مخلوط نظام تعلیم (CO-EDUCATION) نسل نوکی بربادی۔( مولانا مجاہد خان ترنگزئی)

0

کچھ دنوں سے سوشل میڈیا پر چند تصاویر زیر گردش ہیں جس میں ایک لڑکا ایک بے ہوش لڑکی کو اُٹھائے ہوئے ہسپتال کی طرف لے جارہے ہوتے ہیں۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق اُسامہ نامی نوجوان لڑکی کی لاش کو لاہور کے ایک نجی ہسپتال میں چھوڑ کر فرار ہوگیا لیکن پولیس نے سی سی ٹی وی کیمرے کی فوٹیج کی مدد سے اس نوجوان کو پکڑ لیا۔ پولیس کے مطابق گجرات کی رہائشی لڑکی گھر سے سوا لاکھ روپے لے کر لاہور آئی تھی کہ اس نے یونیورسٹی کی فیس دے کر ڈگری حاصل کرنی ہے۔مگر تلخ حقیقت یہ تھی کہ لڑکی کی لڑکے سے دوستی وتعلقات تھے۔ لڑکی حاملہ تھی تو لڑکے نے لڑکی کے اسقاط حمل کے لئے رقم کا بھی اسے خود ہی بندوبست کرنے کا کہا۔
لڑکی فیس کے بہانے گھر سے رقم لے کر لاہور آئی تو ملزم لڑکے نے اسے اسقاط حمل کرانے کے لیئے ایک نجی کلینک لے گیا، جہاں لڑکی کو بے ہوش کرنے کے لیئے اِنتھزیا ذیادہ دینے کے باعث طبیعت بگڑنے سے اسکی موت واقع ہوئی۔ جس پر اُسامہ اسے کلینک سے اُٹھا کرکار پر نواب ٹاؤن میں ہسپتال لے آیا اور لڑکی کو مردہ حالت میں وہاں چھوڑ کر فرار ہوگیا۔ ذراسوچئے یہ واقعہ رونگھٹے کھڑے کرنے والی ہماری جدید مغرب زدہ کو-ایجوکیشن سسٹم کا ایک بھیانک حقیقت ہے جو کہ والدین کے لیئے ایک الارمنگ سگنل بھی ہے کہ اولاد کو ایسی آزادانہ اور نامحرم سے اختلاط کے ماحول میں چھوڑنا گویا اولاد کو موت کے منہ میں دھکیلنا اور اپنے عزت کو تارتار کرانے کے مترادف ہے۔ مخلوط نظام تعلیم کے تباہ کن اثرات کا مشاہدہ کرنا ہوتو موجودہ معاشرے کا جائزہ لیجئے۔کالجوں اور یونیورسٹیوں کے حوالے سے شائع ہونے والی خبریں پڑھئے، شاید ہی کسی دن کے اخبارات اور سوشل میڈیا ایسے خبروں سے خالی ہوں جن میں مخلوط نظام تعلیم کے کسی برے اثر کا تذکرہ نہ رہتا ہوں۔
ہم مسلمان ہے اور ہماری دین اسلام ہے۔ اور مسلمان کہتے ہے تابعداد کو،گردن نہاد کو۔ مسلمان اسلام کے احکامات اور رسول اللہﷺ کے سنت طریقوں وہدایات کو گردن نہاد ہوگا۔ اسلام جس طرح مردوں کے لیے تعلیم کو ضروری قرار دیتا ہے، اسی طرح تعلیم نسواں کی اہمیت کوبھی تسلیم کرتا ہے۔ چنانچہ علم وتعلیم طلب کرنامرد وعورت دونوں پر فرض کیا گیا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے خواتین کی تعلیم کی ترغیب دیتے ہوئے فرمایا، ”اگر کسی کے پاس کوئی لونڈی ہوا ور وہ اس کی اچھی تعلیم وتربیت کرے، اور اسے اچھی تہذیب سکھائے،پھر اسے آزاد کرے، اور اس کی شادی کردے تو اس کے لیئے دہرا اجر ہے۔ نیز آپ ﷺ نے خواتین کی تعلیم کے لیئے مستقل ایک دن مقرر فرمایا تھا۔ حدیث پاک میں ہے کہ بعض عورتوں نے نبی کریم ﷺ سے عرض کیا کہ آپ ﷺ کے پاس ہمیشہ مردوں کا ہجوم رہتا ہے، لہذا آپ ہماری تعلیم کے لیئے الگ سے ایک دن مقرر کیجئے۔آپ نے خواتین کی گذارش کو قبول فرمائی اور ان کے لئے ایک دن مقرر فرمایا، اس دن آپ اُن کے پاس تشریف لے جاتے اور انہیں وعظ ونصیحت فرماتے تھے۔
مذکورہ وضاحت سے یہ بات تو الم نشرح ہوجاتی ہے کہ اسلا م جس طرح صنف نازک کو دیگر حقوق بخشنے میں بالکل عادلانہ اور فیاضانہ مزاج رکھتا ہے، ویسے ہی اس کے تعلیمی حقوق کو نہ صرف تسلیم کرتا ہے، بلکہ عملی سطح پر انہیں عطا کرنے کا بھی حد سے زیادہ اہتمام کرتا ہے۔ لیکن جہاں تک بات ہے خواتین کے موجود مخلوط نظامِ تعلیم یعنی کو-ایجوکیشن کا جو کہ مغرب سے درآمد (Import)کردہ ہے اور جو مشرق درحقیقت مغرب کی فکر گستاخ کا عکاس، خاتون مشرق کو لیلائے مغرب کی طرح ہوس زدہ نگاہوں کی لذت اندوزی کا سامان بنانے کی ہمہ گیر اور گھناؤ نی سازش اور اس کی چادر عصمت وعفت کو تارتار کرنے کی شیطانی چال ہے، اس کی دین اسلام تو کبھی بھی حوصلہ افزائی نہیں کر سکتا، کیونکہ اسلام عفت وپاکدامنی کے تحفظ کو بنیادی اہمیت دیتا ہے اور ہر اس طرزعمل پر روک لگاتا ہے جس سے انسانی معاشرے میں بے حیائی در آتی ہو۔ اس لیے اسلام نہ صرف مخلوط نظام کا قائل نہیں ہے بلکہ اسے انسانی معاشرہ کیلئے زہر قاتل قرار دیتا ہے۔ نیز عقل دانا بھی اس سے پناہ مانگتی ہوئی نظر آتی ہے۔
قارئین کرام یہ بات بھی نوٹ کرلے کہ یہ مخلوط تعلیمی نظام برسوں پُرانا بھی نہیں ہے۔ یہ دور حاضر کے اہل مغرب کی ایجاد ہے۔ دنیا کی قدیم تہذیبوں کے حامل ترقی یا فتہ قوموں میں بھی مخلوط تعلیم کا رواج نہیں ملتا۔تاریخ کے ہر دور میں لڑکوں اور لڑکیوں کے الگ الگ نظام تعلیم رائج تھا، اس سلسلہ میں احمد یونس کا یہ اقتباس بڑا چسم کشا ہے: ”تاریخ انسان میں مغربی تہذیب کا دورہ وہ جدید دور ہے جس میں پہلی بار مخلوط تعلیم کو ملک کے نظام تعلیم کے ایک لازمی اور مستقل جُز کی حیثیت سے اختیار کیا گیا ہے، یونانی بہت ترقی یافتہ تھے، آزادی نسواں کے بھی قائل تھے، لیکن ان کے پاس مخلوط تعلیم کاکوئی تصور نہیں تھا، چین کا نظام تعلیم ہر دور میں ترقی یا فتہ رہا، لیکن مخلوط تعلیم کا کوئی سُراغ ان کی تاریخ میں بھی نہیں ملتا، حتیٰ کہ مغربی تہذیب کے اولین دور میں بھی اس کا کوئی مستقل وجود نہیں تھا۔ مخلوط تعلیم کی ابتداء ایک مستقل نظام کی حیثیت سے اٹھارہویں صدی کے اواخر میں ہوئی، تاریخ بتاتی ہے کہ تہذیب انسان کے تقریباً سب ہی ادوار میں یونان و روم کی تہذیبوں میں اور خود مغرب میں اٹھارہویں صدی کے آواخرتک عورتوں اور مردوں کی تقسیم کا ر موجود رہی ہے، معاشی،سیاسی اور فکری میدانوں میں رہنمائی مردوں کاکام تھا، گھرداری اور بچوں کی پرورش عورتوں کاکام“۔(انسائکلوپیڈیا سوشل سائنس: ص 614)
مخلوط نظام تعلیم کا آغاز مساوات مرد وزن کے پُر فریب نعرے سے ہوا۔اللہ تعالیٰ نے تخلیقی طور اور مردوں کے درمیان صلاحیتوں کے اعتبار سے فرق رکھا ہے، جس کا تقاضہ یہ ہے کہ دونوں کا دائرہ کا الگ الگ ہو، لیکن صنعتی انقلاب کے بعد جب سرمایہ داروں کیلئے ذیادہ عملہ کی ضرورت پیش آئی تو کم ازکم معاوضہ میں ذیادہ کام کروانے کیلئے خواتین کو آزادئ نسواں کے پُر فریب دام میں پھانس کر انہیں مردوں کے شانہ بشانہ لاکھڑا کیا گیا۔ انسانی معاشرے میں جب مردوخواتین میں سے ہر ایک کا دائرہ کار الگ الگ ہے اور دونوں کی ذمہ داریاں بھی مختلف ہیں تو دونوں کا نظام تعلیم بھی علیحدہ ہونا چاہیئے۔
مخلوط نظام تعلیم کا سب سے برا اثر نئی نسل کے اخلاق پر پڑ رہاہے۔ کو-ایجوکیشن کے رواج نے بچوں کے اخلاق کی مٹی پلید کردی ہے۔ شرم وحیاء جو انسان کا سب سے قیمتی زیورہے، رخصت ہوتا جارہاہے۔ قریب البلوغ کازمانہ جذبات میں ہیجان کادور ہوتا ہے،اس عرصہ میں نوخیز اور نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کاایک ساتھ مل بیٹھنا اور بے حجابانہ میل وجول شہوانی جذبات کو بھڑکا کر ہیجانی کیفیت میں مبتلا کردیتا ہے، پھر لڑکیوں کا مختصر لباس میں بن سنور کر آنا جلتی پر تیل کاکام کرتا ہے۔ کسی نے بجاکہاکہ آج آزادانہ اختلاط اس حد کو پہنچ چکاہے کہ تعلیم وتحقیق کے راستے سے شیطانیت رقص کررہی ہے۔ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں اس قدر جنسی بے راہ روی کا ماحول ہے کہ ایک آدمی شرم کے مارے پانی پانی ہو جاتا ہے۔ مغربی اباحیت پسندی کے ماحول میں یونیورسٹیوں کے لڑکے اور لڑکیاں ایک دوسرے اس قدر بے تکلف اور قریب ہوجاتے ہیں کہ سارے فاصلوں کو ختم کرکے گناہوں کے سمندر میں غوطہ زن ہوجاتے ہیں۔
مخلوط نظام تعلیم کی وجہ سے درسگاہیں معاشقی کے اڈے بنے ہوئے ہیں۔ عاشق صاحب کو یا لیلی جی کو تعلیم تو کجُا کھانا بھی اچھا نہیں لگتا، یہاں تک کے جن ماں باپ کی شفقت کے ہر گھڑی گیت گائے جاتے تھے اگر وہ اِس امر سے روکیں یا ٹوکیں تو وہی والدین زہر لگنے لگتے ہیں اور اگر سختی کریں تویہ ماں باپ کی عزت کو روند کر گھر سے بھاگ جانے سے بھی دریغ نہیں کرتے اور پھر جو رسوائی مقدر ہوتی ہے تو ماں باپ اسیے اولاد کو بددعاء کرتی نظر آتی ہے۔ اور خود یورپ بھی اب مخلوط نظام تعلیم کے گھناؤ نے سسٹم سے تنگ آچکاہے۔
عورت بیوی، ماں اور بیٹی کی حیثیت سے گھر کی زینت ہے لیکن مخلوط نظام تعلیم نے اس کو اس کے دائرہ کار سے نکال کر مردوں کے شانہ بشانہ معاشی دوڑ میں شامل کردیا۔ جس سے بتدریج عورت بچوں کی تربیت اور گھریلو اُمور کی انجام دہی کو اپنے لیے بوجھ سمجھنے لگی۔ صنف نازک کے اس رحجان نے خاندانی بنیادوں کو کھوکھلا کرکے رکھ دیا۔ علاوہ ازیں مخلوط تعلیم کے نتیجہ میں شادی کی بندھنوں سے آزاد ہوکر شہوت رانی کی جوراہ نکالی جارہی ہے اس نے تو انسانی وجود ہی پر سوالیہ نشان لگادیا۔ دوران تعلیم مختلف جوانوں کے ساتھ مٹرگشتی کرنے والی لڑکیاں جب ازدواجی بندھن میں بندھ جاتی ہیں تو انہیں کسی صورت تسکین ملتی نظر نہیں آتی، بالآخر خلع کا راستہ اپناتی ہے یا پھر شوہر طلاق دے دیتا ہے۔
بہرحال کو-ایجوکیشن ہمارے معاشرے کا ایساناسور ہے جس کی بدبو سے تمام معاشرہ میں تعفن پھیلتا جارہا ہے۔اور یہ حال ہی میں واقعہ اس کی واضح دلیل ہے۔ مخلوط نظام تعلیم کی ان تمام تر خباثتوں اور مضر اثرات کے باوجود بھی اگر لڑکیوں کوان ہی اداروں میں اسی طرح ’’روشن خیال‘‘ اور ’’مہذب‘‘ بنانے کی دوڑ جاری رہی ، اور چراغِ خانہ کو شمعِ محفل بنانے کا عمل یوں ہی جاری رہا تو ڈر ہے کہ کہیں ان کے ارتداداور ان کی عزت و ناموس کی پامالی کے روح فرسا واقعات بڑھتے نہ چلے جائیں۔ لڑکیوں کو تعلیم ضرور دی جائے لیکن ایسی تعلیم جو ان کی فطرت اور اسلامی تعلیمات کے مطابق ہو۔ ایک بات اور کہ اس واقعہ پر میڈیا والے اور لبرل طبقہ جو موم بتیاں جلاکر مگر مجھ کے آنسو بہاتی ہے اور دیگر مغرب سے متاثر غلام نظر نہیں آرہے۔ کیونکہ یہ یک یونیورسٹی کا واقعہ ہے، خدانخواستہ یہ اگر کسی دینی مدرسے کا واقعہ ہوتا تو اب تک یہ زر خرید میڈیا اینکر پرسنز، لبرل طبقہ اور مغرب سے متاثر غلام کہرام مچاتے۔ مگر اب وہ دور بین میں بھی نظر نہیں آرہے۔ یہی ان لوگوں کا اصل چہرہ ہے۔ بہرحال جو کام اللہ ورسول ﷺ کو ناپسندہوں کسی غیرت مند مسلمان کو پسند نہیں ہوسکتا۔اپنی بچیوں کو لڑکوں کے ساتھ پڑھوانا روشن خیالی نہیں بے بلکہ اپنے عزت کو نیلام کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے حال اور نسل نو پر رحم فرمائے۔ امین

You might also like
Leave A Reply

Your email address will not be published.