پالامل ایک سنار صاحبِ ثروت ہندو تھا اس کی دکان درگاہِ حضرت بھلے شاہ ذرادور تھی،اس کی پشت پر ہندوساہوکاروں کاہاتھ تھا،بنیوں کے ٹولے کی حمایت میں ابتداً وہ مسلمانوں کا معاشی ناسازگاریوں پر بکواس کرتاتھا،اس نے کئی بار برملا کہا ”قرضہ تو واپس دیتے نہیں اور بنے پھرتے ہیں مسلمان“۔ایک مرتبہ اس نے کہا مسلمانوں کا خدا اپنے بندوں سے زکوۃ کی بھیک مانگتا ہے جبکہ ان بے چاروں کو دووقت کی روٹی بھی کھانے کو نہیں ملتی۔“مسلمانوں کو چپ سادھے دیکھ کر اس کا حوصلہ روزبروز بڑھتا گیا اور اولیاء عظام کے متعلق گالیاں بکنااس کا معمول بن گیا۔ہندووں کو اکٹھا کرکے نماز کی نقلیں اُتارنا اور اپنی عجیب وغریب حرکات سے انہیں ہنساتے رہنا گویا اس کا ہر روزکامشغلہ تھا،بات فحش کلامی سے بہت آگے جاچکی تھی،روزنامہ انقلاب لاہور کی 17 ستمبر 1934ء کی اشاعت کے مطابق پالامل نامی اس دریدہ دہن نے بے ادبیوں کا یہ کھلم کھلا سلسلہ شروع کررکھا ہے،۶۱مارچ کو جب لوگ نماز پڑھ رہے تھے تومردودمذکور نے نہ صرف نماز کا تمسخر اُڑایا بلکہ سرکار مدینہ ﷺ کی ذات اقدس کے متعلق نازیبا کلمات بکے،شانِ رسالت ما ٓب ﷺمیں صریحا گستاخی کی حرکت قبیح پر پورے شہر میں غم وغصے کی لہر دوڑگئی،مسلم معززین کے مشورے سے اس کے خلاف عدالت میں استغاثہ دائرکردیاگیا،مسٹر ٹیل مجسٹریٹ درجہ اول لاہور نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد اپنے فیصلہ میں لکھا ”میں اس نتیجے پرپہنچا ہوں کہ ملزم نے واقعی توہین رسالت ما ٓب ﷺکی ہے جس سے مسلمانوں کے جذبات مشتعل ہوئے اور سخت فساد کا خطرہ پیداہوگیا،اس لئے پالامل کو چھ ماہ قید اور دوسوروپے جرمانہ کی سزادی جارہی ہے۔“10ستمبر 1934ء کے روزنامہ ”سیاست“ لاہورمیں اس کی تفصیل یوں درج ہے پالامل سنار کے خلاف توہین پیغمبر اسلام کے الزام میں مقدمہ چلتارہا،ملزم نے مجسٹریٹ کے فیصلے کے خلاف مسٹر بھنڈاری سیشن جج لاہور کی عدالت میں اپیل دائر کردی۔یہاں اسے تافیصلہ ضمانت پر رہاکردیاگیا۔“ان دونوں فیروزپورہ روڈسے گزرنے والوں نے سنا کہ چوبرجی کے نذدیک واقع مشہور قبرستان میانی صاحب سے غم ناک چیخیں بلند ہورہی ہیں،دردکی شدت اور آوازکاکرب مسلسل بڑھتا ہی چلاگیا،دل ہلادینے والی یہ آہیں ”غازی علم الدین شہید“کے مقبرے سے اٹھ رہی تھیں،معلوم ہوتاتھا کہ جیسے آپ کہہ رہے ہوں کہ میں قبر میں تڑپ رہاہوں،کون ہے جو میرے لئے سامان تسکین ڈھونڈ لائے،راجپال کا ہم ذوق قصورکی شاہراہوں پر دندنا تاپھر رہاہے،کیا میرے چاہنے والے مرگئے ہیں؟اگرمیرا کوئی جواں سال وارث زندہ ہے تو خداکے لئے تختہ دار پر بزم رقص سجاکر ہم آغوش ہوجائے،وہ دیکھو سامنے آقاومولیٰ ﷺکی کوہِ رضم کی چوٹیوں پر استقبال کے لئے تشریف فرماہیں،ہے کوئی شہید رسالت جو آپ کے بازوؤں میں سمٹ جائے۔“انہی دنوں کا ذکر ہے کہ ایک رات حافظ غازی محمدصدیق صاحب نیندمیں تھے کہ مقدر جاگ اٹھا،نصف شب بیت چلی تھی جب آپ کو سرورِ بنی آدم،روح رواں عالم،حضرت محمدمصطفی احمدمجتبیٰ ﷺکی زیارت نصیب ہوئی سرکار ﷺنے فرمایا:”قصور میں ایک بدنصیب ہندوپے درپے ہماری شان میں گستاخیاں کرتا چلاجارہاہے،جاؤ اس ناپاک زبان کو لگام دو۔رحمۃ للعالمین کی حرمت وعزت کا یہ جانبازمحافظ کئی روز تک شدت غم سے پیچ وتاب کھاتا رہا کہ کس طرح قصور پہنچ کر اپنے آقاومولیٰ کے دشمن کو جہنم رسید کریں۔غازی محمدصدیق شہید کا تعلق شیخ برادری سے تھا،1914ء کو ان ولادت ہوئی،پانچ سال کی عمر میں مسجد میں بٹھایاگیا،1925ء تک دینی تعلیم کے علاوہ آپ پانچویں جماعت بھی پاس کرچکے تھے،آپ کے والد شیخ کرم الہی قصور سے پندرہ میل کے فاصلے پر فیروزپورہ چھاؤنی میں پکے چمڑے کا آبائی پیشہ اختیار کرچکے تھے،وہ اپنے اہل وعیال کو بھی ساتھ لے گئے،غازی صاحب کو چھاؤنی کے قریب ہی ایک تعلیمی ادارہ میں داخل کرایاگیا،جہاں آپ تین سال تک زیرتعلیم رہے،اور آٹھویں کا امتحان پاس کیا،اسی دوران آپ کے والد گرامی دنیا سے کوچ کرگئے،غازی محمدصدیق کی والدہ کانام عائشہ بی بی تھا،آپ بڑی نیک سیرت اور حوصلہ مندخاتون تھیں،غازی صاحب ہمیشہ سنت کے مطابق لباس پہنتے،نماز اور روزہ کے سختی سے پابند تھے،چھوٹی عمر ہی میں آپ نے حضرت شیخ محمد نقشبندی محلہ پیرانوالہ دہلی دروازہ کے دست حق پرست پربیعت کرلی تھی،اور حفظ قرآن کے لئے بھی کوشاں رہنے لگے تھے، 10ستمبر 1934ء کو انہوں نے اپنی والدہ سے عرض کیا کہ مجھے خواب میں ایک دریدہ دہن کافر دکھلایا گیا ہے کہ یہ ناہنجار توہین نبوی ﷺ کامرتکب ہورہاہے،اسے گستاخی کا مزہ چھکاؤ،تاکہ آئندہ کوئی شاتم اس امرکی جرات نہ کرسکے،میں قصور میں اپنے ماموں کا ہاں جارہاہوں،گستاخ موذی وہیں کا رہنے والاہے،مجھے بتایاگیا ہے کہ ذلیل کتے کی ذلت ناک موت میرے ہی ہاتھوں واقع ہوگی۔نیز مجھے تختہ دار پر جام شہادت پلایاجائے گا،آپ دعافرمائیں بارگاہ سرکار میں میری قربانی منظور ہو اور میں اپنے اس عظیم فرض کو بطریق احسن نبھا سکوں۔ماں نے بخوشی اجازت دے دی۔ایک مومنہ کے لئے اس سے بڑھ کر کیا مسرت ہوسکتی ہے کہ اس کا بیٹا دین اسلام کے کام آئے۔17ستمبر 1934ء کا واقعہ ہے کہ غازی محمدصدیق صاحب دربار بابابلھے شاہ کے نذدیک نیم کے درخت سے ٹیک لگائے کھڑے تھے عقابی نگاہیں آنے جانے والوں کا بغور جائزہ لے رہی تھیں اتنے میں ایک ایسا شخص دکھائی دیا جس نے چہرے پر کسی حدتک نقاب اوڑھ رکھا تھا،آپ نے جھٹ اس کی راہ روکی اور پوچھا کو ن ہے اور کہاں سے آیا ہے؟یہاں کیا کرتا ہے؟اسے اپنا نام بتانے میں تامل تھا،نوبت ہاتھاپائی تک پہنچی،آپ کو تنہا دیکھ کر اسے بھی حوصلہ ہوا،وہ کہنے لگا ”مسلمانوں نے پہلے میرا کیا بگاڑ لیا ہے اور اب کونسی قیامت آجائے گی؟الغرض غازی موصوف نے اسے پہچان لیا کہ یہی وہ گستاخ رسول ﷺہے جسے ٹکانے لگانے پر مجھے مامورکیاگیا ہے غازی نے فرمایا میں تاجدار مدینہ کا غلام ہوں کئی دنوں سے تیری تلاش میں تھا،اے دریدہ دہن! آج تو کسی طرح بھی ذلت ناک موت سے نہیں بچ سکتا،یہ کہہ کرآپ نے تہہ بند سے رمپی (چمڑاکاٹنے والا اوزار)نکالی اور للکار تے ہوئے اس پر حملہ آور ہوگئے،حافظ صدیق متواتر وار کئے جارہے تھے اور زور زور سے نعرہ تکبیر لگا کر بے غیرت پر برس پڑے۔واقعات کے مطابق پورے ساڑھے ساتھ بجے بارگاہ رسالت میں گستاخی کرنے والا یہ خناس شخص،جسے لوگ لالہ پالامل شاہ کے نام سے جانتے تھے،اپنی منطقی انجام کو پہنچ گیا۔مقتول مردودکے واویلا اور آپ کے نعرہائے تکبیر سے کثیر تعدادمیں لوگ اس جانب متوجہ ہوچکے تھے۔عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ غازی اس وقت تک ملعون ساہوکار کی چھاتی سے نہیں اترے جب تک موت کا پختہ یقین نہیں ہوگیا۔غازی کالباس ناپاک خون کے چھینٹوں سے آلودہ ہوچکاتھا،ارد گرد بھی گندے لہو کے داغ ہی داغ تھے،مقتول کا چہرہ نہ صرف بری طرح مسخ ہوا،بلکہ ہیبت ناک شکل اختیار کرگیا تھا۔یہاں تک کہ ڈرکے مارے کوئی قریب نہ پھٹکتا تھا۔