۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج فجر پڑھنے کے بعد سیول کالونی خار کے سامنے بائی پاس روڈ پر کچھ دیر کے لیے تیز تیز قدموں سے چلتا رہا کہ یکایک کھلے آسمان تلے اس شدید ترین سردی میں سڑک کے کنارے اک گٹھڑی پر نظر پڑی میں نے سوچا کسی بد قسمت مسافر سے اُسکی گٹھڑی رہ گئ ہوگی لیکن پھر یک دم خیال آیا کہیں بم یا دھماکہ خیز مواد نہ ہو کیونکہ یہ اک سرکاری اور حساس علاقہ ہے اس لئے میرے قدم آگے جانے سے رُک گئے۔ تجسس کے اس عالم میں کلمہ شہادت کا ورد کرتے ہوئے آہستہ آہستہ اس گٹھڑی کی جانب بڑھا تو اک پھٹے پرانے کمبل میں سے کسی کم سن بچے کے نکلے دو پاوں نظر آئے جسے دیکھتے ہی میں حیران وششدر رہ گیا قریب جاکر بیٹھا اور کبھی گٹھڑی تو کبھی ان معصوم پیروں کی طرف دیکھتا رہا۔آخر کار مجھ سے رہا نہ گیا معصوم پیروں کو پکڑ کر ذرا سا ہلادیا تو گٹھڑی میں لپٹا لپٹا اک معصوم نو عمر بچہ چونک کر آنکھیں ملتا ہوا اُٹھ بیٹھا، میں نے آنسو اور سسکیوں پر قابو پانے کی بھر پور کوشش کی کہ کچھ پوچھوں لیکن مجھ میں نہ ہمت تھی نہ حوصلہ اسلیے میرے استفسار کیے بغیر وہ خود گویا ہوا !
یتیم ہوں ماں باپ کا سایہ سر سے اُٹھ چکا ہے دنیا میں کوئی اپنا نہیں رہا سب بیگانے ہیں کوئی ایسا نہیں جو اپنے پہلو میں جگہ دیدے سر پر سائبان ہے نہ تن پر ڈھنگ کا کوئی کپڑا مر مر کر جی رہا ہوں "میں”کم سن بچے کی یہ آپ بیتی سن کر میرے پہلے سے بے ساختہ اُمڈ آنے والے آنسو میں مزید اضافہ ہوا کیونکہ باجوڑ جیسی پختون اور غیور قوم کے اندر یہ کہانی سننا میرے لیے انتہائی حیرت اور غیر یقینی سا تھا مگر کیسے اور کیوں یقین نہ کرتا کیونکہ وہ سب کچھ تو میں اپنی گناہ گار آنکھوں سے دیکھ رہا تھا اور میں ان حالات کو خود عینی شاہد تھا اسلیے مانے بغیر میرے پاس کوئی چارہ نہ تھا۔
معصوم بچے کو میں نے گرم گود سے لگا کر بوسہ دیا اور کہاں آو اُٹھ کر میرے آشیانہ چلتے ہے مگر بچے کی ضد تھی کہ مر تو جاوں گا لیکن جانا میں نے کہیں بھی نہیں۔میں نے کہا چلو ٹھیک ہے یہاں بیٹھے رہو عنقریب وہ سامنے ہوٹل اب کھلی گی وہاں پر آگ میں گرم ہوجاوگے اور میرا انتظار کیجے میں جلدی سے واپس آرہا ہوں ۔گھر جا کر اماں جی سے سرعت کیساتھ چائے بنانے کا کہا واپس آیا تو نہ پُرانا پھٹا کمبل تھا اور نہ معصوم سی جان گویا زمین پھٹ گئ اور ان دونوں کو نگل لیا۔
خداراہ! اپنے ارد گرد غریب اور یتیم بچوں کا خیال رکھے سردی کا موسم ہے ان بچاروں کو سردی بھی لگتی ہے اور بھوک بھی جبران ویلفیئر فاونڈیشن کے بانی بھائی نیک رحمن کے لیے دل سے دعاء نکلی کہ کم از کم اُسے یہ احساس تو ہے کہ وہ اس طبقہ کے لیے باجوڑ میں قریہ قریہ جاکر متحرک ہو گئے ہیں ورنہ معلوم نہیں ایسے قیامت خیز واقعات ہمیں کوچہ کوچہ صبح وشام دیکھنے کو ملتے ۔
یاد رکھیے! یہ صرف نیک رحمن صاحب کی نہیں بلکہ ہم میں سے ہر اک کی ذمہ داری ہے اگر ہم میں سے ہر بندہ اکہ یتیم اور غریب کی ذمہ داری قبول کرلے تو نیک رحمن وغیرہ کی تگ ودو کی ضرورت بھی نہیں رہی گی۔
اب گیارہ بج چکے ہیں لیکن اس قیامت خیز واقعہ دیکھنے کے بعد اب تک نہ چائے کا گھونٹ حلق سے نیچے اُترتا ہے اور نہ روٹی کا اک لقمہ کیونکہ جسے میں مسافر کی گٹھڑی یا دھماکہ خیز مواد سمجھ رہا تھا وہ اک معصوم سی جان اور کسی آدمیت کا لخت جگر اور جگر گوشہ تھا_
یہی رعایا کل روز محشر کو رب تعالی سے شکایت کرینگے کہ جس روز میں بھوک سے سسک سسک کر مر رہا تھا اور ٹھٹرتی سردی سے چھپنے کے لیے اک چھت اور کپڑا کے لیے ترس رہا تھا تب اُس سے اک دن قبل امیر شہر گل داد خان تین کیلو میٹر جھنڈا لہرا لہرا کر نمائش کرتا رہا جبکہ گل ظفر کورونا کو مذاق سمجھتے ہوئے دم دم مست قلندر میں مصروف ومشغول رہا_