گستاخ رسول”پالامل“ کاانجام(آخری قسط) حافظ مومن خان عثمانی

چٹان
0

میڈیکل رپورٹ کے مطابق اس کے جسم پر چالیس زخموں کے واضح نشان تھے۔موقع پر موجود افراد کا بیان ہے کہ کہ اگر غازی صاحب فرار ہوناچاہتے توباآسانی ایسا کرسکتے تھے مگر انہوں نے اپنے فرض سے فارغ ہوچکنے کے بعد دوگانہ نمازشکرانہ اداکی اور قریبی مسجد کی سیڑھیوں پر اطمینان کے ساتھ بیٹھ گئے اور وقفے وقفے سے زیر لب مسکراتے اور گنگاتے رہے۔اس وقت تمام ہندووں کے چہرے اترے اتر ے تھے مگر غازی صاحب نہایت کی مطمئن اور سرشار نظر آتے تھے دیکھنے والوں نے دیکھا کہ آپ کی یہ ادا مسلمانوں کی سربلندی اور غیرت مندفطرت کا منہ بولتا ثبوت تھی۔ 20ستمبر 1943 ء کو روزنامہ ”سیاست“ کے پرچہ میں یہ خبر ان الفاظ میں شائع ہوئی:”قصور ضلع لاہور 17ستمبر گزشتہ شب گیارہ بجے کے قریب قصور سے یہ اطلاع موصول ہوئی ہے کہ لالہ پالا مل شاہ ساہوکار کو شام ساڑھے سات بجے قتل کر دیا گیا ہے۔ اس قتل کے سلسلہ میں ایک مسلمان محمد صدیق کو گرفتار کیا گیا ہے۔ پالا شاہ کے خلاف توہین ِ اسلام کے الزام میں مقدمہ چلتا رہا۔ مسٹر ٹیل مجسٹریٹ لاہورنے پالا مل کو چھ ماہ قید اور200روپے جرمانہ کی سزا دی۔ اس فیصلے کے خلاف اس نے مسٹر بھنڈاری سیشن جج لاہورمیں اپیل دائر کی تھی، اس کو ضمانت پر رہا کر دیا گیاتھا۔ معلوم ہوا کہ قتل بلھے شاہ کی خانقاہ میں ہوا اور قتل کے الزام میں محمد صدیق کو گرفتار کیا گیا ہے۔ پولیس بڑی تندہی سے تفتیش کر رہی ہے۔حضرت حضرت قبلہ غازی صاحب سے پوچھا گیا کہ آپ کچھ کہنا چاہتے ہیں تو انہوں نے فرمایا:”بلاشبہ پالا مل کو میں نے ہی قتل کیا ہے کیونکہ اس ملعون نے رسول ِ کریم  ﷺ کی توہین کی تھی۔ وہ دیدہ و دانستہ اس جرم کا مرتکب ہوا، اسے راجپال اورغازی علم الدین شہید ؒ کے واقعہ کا بھی بخوبی علم تھا۔ اس نے سب کچھ جانتے بوجھتے ہوئے خود کو سزا کے لئے پیش کیا۔ اگر اس واقعہ (شانِ رسالتؐ میں گستاخی) پر بیس سال بھی گزر جاتے تب بھی میں اسے ضرور بالضرور واصل ِ جہنم کرتا۔ ہمارے مذہب کے مطابق وہ ہر گز مسلمان نہیں بلکہ کوئی منافق ہے جو نبی پاک  ﷺ کی توہین سن کر خاموش رہے اور عصمت ِ رسولؐ پر جان قربان نہ کرے۔ کسی اور شخص کی ذات کا مسئلہ ہو تو برداشت ہو سکتا ہے، دنیوی امورمیں کسی بھی فرد کی شان میں بکواس پر چپ رہا جا سکتا ہے لیکن سرکارِ مدینہ ؐ کے مقام و مرتبہ پر ہرزہ سرائی کرنے والوں کے خلاف غیظ و غضب، جوش و ولولہ اور غصہ کسی حالت میں بھی کم نہیں ہو سکتا۔ میں نے جو کچھ کیا، خوب غور و فکر کے بعد غیرت ِ دینی کے سبب اپنے رسولؐ کی شان کو برقرار رکھنے کے لئے کیا ہے۔ اس پر مجھے قطعاً تاسف یاندامت نہیں بلکہ میں اپنے اس اقدام پر بہت خوش اور نازاں ہوں۔ عدالت زیادہ سے زیادہ جو سزا دے سکتی ہے، جب چاہے دے دے، مجھے قطعاً حزن و ملال نہ ہو گا۔ مگر جب تک ہمیں شہنشاہ ِ مدینہ ؐ کی حرمت اور تقدس کے تحفظ کی ضمانت فراہم نہیں کی جاتی، کوئی نہ کوئی سرفروش نوجوان بزم دار و رسن میں چراغ ِ محبت جلاتا رہے گا۔ یہ تو ایک جان ہے، اس کی بات ہی کیا ہے، میں تو آپؐ کی خاکِ قدم پر پوری کائنات بھی نچھاور کر ڈالوں تو میرا عقیدہ، ایمان اور عشق و وجدان یہی کہتا ہے کہ گویا ابھی حق ِ غلامی ادا نہیں ہو سکا۔“سیشن کورٹ میں حافظ غازی محمد صدیق کے مقدمہ کی سماعت چھ دسمبر 1934 ء کو سنٹرل جیل میں مسٹرٹیل کے روبرو شروع ہوئی۔ استغاثہ کی طرف سے خان قلندر علی خان پبلک پراسیکیوٹر اورصفائی کے لئے میاں عبدالعزیز صاحب بیرسٹر اور شیخ خالد لطیف گابا ایڈووکیٹ پیروکار تھے۔ وکیل صفائی میاں عبدالعزیز صاحب بیرسٹر نے اپنی طرف سے بڑے مدلل اورجامع قانونی نکات فاضل جج کے سامنے بیان کئے۔ انہوں نے اپنی طویل بحث کے دوران کہا:”میرا مسئلہ یہ ہے کہ ملزم کو مقتول سے کوئی ذات عداوت نہ تھی۔ اگر اس نے یہ فعل کیا ہے تو مذہبی عقیدہ کے تحت کیا۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ نوجوان ملزم کا بیان ہے کہ میں بیس سال بعد بھی توہین ِ رسالتؐ کا انتقام لینے سے نہ ٹلتا۔ یہ کس جذبے کا ترجمان ہے؟ اس لئے کسی طورپر بھی انکار نہیں ہو سکتا کہ اسلامی روایات کے مطابق رسولِ کریم ﷺ کی تعظیم و تکریم خدا تعالیٰ کے بعد دوسرے درجے پر ہے۔ پکے اور سچے مسلمان وہ ہیں جو اپنے آقا و مولیٰ ﷺ کی شان میں کسی طرح کی ادنیٰ گستاخی کو بھی برداشت نہیں کر سکتے اوروہ آپؐ کی شان برقرار رکھنے کے لئے اپنی جانیں دیوانہ وار فدا کرتے ہیں۔ محمد صدیق کے دل میں بھی اٹھارہ ماہ سے یہی جذبہ موجزن تھا اور اس نے جذبہ ایمان سے سرشار شہنشاہ مدینہؐ کی تعظیم و تکریم پر اپنا سب کچھ قربان کر دیا………………لہٰذا بہت سے گزشتہ ایسے مقدمات کی مثالیں بھی موجود ہیں جن کے حوالے سے میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ملزم کو زیادہ سے زیادہ حبس ِ دوام کی سزا دی جائے۔ سیشن کورٹ میں فیصلے کے بعد حضرت قبلہ حافظ صاحب ؒ کی والدہ نے اپنے جواں سال بیٹے کی پیشانی چومتے ہوئے نہایت حوصلے کے ساتھ فرمایا:”میں خوش ہوں۔ جس رسول ﷺ کی شان کے تحفظ کے لئے تم قربان گاہ پر جا رہے ہو، اس محبوب کردگار ؐ کی شان قائم رکھنے کے لئے مجھے تم جیسے بیس بیٹوں کی قربانی دینا پڑے تو رَبِّ کعبہ کی قسم! کبھی دریغ نہ کروں۔“روزنامہ ”انقلاب“ لاہور اور دیگر معاصر مسلم اخبارات میں غازی صاحب کی والدہ کے اس جرأت مندانہ بیان کے علاوہ غازی موصوف کے بارے میں یہ بھی درج ہے کہ آپ نے ان ایمان پرور الفاظ کو سنتے ہی زور سے نعرۂ تکبیر بلند کیا اور والدہ موصوفہ سے اپنے گناہوں اورغلطیوں کی معافی مانگتے ہوئے کہا کہ میں نے پالا مل کو قتل کر کے اپنے نبیؐ کی شان قائم رکھنے کے لئے جو قربانی پیش کی ہے، اس کی خاطر اگر مجھے ہزار مرتبہ بھی جینا یا مرنا پڑے تو تب بھی ہر دفعہ ناموسِ رسالتؐ  پر پروانہ وار فدا ہوتا رہوں گا اور اسے صدق ِ دل سے اپنا فرض عین سمجھتا ہوں۔سیشن کورٹ میں غازی محمد صدیق  ؒ کو سزائے موت کا حکم سنایا گیا۔ زندہ دِلانِ قصور نے اس فیصلہ کے خلاف ہائی کورٹ لاہورمیں اپیل گزار دی۔ عدالت ِ عالیہ میں 31جنوری 1935ء کو سماعت ہوئی۔ فیصلہ صادر کرنے کے لئے ایک ڈویژنل بنچ تشکیل دیا گیا۔ اس میں چیف جسٹس اورجسٹس عبدالرشید شامل تھے۔ فیصلہ کے طورپر سیشن کورٹ کا حکم بحال ہوا۔ غازی محمد صدیق  ؒ نے اپنی آخری وصیت میں فرمایا:”مجھے صرف قرآن پاک اورصاحب ِ قرآن سے انس ہے، آپ بھی ہمیشہ انہی سے لو لگائے رکھیں۔ میری قبر پر کوئی خلاف ِ شرع عمل نہ کیا جائے اورنہ اس کی اجازت دینا۔ نیز قوالی بھی نہ ہو کہ سلسلہ نقشبندیہ میں اس کی ممانعت ہے۔ میری خوشی اسی میں ہے کہ خدانخواستہ اگر پھر بھی کہیں کوئی گستاخِ رسولؐ جنم لے تو میرے متعلقین میں سے ایک نہ ایک فرد باطل علامت کو ٹھکانے لگا دے گا۔“جیل حکام سے روایت ہے کہ تختہ دار پر آپؒ کی زبان پر آخری الفاظ یہ جاری تھے:”میرے اللہ! تیرا ہزار شکر ہے کہ تو نے اپنے حبیب پاکؐ کی عظمت کے تحفظ کے لئے مجھ ناچیز کو کروڑوں مسلمانوں میں سے منتخب فرمایا۔“قربان گاہ میں خونِ دل کی حدت سے مشعل وفا کو فروزاں رکھنے والے اس خوبرومجاہد کی عمر اس وقت اکیس سال تھی۔شہید ِ رسالتؐ کا عظیم منصب عطا ہونے پر غازی محمد صدیق کی والدہ صاحبہ نے دیگر خواتین کو بھی اس موقع پر چیخ و پکار سے سختی سے منع کر رکھا تھا۔ جب کوئی عورت تعزیت کی غرض سے ان کے پاس آتی تو آپ فرماتیں۔ ”اس واقعہ پر غم و اندوہ کا کیا جواز ہے؟ حضورؐ پر قربان ہونا تو خوشی کا مقام ہے۔“جنازہ عیدگاہ کے قریب اسلامیہ ہائی سکول قصور (موجودہ بوائز ڈگری کالج) کے ہال میں رکھا گیا جہاں ان گنت مسلمان پرنم آنکھوں سے شہید کی زیارت سے فیض یاب ہو رہے تھے۔ لوگ ایک دروازے سے داخل ہوتے اور دوسرے دروازے سے نکل جاتے تھے۔ کافی دیر تک پردہ نشین مستورات شہید کا چہرۂ مبارک دیکھنے کو آتی رہیں۔ٹھیک ایک بجے جنازہ اٹھایا گیا اورجلوس کی صورت میں نصف میل کا فاصلہ پورے تین گھنٹے میں طے ہوا۔ نمازِ جنازہ پریڈ گراؤنڈ میں ادا کی گئی جس میں محتاط اندازے کے مطابق ایک لاکھ سے زائد افراد نے شرکت کی۔ جنازے کو کندھے دینے کے لئے چارپائی کے ساتھ لمبے لمبے بانس باندھ دئیے گئے تھے۔ آپؒ کے جسدِ مبارک کو قبرستان میں پہنچایا گیا اور فدائی حبیب کبریا  ﷺ غازی محمد صدیق کو پورے چھ بجے سپردِ خدا اور رسول جل شانہٗ ﷺ کر دیاگیا۔

You might also like
Leave A Reply

Your email address will not be published.