کرونا وائرس کے متاثرین کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور اب تک دنیا بھر میں تین کروڑ 20 لاکھ افراد اس سے متاثر ہو چکے ہیں۔موسم سرما کے آغاز کے ساتھ ہی دنیا کے بیش تر شمالی ممالک میں کورونا کی دوسری لہر دیکھنے میں آئی اور لوگ روز بہ روز اس سے متاثر ہو رہے ہیں۔کیاکروناکی ویکسین دنیا بھر میں لاکھوں اموات کو ہونے سے روک سکتی ہے یہ کہنا قبل از وقت ہے۔عالمی ادارہ صحت کے ہنگامی صورت حال کے شعبے کے سربراہ ڈاکٹر مائیک ریان کے مطابق علاج میں بہتری کے ساتھ اموات کی شرح میں کمی آرہی ہے۔ لیکن اچھا علاج اور ایک موثر ویکسین شاید ان اموات کوبیس لاکھ تک پہنچنے سے روکنے کے لیے کافی نہ ہو۔ہر ملک کے حکّام کو ویکسین دینے کے ضمن میں ترجیحات کا تعیّن کرنااور اس پر سختی سے عمل درآمد کرانا ہوگا ورنہ انتشار اور بد امنی کے امکانات پیدا ہوسکتے ہیں۔ حکّام کو یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ ویکسین کی کسیزیادہ ضرورت ہے؟ کون سے سب سے زیادہ خطرے والے گروہ ہیں؟ اور سب سے زیادہ ترجیح والے کون سے ہیں؟ماہرین کے بہ قول یہ بات بالکل واضح ہے کہ ابتدائی ویکسین کی طلب، رسد سیکہیں زیادہ ہو گی،اس لیے متعلقہ ممکنہ مسائل کا حل پہلے سے سوچنا ہوگا۔دوسری جانب کرونا وائرس کی ویکسین حاصل کرنے کی عالمی دوڑ تیز تر ہوتی جا رہی ہے۔ امیر ممالک ویکسین کی خوراکوں پر جھپٹ رہے ہیں۔ اس ویکسین نیشنل ازم یعنی صرف اپنے ملک کی فکر سے ایسا مقابلہ جنم لے رہا ہے جس میں کم آمدن والے ملک شاید بہت پیچھے رہ جائیں۔ مگر اس سے فائدہ امیر ممالک کو شاید بہت زیادہ نہ ہو۔قبل ازیں عالمی ادارہ صحت نے خدشہ ظاہر کر چکا ہے کہ عالمی وبا قرار دیے جانے والے کووڈ 19 سے بچاؤ کی ویکسین کے حصول کی دوڑ میں غربا روندے جا سکتے ہیں. اقوام متحدہ کے ورچوئل اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے عالمی ادارہ صحت کے سربراہ ڈاکٹر ٹیڈروس ایڈہانوم نے کہا کہ امیر ممالک جب ویکسین کے حصول کی دوڑ شروع کریں گے تو اس میں غربا کے روندے جانے کے خدشے نکا اظہار کیا تھا۔انہوں نے کہا کہ ایک ایسے وقت میں جب امیر ممالک ویکسین متعارف کرانے جارہے ہیں تو ایسے میں غربا کو نظرانداز کیے جانے کا بھی خطرہ موجود ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے سربراہ نے موجودہ صورتحال کو بحران سے تشبیہ دیتے ہوئے کہا کہ اس کے حل میں سب کو برابر کا حصہ دار بننا چاہیے۔جبکہ اقوام متحدہ کے تعاون سے کنسورشیم تشکیل دیا گیا ہے جس کا مقصد ویکسین کی دنیا بھر میں مساوی تقسیم کو یقینی بنانا ہے۔کرونا ویکسین کی تقسیم کے دوران امیر اور غریب ممالک کے درمیان واضح فرق دکھائی دے رہا ہے۔ امریکا، برطانیہ اور کینیڈا ویکسین کی اس دوڑ میں سب سے آگے ہیں۔ تاہم غریب ممالک کو ویکسین کے حصول کے لیے طویل راستہ طے کرنا ہو گا۔ مزید برآں ویکسین کی ترسیل کے حوالے سے اب تک کسی حتمی سودے کی تصدیق نہیں ہوئی ہے اور غریب ممالک کے پاس اس کے لیے مالی وسائل کی کمی پائی جاتی ہے۔ اگرچہ کمزور معیشتوں کے حامل ممالک بھی کورونا کی وبا سے شدید متاثر ہوئے اور غریب ممالک میں صحت کے ناقص نظام کے سبب کورونا کے شکار ہو کر مرنے والوں کی تعداد بھی بہت زیادہ رہی ہے، تب بھی کووڈ 19 کے خلاف ویکسینیشن کے اولین حقدار امیر ملکوں کے عوام ہی نظر آ رہے ہیں۔چند ماہرین ان امکانات کا اظہار کر رہے ہیں کہ کورونا کے خلاف ویکسین کی امیر ممالک میں فراہمی منصفانہ اور اشتراک کے ساتھ ہو گی۔ فی الحال ویکسین محدود مقدار میں تیار ہوئی ہے اور ترقی یافتہ ممالک میں سے چند نے اس ویکسین کی تیاری پر سرمایہ کاری بھی کی ہے۔ اس ویکسین کی تیاری کے لیے ہونے والی تحقیق پر ان ممالک نے ٹیکس دہندگان کے پیسے بھی لگائے ہیں اس لیے ان کی حکومتوں پر شدید دباؤ ہے کہ وہ سب سے پہلے ویکسین خریدیں اور عوام کو فراہم کریں۔
ایک طرف دنیا بھر کی دوا ساز کمپنیاں کرونا ویکسین کی تیاری اور اقوام ان کی خریداری کی دوڑ میں پیش پیش ہیں وہیں کچھ مسلم معاشروں میں ویکسین کے حلال اور حرام ہونے پر بحث جاری ہے۔ انڈونیشیا کے سفارت کاروں اور علما پر مشتمل ایک وفد چین پہنچا تھا۔ سفارت کاروں کا مقصد انڈونیشیا کے شہریوں کے لیے کرونا (کرونا) کی ویکسین کی خریداری کے سودے کو حتمی شکل دینا تھا، لیکن وفد میں شامل علما کا مقصد کچھ اور ہی تھا، یعنی اس بات کو یقینی بنانا کہ چین میں تیار ہونے والی یہ ویکسین ’حلال‘ یا اسلامی قانون کے مطابق قابل استعمال ہے یا نہیں۔ایک طرف دنیا بھر کی دوا ساز کمپنیاں کرونا ویکسین کی تیاری اور اقوام ان کی خریداری کی دوڑ میں پیش پیش ہیں، وہیں کچھ مسلم معاشروں میں ویکسین کے لیے سور کی مصنوعات کے استعمال پر اس کے حلال اور حرام ہونے پر بحث جاری ہے۔ کچھ کمپنیاں پورک فری ویکسین تیار کرنے کے لیے برسوں سے کام کر رہی ہیں جن میں سوئس دوا ساز کمپنی ’نوارٹس‘ شامل ہے، جس نے گردن توڑ بخار کی سور سے پاک ویکسین تیار کی ہے جبکہ سعودی عرب اور ملائیشیا میں قائم دوا ساز کمپنی ’اے جے فارما‘ اس وقت اپنی ایک ویکسین پر کام کر رہی ہیں۔لیکن برٹش اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن کے جنرل سکریٹری ڈاکٹر سلمان وقار کے مطابق سپلائی کی موجودہ چینز، لاگت اور ویکسینز کے کم عرصے موثر رہنے کی خصوصیت کا مطلب یہ ہے کہ خنزیرکے اجزا کا استعمال سالوں تک اکثر ویکسینز میں جاری رہے گا۔اس کے باوجود اس مسئلے پر متضاد رائے سامنے آئی ہیں۔ ملائیشیا میں سخت قوانین نافذ کیے گئے ہیں اور ویکسین سے انکار کرنے والے والدین کو قید اور جرمانے کی سزائیں دی گئیں۔ پاکستان میں بھی والدین کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلانے سے انکار کرنے پر جیل بھیجا جا سکتا ہے۔پاکستان کو آہنی دوست چین سے 5 لاکھ انسداد کرونا ویکسین کا تحفہ ملنا خوش آئند بات ہے جس کیلئے ہم چین کے نہایت مشکور ہے۔ پاک چین دوستی اپنی مثال آپ ہے۔ اسے ہمالیہ سے بلند اور سمندر سے بھی گہرا ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ چین نے ہمیشہ ہر مشکل گھڑی میں پاکستان کا ساتھ دیا ہے۔ پاکستان نے بھی ہمیشہ چین کی ہر مسئلے میں حمایت کی ہے۔ کرونا کی وبا نے دنیا بھر کو ہلا کررکھ دیا ہے۔ چین نے نہایت جانفشانی سے سخت حفاظتی اقدامات کی بدولت اس پر قابو پایا۔ اس کے ساتھ ساتھ اس کے علاج کے لیے ویکسین کی تیاری کا کام بھی زور و شور سے جاری رکھا۔ یہی وجہ ہے کہ ایک سال کے قلیل عرصہ میں چین نے کرونا کیخلاف ویکسین بنا لی ہے۔ ویکسین بنانے میں کامیابی کے بعد چین نے پاکستان کو اس وبا سے بچاؤ کے لیے کرونا کے علاج کے لیے 5 لاکھ ویکسین کا تحفہ دیا ہے جو چین کی پاکستان سے دوستی کا لازوال اظہار ہے۔ ویکسین پاکستان کے حوالے کرنے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چین میں پاکستان کے سفیر نونگ رونگ نے کہا کہ پاکستان کو وبا سے پاک کرنے اور معیشت کی بحالی کے ساتھ سماجی ترقی میں بھی چین پاکستان کا ساتھ دینے کو تیار ہے۔ یہ ویکسین چینی صدر کے حکم پر پاکستان بھجوائی گئی ہے جو ان کی پاکستانیوں سے محبت کا ثبوت ہے۔