پشاور میں پشتوعالمی امن کانفرنس کے نام سے بلائی گئی ایک بیھٹک میں ہمیں بیٹھنے کا موقع ملا جو ہمارے زندگی میں ایک نئے روشن باب کا اضافہ ہے۔ کیونکہ ایک دوسرے سے ملنے جلنے اور بیٹھنے سے انسانوں کے درمیان ہمدردی و ایثار، خدمت کا جذبہ پیدا ہوتاہے۔ اور انہی اجتماعات سے انسان کی اندر حوصلہ میں مزید اضافہ ہوتاہے۔ اور یہی اجتماعات اور مجالس منعقد ہونے کے نتیجے میں تہذیب ترقی کرتی ہے۔
پوری دنیا کے ہر کونے میں اور تاریخ کے ہر باب میں اگر دیکھا جائے تو معاشرے کو سنوارنےمیں لکھاری کا کردار نمایاں ہے، چاہئے دنیا کی تاریخ میں کسی نے جبر و ظلم کے ساتھ سینکڑوں سال حکومت کی ہو انسانوں کو اپنا غلام بنانےمیں کسی قسم حربے استعمال کرنے سے دریغ نہیں کیا ہو تب بھی لکھاری نے اپنے قلم کے ذریعے لوگوں کو ان کے مظالم سے بچنے کے لئے تگ وودکرکے ظلم کے نظام کے خلاف اپنا قلم و ذہن استعمال کیا ہے، اور لوگوں کو انصاف و استحکام کے ساتھ رہنے کا طریقہ بذریعہ قلم سیکھایاہے۔
شاعر، ادیب اور لکھاری کون ہے؟ یہ اسی مٹی کا پیداوار ہے جو اپنے خدا صلاحیتوں کو استعمال کرکے مایوس قوم کے لیے امید کی کرن بن کر لوگوں کو تلخ و مشکل حالات میں جینے کا سلیقہ، حالات کو خوشگوار بنانے کا فن، اور لوگوں کے دلوں میں امیدوں کو پیدا کرتے ہیں۔لوگوں کے خاموشی کو توڑ کرحالات حاضرہ کا تجزیہ کرکے حکمت وبصیرت کے ساتھ لوگوں کی توجہ اہم مسائل اور حقائق کی طرف مبذول کراتاہے۔
خوشی کی بات یہ ہےکہ پشتو عالمی امن کانفرنس جس کو ایک معتبر مجلس سمجھا جاتاہے، جس میں علاقے کے ادیب و شعراء کو دعوت سخن دیا گیاتھا ، تاکہ یہ لوگ اپنے اس مٹی کے مادری زبان پشتو کو ترقی دے کر جو نظام استبدادی کی وجہ سے ہمارے مادری زبان سے ہمیں دور کیا گیاہے کو جس کو زبان سے کہہ سکتے اور باتیں تو کرسکتے ہیں لیکن اس میں لکھنا و پڑھنا اب ہمارے نسل نو کے لئے مشکل ہے، اور اسی بات نے پشتونوں کو بہت بڑا نقصان پہنچایاہےاور ہمارے ذہنوں میں یہ بات بیٹھائی گئی ہے کہ اگر ہم غیر کے زبان کو جب تک نہیں سیکھ جائیں گے تب تک ہم کسی نوکری کے اہل نہیں ہونگے لیکن یہ ہم نے کبھی سوچا نہیں کہ ہم کیوں پسماندہ ہیں اور دیگر اقوام دنیا سے ہم کیوں روز بروز ترقی میں تنزل کی طرف جارہے ہیں۔ ہم نے کبھی سوچا نہیں کہ ہمارے مسائل کا حل کیا ہے اور ہم کیوں دیگر زبانوں میں اظہار خیال کرتے ہیں جبکہ اپنے مادری زبان میں اظہار خیال نہیں کرسکتے ، ہم سے وہ طوطے بنے ہوئے ہیں جو صرف اپنے مالک کے سیکھائی ہوئی الفاظ کو دہراتاہے جبکہ سمجھ میں کچھ اتانہیں، اور سارا کچھ ایک سوچے سمجھے منصوبےکے تحت ہمارے ساتھ کیا گیاہے، یہ اس لئے کیا جارہاہے کہ یہاں ہمارے ہاں ان کا استبدادی نظام کا خاتمہ ممکن نہ ہوسکے، کیونکہ انہی نظام کے بانیوں نے ہمارے ذہنوں پر پہردار کھڑے کرکے ہمارے ذہنوں کو منتشر کررکھا ہے۔ان باتوں کا مقصد یہ نہیں ہے کہ غیروں کے زبان سیکھنا بری بات ہے بلکہ موجودہ دور میں دیگر اقوام کی زبان وتمدن کو سیکھنا ضروری ہے لیکن ساتھ ساتھ اپنے مادری زبان اور قومی میراث کو چھوڑنے کی وجہ سے ہم پسماندہ اور دنیا کے جاہل قوم میں شمار ہوتے ہیں۔
یہ اجتماع ایک ایسے وقت میں منعقد ہوگیا ہے جہاں جنوبی ایشا ء کے مختلف علاقوں میں استبدادی نظام نے اپنے پنجے گھاڑی ہے جہاں اکثر لوگ جہالت و مفلسی، غربت و خوف ، بھوک و پیاس، تکالیف و مصائب کی اندر زندگی گزار رہی ہے،اور اسی نظام نے لوگوں کو غلامی کے زنجیروں میں جھکڑ کر باندھا ہے، کیونکہ ان لوگوں کا کوئی چانس نہیں ہے کہ ان مظالم و جہالت سے نکل جائے، لیکن پوچھے تو کون پوچھے، کوئی اور تو ہے نہیں جو ان کے حقوق کو دلائیں ان کو ، یا ان کا بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھاسکیں ، ظاہر سی بات ہے کہ کوئی اور نہیں ہے جو ایسا کرسکےبجز اس کے کہ یہ لوگ اپنا بوجھ خود اٹھالیں اور ٹھان لیں کہ ہم اپنے آزادی و خودمختاری خود حاصل کررہیں گے اور ان مظالم سے چھٹکارا حاصل کریں ، اسی کانفرنس سے ہماری یہی توقع ہے کہ اس کے توسط سے یہی لوگ اپنے مسائل کو اجاگر کرکےپشتوزبان کے قابل قدر و استعداد لوگ اپنے صلاحیتوں کو آگے جانے کے لیے استعمال کریں گے۔ پشتوعالمی امن کانفرنس اس علاقے کے سیاسی و علمی فضا کے لئے ایک مثبت مشعل راہ ہے ، اس طرح کانفرنسوں کاانعقاد تعصب و عناد کی وجہ سے منعقد نہیں ہوتے بلکہ لوگوں کے وسیع تر مفاد کی خاطر اس بابت اس کا انعقاد کیا جاتاہے کہ علاقے میں امن ، محبت و بھائی چارہ اور رواداری کے فضا کو کیسی ترقی دے سکیں، اور ظاہر سی بات ہے کہ ادیب و شعراء اس بات کو بخوبی جانتے و سمجھتے ہیں، اسی کانفرنس میں پشتون قوم پرزور لایا جائے گاکہ علاقے کے دیگر لوگوں ، قوموں اور ملکوں کے ساتھ رواداری کا جذبہ قائم رکھئے تاکہ اسی کے نتیجے میں مشترکہ طور فوائد حاصل کیا جاسکے۔