شیخ الاسلام حضرت مولانا اخونددرویزہ ؒکی اولاد (آخری قسط) حافظ مومن خان عثمانی

چٹان
0

محقق افغان حضرت مولاناعبدالکریم المعروف کریم دادباباؒ کے شاگردوں اور مریدوں میں کئی نامور علماء،شعراء اوراہل تصوف شامل ہیں۔جن میں ان کے چھوٹے صاحبزادے میاں نورمحمدؒبابا،ملاعبدالسلامؒ،ملاعبدالحلیمؒ ؒ،اور حضرت پیرباباؒ کے تین پوتے حضرت میاں قاسم باباؒ،میاں عبدل باباؒ،میاں حسن باباؒ،کوہاٹ کے حضرت حاجی بہادرباباؒ،حضرت اخوندقاسم پاپین خیلؒ اور پشتو کے مشہورشاعر،صوفی، ولی کامل،عارف ربانی حضرت عبدالرحمن باباؒکے نام نمایاں ہیں۔
مولاناکریم دادفرماتے ہیں ؎
کریم داد بہ نور او نہ مری تر ابدہ ھر چہ خدائے روز ی کڑے تل حیات دے
کریم دادکبھی نہیں مرے گا جب اللہ تعالیٰ نے اس کو روحانی زندگی عطاکی ہے۔
زیات د ہند خلق چار پائے دے کہ اے گوری شریک مہ شہ د چار پایو پہ رمہ کے
ہندوستان کے اکثر]ہندو[لوگ جانور ہیں اگر تم ان کو دیکھ لو،جانوروں کے ساتھ ان کے گلے میں شریک نہ ہوجاؤ
کریم داد د ستر گو لید لے حال بیان کڑو د چار پایو سرہ بند پہ آگرہ کے
کریم دادنے اپنی آنکھوں دیکھا حال بیان کیا وہ جانوروں کے ساتھ آگرہ کے جیل میں قید تھا۔
حافظ الپوری ؒ ]الپوری شانگلہ[کے ایک عظیم صوفی شاعر گزرے ہیں وہ حضرت مولانا عبدالکریم شہید کے بارے میں فرماتے ہیں۔
یو عالم وے بل شہید شوے عجب دُرّ فرید شوئے د کانجو میاں کریم دادہ ما نیولے لمن ستا دہ
ترجمہ: آپ ایک تو عالم تھے اور دوسری بات یہ ہے آپ کو شہادت بھی نصیب ہوئی کانجوکے میاں کریم داد!میں نے روحانی طورپر آپ کا دامن تھاماہواہے۔
ان کی اولاد میں بڑے بڑے علماء فضلاء شاعر وادیب اور مجاہدین گزرے ہیں۔مولاناعبدالکریم شہید ؒکے بڑے بیٹے حضرت مولانا صاحبزادہ میاں دولتؒ بڑے عالم وفاضل صوفی وعابداور زاہد انسان تھے، ہندوستان کے شہر دہلی میں حصول علم کے لئے گئے تھے والد کی شہادت کے بعد واپس آئے اور اپنے چچاکے ساتھ اسلام پور (سوات)میں رہنے لگے، پھر اپنے چھوٹے بھائی حضرت میاں نورمحمدؒکے ساتھ اراضی تقسیم کی تو اسکے بعد شلبانڈی گاؤں (سوات) میں مقیم ہوئے۔ لیکن وصیت کی کہ جب میری موت آجائے تو مجھے اسلام پور کے قبرستان میں دفن کرنااس لئے کہ اسلام پور شیخ ملی کی تقسیم کے زمانہ سے میرے والد اور داداکامقام ہے۔حضرت میاں دولت باباؒ1096ھ میں رحلت فرماگئے، آپ کامزار میاں نورباباؒکے مزارسے کچھ فاصلے پر قبلہ کی طرف ہے اور میاں دولت باباؒکے نام سے مشہور ہے،آپ کے تین صاحبزادے تھے،میاں فاروق ؒ،میاں عبدالرسول ؒاور میاں حافظ باباؒ،حضرت میاں فاروقؒ بھی بڑے عالم وفاضل، صوفی اورمجاہد شخص تھے، بشام، چکیسر، اباسین،میرہ، دھندئی، مانڑئی، کے لڑائیوں شریک ہوئے اور بالآخر”پیپلئی“]میرہ بشام ضلع شانگلہ [کے غزامیں شہید ہوئے،پیپلئی نامی ایک ہندوخاتون اس علاقہ میں حکمران تھی جس کامضبوط قلعہ تھا آپ نے یہ علاقہ کافروں سے آزادکیااوریہیں شہید ہوئے حضرت میاں فاروق کا مزار پیپلئی علاقہ(گاؤں مانڑئی،بشام ضلع شانگلہ کے قدیم قبرستان) میں دیار کی درختوں کے سایہ میں ہے]اب تو قبر نہیں ہے مگر قبر کے کچھ نشانات ہیں جس کو پرانے لوگ حضرت میاں فاروق باباکی قبر قراردیتے ہیں،اس قدیمی قبرستان کے ایک کونے میں حضرت میاں فاروق باباکی مسجدیاچلہ گاہ بھی تھی جو اب بالکل ختم ہوچکی ہے پرانے لوگ اس کی نشاندہی کرتے ہیں،میاں فاروق ؒ کے چار بیٹے تھے،میاں محمد عارفؒ،میاں حاجی محمدؒ،میاں محمدانورؒ اور میاں محمداکرمؒ،میاں محمداکرم ؒبھی اپنے اسلاف کی طرح عالم وفاضل اورمجاہد انسان تھے،آپ نے آلائی تھاکوٹ اور بٹ گرام کے علاقوں میں کفار کے خلاف علم جہاد بلند کئے رکھا اور چانجل کے قریب بٹلہ کے مقام پر داعی اجل کو لبیک کہتے ہوئے اسی مقام پر آسودہئ خواب ہوئے۔انہی بزرگ کے ساتھ 7واسطوں سے راقم الحروف کا شجرہ نسب جاکر ملتا ہے۔ان کے دوسرے صاحبزادے میاں نورمحمدنقشبندی باباؒبھی بہت بڑے اورموثرعالم دین تھے،میاں نوربابامشہور صوفی اوربزرگ حضرت آدم بنوری ؒ کے خلیفہ تھے،میاں نورباباؒ نے سوات کوہستان کے محاذ پر گبری کافرستان کے لوگوں کے ساتھ جہاد کیا اور یہ علاقے ان سے آزادکرائے۔ان کی وفات7رجب 1088ھ کو ہوئی،مزار اسلام پور میں ہے، میاں نورباباؒ کی اولاد مدین،اسلام پور (سوات) اوربونیر کے کئی علاقوں میں آبادہے۔میاں نورمحمد بابا ؒکے تین بیٹے تھے،میاں غلام محمد،میاں مصطفی محمداور میاں گل محمد،بڑے کی اولاد مشرخیل دوسرے کی اولاد میاں جو خیل اور تیسرے کی اولاد کشر خیل کے نام سے موسوم ہیں (۲)عبدالخالق ؒعرف”خالق داد“ایک عالم وفاضل شخصیت تھے انہوں نے ”احکام ایمان“کے نام سے ایک مستندکتاب بھی لکھی ہے،اپنے چچامحمدصادق کے ساتھ ننگرہار (افغانستان)چلے گئے اور وہیں رہائش پذیر ہوگئے،آپ کی اولاد کابل افغانستان میں موجودہے اور اخوندخیل میاں گان کے نام سے مشہور ہے اور سناہے کہ تیراہ (اورکزئی ایجنسی)میں بھی موجود ہے (۳)میاں عبداللہؒ عرف ”اللہ داد“بڑے عالم وفاضل اور صوفی شخص تھے،اپنے والد کے مرید اورخلیفہ تھے سوات میں سیدوشریف کے قریب اسلام آبادمیں مقیم ہوئے بڑے عابدوزاہد تھے آپ کے ایک ہی صاحبزادے تھے جن کانام”میاں عبدالحلیم ؒ“تھاجوتیس سال کی عمر میں اپنے چچامولانا عبدالکریم عرف کریم دادشہید کے ساتھ مدین تیرات میں شہید ہوئے،بڑے عالم وفاضل اور شاعرتھے اپنے چچاکے کے شاگرداور مریدتھے،آپ کی قبرکانجوسوات میں ہے اور حلیم باباؒکے نام سے مشہور ہے مرجع خلائق ہے،آپ کے والد میاں عبداللہؒ آپ کی شہادت کے بعد اسلام پور میں واصل بحق ہوئے آپ کامزاراسلام پور کے قدیمی قبرستان میں ہے اور میاں عبداللہ باباؒکے نام سے مشہورہے،آپ کی اولاد بھی اسلام پورمیں ہے(۴)محمدیوسف حصول علم کے لئے ایران تشریف لے گئے تھے واپس نہیں آئے، ان کی زندگی اوراولاد کے بارہ میں کوئی معلومات نہیں (۵)حضرت اخون پائندہ محمد،آپ 985ھ میں پیداہوئے، ابتدائی تعلیم اپنے گھر میں اپنے والدحضرت اخوند درویزہؒ سے حاصل کی مزیدتعلیم کے لئے حضرت پیربابا کے مدرسہ عالیہ میں داخل ہوئے جہاں آپ نے قرآن وحدیث اور دورے علوم وفنون حاصل کئے،آپ نے بچپن میں قرآن حفظ کیا تھا،آپ صرف،نحو، حدیث،فقہ اور تفسیر میں بڑی قابلیت رکھتے تھے،آپ نے جید علماء اور مشائخ وصوفیا سے فیض حاصل کیا تھا اوراپنے زمانہ کے مشہور بزرگ، صوفی اور عالم باعمل تھے،آپ اپنے والد گرامی اخونددرویزہ بابا کے مرید اور خلیفہ بھی تھے اور سلسلہ نقشبندیہ اورچشتیہ میں ان سے بیعت تھے،ان کے خلیفہ طریقت بھی تھے،آپ پکے حنفی المسلک،اپنے والد کی طرح متبع سنت اورسماع کے خلاف تھے،سوات سے مغل فوجوں کے واپس چلے جانے کے بعد آپ بھی اپنے بھائیوں کے ساتھ پشاور سے واپس گئے اور دیرجاکر کشمیر نامی گاؤں میں آباد ہوئے اور درس وتدریس کس سلسلہ شروع کیا آپ کے حلقہ درس میں سینکڑوں کی تعدادمیں علماء ومشائخ اورطلباء شامل ہوکر مستفید ہوتے تھے،آپ ایک نڈرمجاہد اوربہادر غازی بھی تھے آپ بذات خود کئی معرکوں میں شریک ہوئے اور اپنی زندگی میں بیٹوں اور پوتوں کو جہاد کے لئے روانہ کیا،آپنے تمام عمرفرقہ واریت،بے عمل اوربدعتی مولویوں اورجاہل پیروں کے خلاف جہاد باللسان اورجہاد باالقلم جاری رکھا۔اخوندپائندہ محمد ایک عالم باعمل تھے،قیام وصیام کے پابند شب زندہ دار اور تہجد گزار بزرگ تھے،ایام بیض کے روزے بڑے اہتمام اور باقاعدگی سے رکھتے تھے،نماز میں کسی قسم کی کوئی کوتاہی برداشت نہیں کرتے تھے اور اپنی اولاد کو بھی سختی سے ان پر عمل کرنے کاحکم دیتے تھے۔آپ نے حصول علم اور دعوت وتبلیغ اور جہاد کے لئے ہندوستان،افغانستان حجاز مقدس اور ایران کاسفر بھی کیا تھا،کئی اکابر علماء اور شیوخ سے ملاقاتیں کرکے ان کی مجالس میں بیٹھ کر ان سے فیض حاصل کیا،آپ نے مکہ مکرمہ کاسفر کرکے حج کی سعادت حاصل کرنے کے بعد مدینہ منورہ بھی تشریف لے گئے تھے اور روضہ اقدس ﷺپر حاضری سے بھی مشرف ہوئے تھے،آپ صاحب قلم مصنف اورمولف بھی تھے اورفقہ کی کئی اہم کتابوں پر حاشئے بھی لکھے ہیں۔آپ نے طویل زندگی پائی اور1105ھ میں ایک سوبیس سال کی عمر میں وفات پائی،آپ کامزارلوئردیرتحصیل ادینزئی اسبنڑوں درہ میں کشمیر نامی گاؤں میں ہے اور اخون باباؒکے نام سے مشہور ہے۔اخوند پائندہ محمد رحمہ اللہ کے پانچ بیٹے تھے،عبدالودود مشرمیاں گل،عبدالسلام کشر میاں گل،اخوند جمال،اخوند میاں محمد اور اخوند صالح محمد،اخوند جمال بابا آپ کے علمی اور روحانی جانشین ہوئے۔میاں عبدالسلام کشر میاں گل کے بیٹے کانام میاں ملا عبدالرحیم تھا جن کی ولادت 13ذی الحجہ 1056ھ کو گاؤں کشمیر اسبنڑوں تحصیل ادینزئی لوئردیرمیں ہوئی،آپ کی تربیت اپنے دادا‘اخوند پائندہ محمدؒکے زیرسایہ ہوئی اور چھوٹی عمر میں علوم درسیہ کی تکمیل کرلی،آپ اپنے دادا سے سلسلہ نقشبندیہ اور چشتیہ میں بیعت ہوئے،سلسلہ نقشبندیہ میں حضرت شیخ سعدی لاہور ؒسے بھی بیعت تھے،شیخ سعدی لاہوری ؒحضرت شیخ آدم بنوریؒ کے مرید تھے،آپ نے اپنے بزرگوں کی طرح علم جہادبلند کئے رکھا‘ اپنے داداکے حکم پر سوات میں جہاد کے لئے چلے گئے اورکفار کے ساتھ جہاد میں شریک ہوئے،آپ نے دودفعہ حج کا سفر کیا اور مدینہ منورہ میں روضہ اقدس ﷺپر حاضرہوئے،آپ نے دیر سے بونیر ہجرت کی اور ساری زندگی وہیں گزاری،ملاعبدالرحیم کی دوبیویاں تھیں ایک باجکٹہ کے میاگان خاندان سے دوسری اخوند سالاک باباؒ کی پوتی تھی،جس سے آپ کے دوبیٹے تھے،ایک کانام میاں عبدالربؒ جبکہ دوسرے کانام میاں عبدالوہابؒ تھا،میاں عبدالوہاب ؒافغانستان اورہندوستان کے دینی مدارس سے فارغ التحصیل عالم دین تھے،آپ نے کئی دفعہ بیت اللہ اور روضہ نبوی کی زیارت کی،آپ کی وفات مدینہ منورہ میں ہوئی اور وہیں مدفون ہوئے،میاں عبدالوہابؒ کے تین بیٹے تھے،حضرت ولی اللہ عبدالحق المعروف حق باباؒ،میاں رحمت اللہؒ،اور میاں کریم اللہؒ،ولی اللہ حق باباؒ ایک باعمل عالم دین اور بزرگ شخصیت تھے،ہمیشہ دین کے کاموں میں مصروف رہتے تھے آپ کی قبر درہ اسماعیل خیل انذرو میرہ بونیر میں ہے،آپ کے پانچ بیٹے اور ایک بیٹی تھی،آپ کی اولاد بونیر رستم سدھوم میں آباد ہیں، میاں ملاعبدالرحیم کاانتقال27رمضان 1140ھ کو 84سال کی عمر میں ہوا،انذرو میرہ ٹوپی بونیر میں مدفون ہوئے (۶)عبدالباری ؒعرف ”باری داد“زمانہ طالب علمی میں سری نگراسلام آباد(مقبوضہ کشمیر)تشریف لے گئے تھے اوروہیں مقیم ہوئے دوبارہ واپس نہیں آئے ان کی اولاد کشمیر میں ہے اور اخون خیل میاں گان کے نام سے مشہور ہے۔حضرت اخونددرویزہ صاحبؒ کی نسل اخوند خیل کے نام سے ملک کے اطراف میں بڑی تعدادمیں موجود ہے چارسدہ،پشاور،صوابی،سوات،بونیر،دیر،شانگلہ،بٹگرام،اوگی،اٹک،راولپنڈی،مردان،دیر،وزیرستان،اسلام آباد،لاہور، کراچی اوربلوچستان کے علاوہ افغانستان،ایران اورمقبوضہ کشمیر وغیرہ میں اخوندخیل قبیلے کے بے شمارلوگ آبادہیں۔

You might also like
Leave A Reply

Your email address will not be published.