شیخ الاسلام حضرت مولانااخونددرویزہ صاحبؒ حضرت سید علی غواص ترمذی المعروف پیرباباؒ کے خلیفہ اعظم اور خیبرپختونخواہ کے اولین مجدد،شیخ الاسلام،مناظر،مصنف،مجاہد،صوفی،خطیب،شاعر،اور پشتو ادب کے الین معمار گزرے ہیں،آپ کا شجرہ نسب امیرالمومنین حضرت عثمان ؓ سے ملتا ہے،حضرت اخونددرویزہؒ نے اپنے پیر ومرشد شیخ الاسلام والمسلمین حضرت سید علی غواص ترمذی المعروف پیرباباؒ کے ساتھ مل کراسلام کے نام پر جاری بدعات وخرافات اور غیر شرعی امورکا قلع قمع کرتے ہوئے اسلام کو اپنی اصلی شکل وصورت میں باقی رکھنے کے لئے بیش بہا قربانیاں پیش کیں،صوبہ خیبر پختونخواہ کے بعض علاقوں کوکفر کے پنجے سے رہائی دلانے کے لئے آپ نے کفار کے ساتھ بھی معرکہ آرائی کرنے کی سعادت حاصل کرتے ہوئے اس وقت کے منکرین ختم نبوت کابھی ڈٹ کر مقابلہ کیا۔آپ کا انتقال 1048ھ /1638ء کو پشاور میں ہوا،ہزار خوانی کے وسیع وعریض قبرستان میں مدفون ہیں آپ کاسادہ مگرمنبع انوار مزار مرجع خلائق ہے،حضرت اخوند درویزہ باباؒکے چھ بیٹے تھے جو مختلف ممالک اور علاقوں میں آباد ہوئے آج ان کی نسلیں انہی مختلف ممالک اور علاقوں میں آبادہیں۔
(۱)مولاناعبدالکریم شہیدؒ عرف کریم دادؒ،حضرت اخونددرویزہ ؒ کے سب سے بڑے صاحبزادے تھے،آپ 970ھ میں سالارزئی ضلع بونیر میں پیداہوئے،آپ کی والدہ ماجدہ نوروزئی قبیلے کی خماری خیل شاخ کے سردار حبیب خان کی ہمشیرہ تھیں،پیدا ئش کے دوماہ بعد والدین آپ کو حضرت پیرباباؒ کی خدمت میں دعاکے لئے لائے،پیرباباؒ نے ان کے منہ میں اپنا لعاب دہن ڈال کر دعاکی۔دس سال کی عمر میں حضرت پیرباباؒ کے مدرسہ عالیہ میں حصول علم کے لئے داخل ہوئے آپ براہ راست حضرت پیرباباؒ کے شاگرد اور خلیفہ ومازون تھے،حضرت پیرباباؒ نے اپنی صاحبزادی بی بی عائشہ (نیاابئی)دادی اماں،عرف بی بی شاہان آپ کے نکاح میں دی تھی،نیاابئی ]دادی اماں [کا مزار بھی اسلام پورمیں ہے، اور حضرت پیرباباکی صاحبزادی کے نام سے مشہور ہے۔مولانا عبدالکریم شہید ؒحضرت پیرباباؒکے ساتھ رہائش پذیر تھے اور آپ کے پوتوں اورنواسوں کے استاد بھی تھے۔پیرباباؒکی وفات کے بعد اسلام پور میں رہائش پذیر ہوئے،اکبربادشاہ اور یوسفزئیوں کی جنگ کے دوران یوسفزئیوں کے ساتھ گرفتار ہوئے اور پشاور جلاوطن کردئے گئے،آپ نے جلاوطنی کے بارہ سال پشاور میں گزارے پھر جب اکبر بادشاہ کی فوجوں نے سوات کو خالی کیا اور واپس چلی گئیں اور یوسفزئیوں کو اپنے وطن سوات دیر وغیرہ میں واپس جانے کی اجازت مل گئی تو آپ بھی یوسفزئیوں کے ساتھ دیر چلے گئے،دیر جاکر آپ نے شیادی نامی گاؤں میں ایک مسجد اورمدرسہ جاری کیا وہ مسجد اب بھی موجود ہے اور”کانجوشہیدباباؒ“کے نام سے مشہور ہیں۔ وہاں حمزہ خیل قبیلے کے ایک عالم اور پیر صاحب رہائش پذیر تھے انہوں نے اپنی بیٹی کا نکاح کریم دادباباؒکے ساتھ کیا، شیادی ابئی کاانتقال اسی گاؤں میں ہوا اور وہیں مدفون ہوئیں۔کچھ عرصہ بعد مولاناعبدالکریم کانجو]سوات[ میں سکونت پذیر ہوئے اور پھر تازیست اسی علاقہ میں رہے،آپ نے کانجو میں بھی ایک عالیشان مسجد تعمیر کی اور درس وتدریس کا سلسلہ شروع کیا،وہ مسجد ”شہید باباکی مسجد“ کے نام سے مشہور ہے۔
مولاناعبدالکریم شہیدؒ اجمیر شریف میں حضرت خواجہ معین الدین اجمیری ؒکی درگاہ میں بھی حاضرہوئے اور پھر اجمیر سے اکبربادشاہ کے دین الہی کے خلاف مناظرہ کرنے کے لئے دہلی تشریف لے گئے اکبربادشاہ نے آپ کو گرفتارکرکے آگرہ کے قلعہ میں پابندسلاسل کردیا۔اسی نسبت سے آپ شیخ عبدالکریم جیلی کے نام سے مشہورہوئے۔کچھ عرصہ بعد رہائی ملی،واپس کانجو تشریف لائے اور کفار کے ساتھ جہاد میں شریک ہوئے۔ کافرستان کے کافروں اورمسلمانوں کی لڑائیوں میں غازی محمدخان دیر کے محاذپر جہاد میں شریک تھے۔ان لڑائیوں میں حضرت اخوند سالاک باباؒ ]چالاک[دریائے سندھ کے کنارے سندھ کڑئی کے محاذ پر جہاد کرتے رہے اور اسی مقام پر شہید ہوئے، آپ کامزار]ضلع توغر،جدباء کے سامنے[ کابل گرام(کوز کلی) میں ہے۔
اخوند صدیق بابا ؒ غوربند لیلونڑئی کے محاذ پر جہاد میں مصروف رہے اور وہیں جام شہادت نوش کرگئے،ان کا مزار منگورہ ]نوی کلی[کے قرستان میں ہے۔
غازی محمدخان یوسف زئی دیر میں خال نامی گاؤں میں لڑتے ہوئے شہید ہوئے وہیں ان کامزار ہے، جو غازی محمدخان باباؒکے نام سے مشہور ہوئے۔
حضرت مولانا عبدالکریم ؒ اور آپ کے بھتیجے معروف شاعر حضرت مولانا عبدالحلیم ؒبن عبداللہؒ]اللہ داد[ فتح پورمیاں دم، مدین چیل کے محاذپر لڑتے ہوئے تیرات کے مقام پر9 شوال 1059ھ کو آدھی رات کے وقت شہید ہوئے۔بعض مورخین نے آپ کی تاریخ وفات 1072ہجری بیان کی ہے۔ حضرت پیرباباؒ کے پوتے حضرت میاں قاسم بابا ؒبھی آپ کے ساتھ اس جنگ میں شریک تھے اور زندہ رہ گئے تھے،اس کے بعد دوسری لڑائی سوات کوہستان توروال کی جنگ میں انہوں نے جام شہادت نوش کیا اور توروال کے مقام پر ان کا مزار واقع ہے۔
شہادت کے بعدمولانا عبدالکریم شہید کو تیرات کے علاقہ میں دریاکے کنارے سپردِ خاک کیاگیا،کانجو(سوات)کے لوگوں کو پتہ چلا تو انہوں نے آکر آپ کی میت کو یہاں سے نکالااور”کانجونیک بخیل“میں لے جاکر دفن کردیا۔مدین تیرات کے لوگ اس پر پریشان ہوئے اور رات کے وقت جاکر ان کی میت کو چپکے سے وہاں سے نکالااور مدین تیرات میں شہادت کے مقام پر لاکر سپردِ خاک کیا۔
میاں عبدالرشید مرحوم اپنی کتاب علماء کبار اور مشائخ عظام میں لکھتے ہیں کہ شہادت کے بعد مولانا عبدالکریم کاجنازہ نکبی خیل کے علاقہ دمغار نامی گاؤں میں لے جایا گیا،دمغار گاؤں پر اس زمانہ میں خوجہ قوم کا قبضہ تھا،تمام زمینیں ان کی ملکیت میں تھیں،مجاہدین نے دمغار گاؤں میں شہید بابا کی قبر کے لئے جگہ مانگی مگر خواجگان نے قبر کے لئے جگہ دینے سے یہ کہتے ہوئے انکار کیا کہ مولانا عبدالکریم عرف کریم دادبابا عالم،فاضل،بزرگ اور نیک انسان تھے اگر ہم نے ان کی قبر کے لئے جگہ دے دی تو ہماری تمام زمینیں قبرستان بن جائیں گی کہ لوگ اس بزرگ کے پاس اپنی میتیں لاکر دفن کر نا شروع کردیں گے۔ جس جگہ شہید بابا کی میت کی چارپائی رکھی گئی تھی وہاں ایک یادگاری قبر بنائی گئی ہے جو شہید بابا کی قبر کے نام پر مشہور ہے۔خواجگان کی طرف سے شہید بابا کی قبر کے لئے جگہ نہ دینے کی وجہ سے نیکبی خیل قبیلہ کے رئیس علی خان خواجگان سے ناراض ہوگئے اور ان پر لشکرکشی کرکے ان کو دمغار گاؤں سے نکال کر دمغار کی زمینوں پر قبضہ کیا اور علی خان نے یہ اعلان کیا کہ آئندہ کوئی خوجہ دمغار کی زمین میں نہیں آسکے گا اور نہ یہاں رات گزرا سکے گا۔
جب حضرت مولانا عبدالکریم جام شہادت نوش کیااس وقت آپ کے دونوں صاحبزادے میاں نورباباؒمدینہ منورہ میں اپنے پیر ومرشد حضرت آدم بنوریؒ کے ساتھ مقیم تھے اور بڑے بیٹے میاں دولت باباؒہندوستان میں تحصیل علم میں مصروف تھے،پیرباباؒکے پوتے حضرت میاں قاسم بابا ؒنے ان دونوں صاحبزادگان کو خطوط کے ذریعے اطلاع کی کہ آپ کے والد جہاد میں شہید ہوچکے ہیں،اس لئے دونوں واپس آجائیں چنانچہ دونوں صاحبزادگان وطن واپس آگئے۔مولانا عبدالکریمؒ کی بیوی حضرت پیربابا ؒکی صاحبزادی عائشہ بی بی ]نیا ابئی جن کی صرف ایک بیٹی تھی [کو میاں عبداللہ ؒعرف اللہ داد جو مولانا عبدالکریم شہید ؒکے بھائی تھے کانجو سوات سے اسلام پور لے گئے اور ان کی بقایا زندگی وہیں اسلام پور میں گزری اور وہیں ان کا انتقال ہوا۔
مولاناعبدالکریم شہیدعرف کریم داد(م 1072ھ) بہت بڑے محقق اورمتبحرعالم دین،اسلام کے لئے لڑنے والے مجاہد فی سبیل اللہ،عارف باللہ صوفی، صاحب قلم، اور پشتوادب کی مشہور شخصیت تھے،جن کو محقق افغان کا خطاب ملا،شاعر اورمصنف بھی تھے آپ نے کئی کتابیں بھی لکھیں ہیں۔جن میں تحفۃ الخانیہ(علم فقہ) شرح جام جہان نما،اور کلمات الوافیات (علم تصوف)،مکتوبات شیخ عبدالکریم اور ملحقات مخزن اسلام،پشتو اشعار میں ایک دیوان کے علاوہ خواتین کے مخصوص مسائل میں علم فقہ کی ایک کتاب بھی ہے جس میں صرف خواتین کے مسائل ہیں۔ مولانا عبدالکریم شہید علم شریعت،طریقت اور حقیقت تینوں میں بہت بڑا رتبہ رکھتے تھے،صاحب ولایت وکرامت شخصیت تھے۔بعد میں آنے والے علماء صوفیا اور بزروگوں نے آپ کے عظیم علمی اور بلندروحانی مرتبے کی بڑی تعریفیں کی ہیں۔مولانا عبدالکریم عرف کریم دادبابا بڑے درجہ کے اللہ والے بزرگ اور صاحب کشف وکرامت ولی تھے،آپ کے ہاتھ پر بہت ساری کرامات کا ظہور ہوا ہے،ان میں ایک کرامت کے بارہ میں مفتی غلام سرور لاہوری اپنی کتاب خزینۃ الاصفیاء میں لکھتے ہیں: جب مولانا نے کتاب ”مخزن اسلام“کو اختتام کے قریب پہنچایا تورات کے وقت سفید کاغذ کو کمرے کے اندر لے گئے اور بغیر چراغ کی روشنی کے تحریر کیا اور صبح سورے اپنے دوستوں کو وہ لکھائی لاکر دے دی اس طرح تمام”مخزن اسلام“کو پورا کرکے لکھ دیا۔“ مخزن اسلام آپ کے والد گرامی حضرت شیخ الاسلام مولانا اخونددرویزہ باباؒ کی شہرہ آفاق کتاب ہے،جو ان کی زندگی میں مکمل نہ ہوسکی تھی اس کا تتمہ حضرت مولاناعبدالکریم عرف کریم دادباباؒ نے لکھا ہے اور خوب لکھا ہے جس پر مورخین نے آپ کے تبحرعلمی کو خراج تحسین پیش کی ہے۔(جاری ہے)
شیخ الاسلام حضرت مولانا اخونددرویزہ ؒکی اولاد(پہلی قسط)حافظ مومن خان عثمانی
You might also like