سو آدمیوں نے صف بندی کر کے راستہ روک دیا تھا۔ جا بجا گورا فوج کے جوان متعین تھے لیکن مسلمانوں کا ہجوم عاشق ِ رسولؐ عبدالرشید کے جنازے کو
لے کر خونی دروازے کے سامنے پہنچا اور اللہ اکبر کا نعرہ لگایا تو اللہ تعالیٰ جاننے والا ہے کہ پولیس کے مسلح جوانوں کی صف کائی کی طرح پھٹ گئی۔ گورا فوج کے جوان سنگینیں تانے کھڑے رہے اورجنازے کا جلوس اس صفائی سے آگے بڑھا کہ جیسے صابن سے تار نکلتا ہے۔ مسلح پولیس نے کوئی بار راستہ روکنے کی کوشش کی مگر ناکام رہی۔ ناموسِ رسالتؐ پر جان دینے والے عبدالرشید کی نمازِ جنازہ جامع مسجدمیں پچاس ساٹھ ہزار مسلمانوں نے پڑھی۔ (اس وقت دلی کی پوری آبادی تین لاکھ کے قریب تھی) نماز کے بعد شہر کے ممتاز مسلمانوں کی رائے تھی کہ لاش کوجیل کے سامنے والے قبرستان میں پہنچا دیا جائے جہاں قبر پہلے سے تیار تھی اورشہداء کے ورثاء متعلقہ حکام سے لاش کی واپسی کا مطالبہ کر رہے تھے لیکن غازی انوارالحسن مرحوم کی قیادت میں پرجوش طبقے نے جنازے کو حضرت خواجہ باقی باللہ نقشبندی کی درگاہِ مبارک میں دفن کرنے کا فیصلہ کیا جو جامع مسجد سے کم و بیش تین میل دورہے۔ دلی کے مستقل کوتوالِ شہر دیوی دیال نے ان دنوں رخصت لے رکھی تھی۔ شیخ نذیر الحق قائم مقامی کے فرائض انجام دے رہے تھے۔ کئی گھنٹوں کی مسلسل جدوجہد کے بعد مسلح پولیس نے گورا فوج کی مدد سے جنازے پر نمازِ مغرب سے پیشتر قطب روڈ کے اوپر اس وقت قبضہ کر لیا جب کہ مسلمان حضور خواجہ باقی باللہ کی درگاہِ مبارک کے قریب پہنچ چکے تھے۔ جنازہ قبرستان میں مرحوم کے ورثاء کے حوالے کیا گیا۔ عاشق رسولؐ کو ان کی ابدی خوابگاہ کی نذر کر دیا گیا۔
شہید عشقِ نبیؐ ہوں میری لحد پہ شمع قمر جلے گی
اٹھا کے لائیں خود فرشتے چراغ خورشید کے جلا کر
گستاخِ رسول”شردھانند“کا انجام (آخری قسط) حافظ مومن خان عثمانی
You might also like