بچوں کا ادب، ہر دور میں موضوع بحث رہا ہے، جیسے بچے ہر باپ کو پیارے ہوتے ہیں اور ایسے ہی ادب اطفال میں ہر ادیب کا عزیز رہا ہے، زمانہ بعید میں جو بھی نامور ادیب اور شاعر گزرے ان کی تحریریں آج بھی بچوں کے ادب کی سنہری تاریخ ہیں البتہ ماضی قریب میں جو نامور لکھاری رہے انہوں نے بچوں کو نظر انداز کیا اور بچوں کے ادب کو اہمیت نہ دی، بچوں کا ادب جتنا اہم ہے اتنا ہی جواب طلب بھی رہا، بہت سے محققین نے اسے زیر موضوع بنایا اور بعض نقاد نے اپنی تنقید کا نشانہ بھی بنایا، بچوں کے ادب کی تاریخ ماضی حال مستقبل سے ہٹ کر پہلا سوال یہ اٹھتا ہے کہ آیا بچوں کے ادب سے کیا مراد ہے؟ کیا وہ نظم و نثر بچوں کا ادب ہے جو بچے لکھنے کی کوشش کرتے ہیں یا وہ تخلیقات جو منجھے ہوئے ادیب بطور خاص بچوں کی ذہنی نشوونما یا ان کی دلچسپی کے لیے تحریر کرتے ہیں؟ ڈاکٹر محمود الرحمن اپنی کتاب ”اردو میں بچوں کا ادب“ میں انگریزی کے ایک نقاد ہنری سٹیل کو منیگر کے حوالے سے لکھتے ہیں:
”جو چیز بچوں کے مزاج و مذاق سے ہم آہنگ ہو وہ ان کا ادب قرار پاتی ہے چاہے یہ چیز بڑوں اور بزرگوں کی ملکیت ہی کیوں نہ ہو۔“
ڈاکٹر محمود الرحمن نے بچوں کے ادب کے بارے میں بڑی بنیادی بات کہی ہے کہ بچوں کا ادب وہ ہے جو بچوں کے مزاج سے مطابقت رکھتا ہو اور بچے اس کے مطالعے سے مسرت محسوس کریں چنانچہ چیچوں چیچوں چاچا، گھڑی پہ چوہا ناچا، ایسی نظمیں ہمارے لیے بے معنی ہونے کے باوجود بچوں کے لیے با معنی ہیں کہ وہ ان کے مطالعے سے لطف اندوز ہوتے ہیں اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ بچے انہیں اپناتے ہیں۔ اس ضمن میں میرزادیب کی یہ رائے بھی اہم ہیں:
”بچوں کو وہی تحریر، قطع نظر اس امر کے وہ نظم ہے یا نثر پسند آتی ہے جو ان کی اپنی دنیا سے تعلق رکھتی ہے۔ بچوں کی اپنی دنیا سے مراد ہے بچوں کا مخصوص ماحول، ان کے فطری رجحانات، ان کے غوروفکر کی سطح، اس لیے ان کے ادب میں وہی کچھ ہونا چاہیے جو ان کے گردوپیش ہوتا ہے، جسے وہ روزانہ دیکھتے ہیں اور جسے وہ خوب سمجھتے ہیں اور جو ان کے تخیل کو متحرک کرتا ہے۔“
بچوں کے ادب کا موضوع کیا ہونا چاہیے اس بارے میں ماہرین اطفال نے جو کچھ لکھا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ابتدائی عمر میں بچے پرندوں اور جانوروں کی کہانیاں شوق سے سنتے ہیں۔ جب وہ سکول جانے کی عمر کو پہنچتے ہیں اور پڑھائی اور کھیل کود سے تھک جاتے ہیں تو جنوں اور پریوں کی خیالی دنیا ان کے تخیل کو مہمیز کرتی ہے اور چونکہ خیروشر کے تصادم میں خیر ہمیشہ شر پر حاوی رہتا ہے اس لیے اس سے ان کے ذہن و دل پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہوتے ہیں۔ ثانوی جماعتوں میں پہنچ کر وہ پریوں کی خیالی دنیا کو فریب محض سمجھ کر حقیقت پسند بن جاتے ہیں۔ اس عمر میں بہادری اور جوانمردوں کی کہانیاں سننا اور پڑھنا پسند کرتے ہیں اور یوں غیر شعور طور پر خود حقائق سے نبردآزما ہونے کی صلاحیت پیدا کرتے ہیں۔
اس بات کو تقویت یوں بھی ملتی ہے کہ ابتدائی عمر میں جو بچے مطالعہ کی طرف راغب ہوتے ہیں انہیں دیکھیں تو وہ جنوں پریوں اور شہزادیوں کی کہانیاں شوق سے پڑھتے ہیں یہ وہ عمر ہوتی ہے جب بچے دادی یا نانی کی زبانی سنی کہانیاں خود پڑھنے کے قابل ہوتے ہیں ایسے بچوں کے ہاتھوں اور خود اپنی عمر اطفال میں ہم نے اکثر عمروعیار اور ٹارزن کو دیکھا اور پڑھا ہے، یہ کہانیاں جن میں حاتم طائی بھی شامل ہے خاص طور پر اس عمر کے بچوں کے لیے بھی شائع ہوتی تھیں جو کم ضخامت اور تھوڑی قیمت پر عام دستیاب ہوتی رہیں اس عمر کے بعد کا عرصہ بچوں کے مطالعہ میں اضافہ بھی کرتا ہے اور علم میں توسیع بھی، یوں پھر بچے ذرا بڑی کتب کی تلاش میں رہتے ہیں اور جنوں پریوں کی کہانیوں سے نکل کر حقیقت کی دنیا کا مطالعہ کرتے ہیں ایسی کتابیں بچوں کے ادب میں خاص طور پر شائع ہوئیں جن میں تاریخی شخصیات کی کہانیاں اور ان کی سوان رہی جو اپنے دور میں بچوں کا بہترین ادب بھی کہلائیں اور بچوں کے لیے بے حد مفید ہونے کے علاوہ بہت مقبول بھی رہیں، بچوں کے ادب کی تاریخ میں جھانکیں تو یہی نظر آتا ہے کہ براعظم پاک و ہند میں آج سے سو ڈیڑھ سو سال پہلے خاص طور پر بچوں کے لیے لکھی ہوئی کتابیں بہت کم تھیں۔ بڑوں کی کتابوں ہی میں موجود ہلکی پھلکی کہانیاں اور نظمیں بچے بھی خوش ہو کر پڑھ لیتے تھے۔ حکایات سعدی، گلستان، بوستان جیسی کتابیں بچوں کو پسند تھیں ان کتب کے اکثر حصے بچوں کے تعلیمی نصاب میں شامل ہوتے تھے۔
تب کے دور میں یہ ادیب بچوں کے لیے خاص طور پر لکھتا تھا اس کا ہر بڑا نام جو آج اردو ادب کا لیجنڈ ہے ان کی تحریروں میں بچوں کے لیے خاص طور لکھی تحریریں بھی شامل ہیں، تب بچوں کے خاص طور پر نا سہی مگر ہر کسی نے شاعری اور نثر میں بچوں کے لیے لکھا ضرور، ماضی بعید کے اردو ادب میں جو کچھ بچوں کے لیے خاص نا بھی لکھتا گیا ہو اس میں بچوں کے ادب کے منتشر اجزا تو اس دور کی قدیم داستانوں میں بھی مل جاتے ہیں مگر یہ وہ تخلیقات ہیں جو خاص طور پر بچوں کے لیے نہیں لکھی گئیں مگر یہ بڑوں کا وہ سرمایہ ہے جسے بچوں نے اپنا لیا ہے۔ ہم اس دور یا اس سے قبل کی بات کر رہے ہیں جس زمانے کے متعلق بقول ڈاکٹر محمود الرحمن کے مطابق اس دور میں نظیر اکبر آبادی نے سب سے پہلے بچوں کے ادب کی طرف توجہ دی۔
جب ہم کلیات میں اعلیٰ پائے کی نظموں کے ساتھ ریچھ کا بچہ، گلہری کا بچہ، بلبلوں کی لڑائی، ہنس، طفلی نامہ، پڑھتے ہیں تو ہمیں یقین کرنا پڑتا ہے کہ اتنی سادہ اور عام فہم نظمیں چھوٹے بچوں کے لیے ہی کہی گئی ہوں گی۔
ایک اور جگہ لکھتے ہیں: نظیر اکبر آبادی وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے بچوں کے ادب کو نصیحت و لغت کی سنجیدہ بزم سے نکال کر نونہالوں کی محفل میں پہنچا دیا اقبال کے کلیات کا مطالع کریں تو اس کا ایک خاص حصہ بچوں کے لیے نظر آتا ہے اس کا زبان و بیان بھی واضح کرتا ہے کہ اقبال نے اسے خاص طور پر بچوں کے لیے تحریر کیا ہے۔
تاہم یہ حقیقت مسلمہ ہے کہ اردو میں بچوں کے ادب کا باقاعدہ آغاز 1857ء کے انقلاب ہی کا مرہون منت ہے۔ 1857ء کے انقلاب نے جہاں ہماری سیاسی، سماجی اور معاشی زندگی پر دوررس اثرات مرتب کیے وہاں اردو ادب کی جملہ اصناف کو بھی متاثر کیا۔ پروفیسر حامد قادری اردو ادب پر انگریزی کے اثرات بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ”انگریزی زبان کا اردو پر بے حد اثر پڑا، اردو زبان میں بچوں کے قاعدے انگریزی اصول پر لکھے گئے۔“
اول جن اہل قلم نے بچوں کے ادب کو قابل اعتنا سمجھا ان میں محمد حسین آزاد، الطاف حسین حالی اور مولوی اسماعیل میرٹھی سہرفہرست ہیں۔ آزاد اور حالی انجمن پنجاب کے زیر اہتمام نظمیہ مشاعروں کے بانی بھی ہیں اور اردو میں سب سے پہلے بچوں کی درسی کتب بھی آزاد ہی کی نظم کا اعجاز ہے اس لیے یہ کہنا درست ہو گا کہ انجمن پنجاب کا ایک زاویہ اردو میں بچوں کا جدید ادب بھی تھا۔
الطاف حسین حالی کا نام اگرچہ آزاد کے بعد آتا ہے مگران کی اہمیت کسی طرح بھی آزاد سے کم نہیں جبکہ اسماعیل میرٹھی متذکرہ دونوں اہل قلم سے متاثر ہونے کے باوجود بچوں کے ادب میں دونوں سے بلند مقام رکھتے ہیں۔ انہوں نے بچوں کے لیے جو ادب تخلیق کیا وہ کیفیت اور کمیت کے اعتبار سے ہر دو چار پر بھاری ہے۔اسماعیل میرٹھی نے اپنی نظموں میں بچوں کی نفسیات اور مزاج شناسی کا جو ثبوت دیا اس نے انہیں بچوں کا اہم ترین ادیب بنا دیا ہے اور اہم بات یہ ہے کہ ان کے ہاں ہر سن و سال کے بچوں کی دلچسپی کا سامان موجود ہے اور شاید یہی ان کی کامیابی ہے۔
آزاد، حالی اوراسماعیل میرٹھی نے اگر اپنی شاعری سے بچوں کے ادب میں اضافہ کیا تو نذیر احمد نے قصہ و کہانی کے ذریعے لڑکیوں کی تعلیم و تربیت کو اپنی توجہ کا مرکز بنایا، بیسویں صدی میں طباعت کی سہولتوں نے جب ادب کی دیگر اصناف کو شاہراہ ترقی پر گامزن کیا تو بچوں کا ادب بھی پھلا پھولا، منشی محبوب عالم نے بچوں کا اخبار پھول جاری کیا جس کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ پھول کے بعد پیام تعلیم، غنچہ، نونہال، تعلیم و تربیت، ہدایت، کھلونا، بچوں کی دنیا اور بہت سے دیگر رسائل نے بھی بچوں کے ادب کے فروغ میں نمایاں کردار ادا کیا۔ ریڈیو کے بچوں کے پروگرام اور قومی اخبارات کے بچوں کے صفحات نے بھی بچوں کے ادب کے فروغ میں خاصا کام کیا۔
بیسویں صدی میں آزادی سے قبل متعدد شعراء نے بچوں کے لیے نظمیں تخلیق کیں ان میں اقبال سہرفہرست ہیں۔
الف لیلی یا ہزار داستان، الہ دین کا چراغ، سند باد جہازی اور بعض دوسری کہانیاں بچے بڑے سبھی شوق سے پڑھتے تھے، ملا نصیر الدین یا خواجہ نصرالدین کے لطیفے بھی ایک عرصے سے بچوں اور بڑوں کا دل بہلاتے آ رہے ہیں …… بیسویں صدی کے شروع میں خاص طور پر بچوں کے لیے کہانیاں اور نظمیں لکھی گئیں۔ یورپ کے ملکوں میں بچوں کے لیے سائنس، زمین کی ساخت، چاند ستاروں، جانوروں، پودوں اور مشینوں پر خوبصورت کتابوں کے علاوہ ناول، افسانے، قصے کہانیاں اور ملکی گیتوں کی کتابیں بھی چھاپی گئیں۔ ان ملکوں کے بچوں کے لیے لکھی ہوئی نظمیں اور کہانیاں پڑھ کر ہمارے شاعروں کو بچوں کے لیے لکھنے کا خیال آیا۔ اسمعیل میرٹھی نے بچوں کے لیے بہت عمدہ نظمیں لکھیں۔ وہ صحیح معنوں میں بچوں کے شاعر ہیں۔ علامہ اقبالؒ نے پہاڑ اور گلہری، مکڑا اورمکھی، بچے کی دعااور ہمدردی جیسی خوبصورت نظمیں لکھیں۔ ابوالاثر حفیظ جالندھری کالکھا ہوا قومی ترانہ اوربعض دوسری کہانیاں اور نظمیں بھی بچوں نے پسند کیں۔ صوفی غلام مصطفی تبسم کی ٹوٹ بٹوٹ نے بچوں کو بہت مزا دیا۔ آپ نے بچوں کے لیے بہت سی نظمیں لکھی ہیں جنہیں بچے آسانی سے گا سکتے ہیں۔
سید امتیاز علی تاج کے والد محترم مولوی ممتاز علی نے 1909ء میں بچوں کے لیے ”پھول“ رسالہ جاری کیا جو 1957ء تک چھپتا رہا، اس کے مدیروں میں حفیظ جالندھری، عبدالمجیدسالک، غلام عباس، راجہ مہدی علی خاں اور احمد ندیم قاسمی جیسے بڑے بڑے لکھنے والے شامل تھے۔ ”پھول“ بچوں میں بہت پسند کیا جاتا تھا، بچوں کے لیے پریم، گلدستہ، نونہال، غنچہ، اور بعد میں کھلونا اور پھلواری کے نام سے رسالے شائع ہوئے۔
”جام جہاں نما“ کو اردو کا اولین اخبار تسلیم کیا جاتا ہے، ہفتہ وار ”جام جہاں نما“ کا پہلا شمارہ 27 مارچ 1822ء کو کلکتہ سے منصۂ شہود پر آیا۔ اس کے بعد اردو کے کئی اخبار اور رسالے صحافت کے افق پر نمودار ہو کر آسمان صحافت کو منور کرتے رہے۔ ایک ستارہ جب ٹمٹما کر ماند پڑتا تو کئی اور ستارے طلوع ہو کر ماحول اور فضا کو اپنی رعنائیوں اور دلربائیوں سے مسحور کیے رکھتے۔ اسی روزوشب میں اسی سال کا طویل عرصہ بیت گیا اور کوئی ننھا منا ستارہ اپنا نظارہ دکھانے کے لیے بے تاب و بے قرار ہی رہا۔ وہ کسی ایسی طفل دوست، نبض شناس اور کردار ساز ہستی کے دست شفقت کا منتظر رہا جو اسے اپنی توجہ کا مرکز و محور بنا کر میدان صحافت کو ایک نئی جہت سے روشناس کرتا۔ بالآخر مولوی محبوب عالم (ف 27 مئی 1933ء) کو یہ اعزاز حاصل ہوا اور انہوں نے ننھے منے اور معصوم بچوں کی تربیت اور دل لگی کے لیے بچوں کا اولین رسالہ نکال کر اردوصحافت میں ایک نئی روایت کی بنیاد رکھی۔
مولوی محبوب عالم نے 1902 کے ماہ مئی میں ”بچوں کا اخبار“ کے نام سے بچوں کا ماہنامہ جاری کیا۔ ”بچوں کا اخبار“ زیادہ عرصہ شائع نہ ہو سکا جانے کن وجوہات کی بنیاد پر غالباً اپنے پہلے ہی سال میں بند ہو گیا۔البتہ اردو صحافت میں یہ نئی روایت کا آغاز ضرور کر گیا۔ ”بچوں کا اخبار“ کے بعد
ماہنامہ پھول کے بعد بچوں کی صحافت میں ایک بڑا اضافہ دہلی سے ہوا جہاں سے بچوں کا رسالہ پیام تعلیم شائع ہوا اس رسالے کی اشاعت اپریل 1926ء ہے، یہ رسالہ ہر پندرہ روز بعد شائع ہوتا تھا۔ پیام تعلیم 1935 کے لگ بھگ پندرہ روز سے ماہنامہ ہو گیا۔
بچوں کی صحافت میں ایک قابل قدر اضافہ ”تعلیم و تربیت“ کے نام سے ہوا یہ رسالہ 1929ء کے آس پاس شائع ہونا شروع ہوا غالب امکان یہ ہے کہ اس رسالے نے اپنا آغاز جنوری 1928ء سے کیا تھا فروری 1906 میں پنڈی گھیپ سے ماسٹر جگت سنگھ نے ”راہنمائے تعلیم“ کے نام رسالے کا آغاز کیا ماسٹر جگت سنگھ اس رسالے کے ایڈیٹر تھے ضیاء اللہ کھوکھر بچوں کی صحافت کے سوسال میں لکھتے ہیں کہ:
اس عرصے کے دوران حیدر آباد دکن سے 1917 میں ماہنامہ اتالیق شائع ہوا جس کے ایڈیٹر مولوی فاضل محمد عبدالرب کوکب تھے۔
تعلیم و تربیت، ہمدرد نو نہال، بچوں کی دنیااور جگنو بھی عرصے سے بچوں کے لیے شائع کئے جا رہے ہیں۔ کتابیں چھاپنے والے ادارے فیروز سنز کے بانی مولوی فیروزالدین نے شیخ سعدی کی فارسی کتاب گلستان کا بچوں کے لیے اردو میں ترجمہ کیا۔ انہوں نے دبستان اخلاق کے نام سے بچوں کے لیے کتابوں کا سلسلہ بھی شروع کیا تھا۔ شاہکار بے بی انسائیکلو پیڈیا بچوں کا پہلا رنگین باتصویر اور جدید انسائیکلو پیڈیا ہے۔
آج کل بچوں کے لیے ہر اخبار میں ہفتے میں ایک دن خاص ایڈیشن شائع ہوتا ہے جو رسالوں کی کمی پوری کرتا ہے۔ بچوں کے ادب اور خود بچوں کے ساتھ ایک ناانصافی عرصے سے ہو رہی ہے۔ انہیں معلوماتی، تعمیری، اور صحت مند کتابوں کی بجائے جنوں، بھوتوں، پریوں اور ڈاکوؤں کی بے معنی کہانیاں پڑھنے کو دی جا رہی ہیں۔ ان سے نہ صرف بچوں کی معلومات میں کوئی اضافہ نہیں ہوتا بلکہ وہ ہروقت بیکار خیالوں میں کھوئے رہتے ہیں۔ بچوں کا صحیح ادب وہ ہے جوتعلیمی میدان میں رہنمائی کرنے کے ساتھ ساتھ عدم زندگی میں بھی ان کے لیے مشعل راہ ثابت ہو سکے۔