آخری جنگ میں اخونددرویزہ نے خود پیر تاریک کے بیٹوں کو شکست سے ایسادوچار کیا کہ اس کا بڑا بیٹاشیخ عمر قتل ہوااوراس کے دوسرے بھائی بھاگنے پر ایسے مجبور ہوئے کہ دربدر جاکر عوام کی غیض وغضب کا شکارہوئے اور عوام ہی کے ہاتھوں راہی ملک عدم ہوگئے اور پیرتاریک کی تحریک کو پورے علاقہ میں ہمیشہ کے لئے نیست ونابود ہونا پڑا۔افغانستان میں پشتو ادب کے ایک ماہر اسماعیل سڑبن اپنی کتاب ”پہ پختو ادب کی د اخونددرویزہ او د دہ د پیروانوادبی مقام“میں لکھتے ہیں کہ مغل حکمرانوں نے پختونخواہ کے علاقہ میں سیدعلی ترمذی اور اس کے شاگرد اخونددرویزہ کو اس لئے بھیجا تاکہ فرقہ وارانہ مباحثوں عرفانی مجادلوں اور تصوفی مقابلوں میں شکست دے کر اس کے پشتون پیروکاروں اورمریدوں کو ان سے پھیر دیں،ان کو آپس میں لڑاکر کمزور کردیں اور آزادقبائل کی اکثریت کو جو پیرروخان کی قیادت اور رہنمائی میں پختونخواہ کے علاقوں میں متحدومتفق ہوچکے ہیں جن کا یہ اتحاد واتفاق آئندہ جاکر مغل حکمرانوں کے لئے بہت بڑی طاقت اور خطرہ بن سکتا ہے، انہیں آپس میں لڑاکر ضعیف اورکمزورکریں، سید علی ترمذی بونیرمیں چنددن ٹھہرنے کے بعد اخونددرویزہ کے ساتھ اکٹھے اکبر بادشاہ کی ملاقات کے لئے اس کے پاس دہلی حاضرہوئے اور اس سے نئے ہدایات لے کر ہندوستان سے واپس پختونخواہ کی طرف روانہ ہوئے،توراستہ میں سید علی ترمذی اپنے والد (قنبر)سے سونے چاندی کے دوتھیلے ساتھ لائے جوراستہ میں شیر شاہ سوری کے فوجیوں نے ان سے چھین لئے“پھر آگے لکھتے ہیں کہ پیربابا بے سروسامانی کے عالم میں یہاں کیسے زندگی گزارتے رہے نہ یہاں انہوں نے کسی سوال کیا نہ کوئی محنت ومزدوری کا پیشہ اختیار کیااور نہ کسی کے محتاج ہوئے اس کی کیاوجہ ہوسکتی ہے؟کیونکہ انہیں مغل حکمرانوں سے پیسے ملتے رہے جس پران کی زندگی گزرتی رہی اور یہاں کے وہ ملک وخوانین اور وہ طبقہ جو اندر سے مغل حکمرانوں سے ملاہواتھا ان کے مالی تعاون سے پیرباباکی زندگی کانظام چلتا رہا،یہی وجہ ہے کہ انہوں نے زندگی گزارنے کے لئے معاشی تکالیف اور سختیاں نہیں دیکھیں،بلکہ ملک وخوانین اور بعض قبیلوں کے تفوق طلب رئیسوں نے سیدعلی ترمذی اور اخونددرویزہ کا اچھے طریقہ سے استقبال کیا اور ان کی زندگی کے تمام وسائل،معیشت وخواراک،کپڑے اور دیگر ضروریات وسہولیات ان کو مہیاکیں،اخونددرویزہ کی تبلیغی ضروریات کو پوراکرنے اور پیرروخان کی تحریک کو مٹانے کے لئے انہیں ہرقسم کی سہولیات فراہم کی گئیں جن سے وہ شعوری اور لاشعوری طورپر مستفید ہوتے رہے اور پیرروخان کے خلاف مناظروں کے ساتھ ساتھ کتابیں بھی لکھتے رہے۔“کمیونسٹوں کی گودمیں پلے ہوئے اس موصوف نے ڈھائی سوصفحات کی کتاب حضرت اخونددرویزہ کی ادبی خدمات کے نام سے لکھی ہے لیکن اس کے اندر حضرت اخوندصاحب ؒاور ان کے پیرومرشدحضرت پیرباباؒ پر وہ بدبودار اور گھٹیاقسم کے الزمات لگائے ہیں کہ پاکستانی قوم پرستوں کوبھی سوسال پیچھے دھکیل دیاہے۔موصوف نے یاتو تاریخ کامطالعہ نہیں کیا اور یا جان بوجھ کر جھوٹ لکھنے پراس لئے تلے ہوئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے ان نیک اور برگزیدہ بندوں کو بدنام کرکے عوام کو ان سے بدظن کرلیاجائے،حضرت پیرباباؒ کے جس واقعہ کی طرف موصوف نے اشارہ کیا ہے وہ ہندوستان سے آنے کا نہیں بلکہ ہندوستان سے آکر گجرات سے پھر واپس اپنے پیر ومرشد سالاررومی کے پاس جانے کا واقعہ ہے، اس وقت اکبر کی نہیں ہمایوں کی حکومت تھی بلکہ اس کی حکومت کا بھی شیر شاہ سوری خاتمہ کرچکے تھے اور ہمایوں دربدر ہوکر سرچھپانے کے لئے جگہ ڈھونڈرہے تھے،اخونددرویزہ اس وقت 13 سال کے بچے تھے،انہیں ابھی تک پیرباباکے بارہ میں کوئی علم ہی نہیں تھا،دوسری بات یہ ہے کہ حضرت پیر بابا جب سے بونیر تشریف لائے ہیں اس کے بعد وہ ہندوستان نہیں گئے اور نہ ہی کسی حکمران سے کوئی ملاقات کی ہے،اس دوران انہوں نے صرف ایک سفرکیا ہے وہ بھی اپنے وطن جاکر اپنی والدہ ماجدہ سے ملے ہیں اس کے علاوہ وہ بونیر سے باہر نکلے ہی نہیں،نہ ہی اخونددرویزہ باباؒ نے کسی حکمران سے ملاقات کی ہے اور نہ پیرباباکے ساتھ کسی ایسے سفرمیں گئے ہیں۔لیکن اس شخص کوایک جھوٹ کو ثابت کرنے کے لئے کتنے جھوٹ گھڑنے کی ضرورت پڑی ہے،تاکہ آئندہ آنے والی نسلوں کو ان بزرگوں کے بارے میں بدظن اور متنفر کیا جاسکے۔ایک جھوٹے مدعی نبوت،دجالِ پختونخواہ، پیرتاریک کے دفاع میں یہ لوگ کس قدر اندھے ہوچکے ہیں کہ نہ انہیں تاریخی حقائق مسخ کرنے سے شرم آتی ہے نہ اللہ تعالیٰ سے شرماتے ہیں،اور نہ تاریخ کے ان طالب علموں سے انہیں حیاآتی ہے جو ان کے جھوٹ کا پول کھول کھول کر ان کی اصلیت کوظاہرکرتے ہوئے ان کو قیامت تک شرمندہ اور سرنگوں کرتے رہیں گے۔ ان بندگانِ حرصِ وہوا کو یہ نہیں معلوم کہ اللہ والے پیٹ کے لئے نہیں پھرتے وہ اللہ کی مخلوق کی ہدایت کے لئے ویرانوں جنگلوں اور بیابانوں میں جہاں کہیں بھی قدم رکھتے ہیں وہاں رزق توکیا بلکہ سونا اگلنا شروع ہوجاتا ہے،وہ ویرانے ہمیشہ کے لئے آباد ہوجاتے ہیں،ان کا رزق ان کے پاس اللہ کے خزانوں سے جھک جھک کراطراف عالم سے پہنچ آتاہے۔اگر پیربابا ؒاور اخوند درویزہ باباؒ مغل حکمرانوں کے ایجنٹ ہوتے تو صدیوں تک لوگوں کے دلوں میں ان کا احترام اور بے پناہ محبت نہ ہوتی بلکہ مرنے کے ساتھ ہی لوگ انہیں بھول چکے ہوتے لیکن آج ساڑھے چاربلکہ پانچ سوسال بعد ان کانام لینے والا کوئی نہ ہوتا، مگر عجیب بات یہ ہے جس کو مخالفین پختون قوم کا نجات دہندہ،ہیرو،پیر طریقت اور پختون قوم کا خیرخواہ سمجھتے ہیں اس کا آج تک کوئی نام لیوا نہیں (اب کمیونسٹوں کی پیہم کوششوں اور قوم پرستی کے ناسور سے پیداہونے والے بدبودارانڈوں میں سے کچھ چوزے پدک پدک کر باہر آرہے ہیں،لینن اور ماکس کے نظرئیے سے جنم لینے والے چند آزادخیال اوردین بیزار جنم لے رہے ہیں)اور جن برگزیدہ ہستیوں کوپختون قوم کا دشمن سمجھتے ہیں ان کا احترام صدیوں تک ہر مسلمان کے دل میں موجود ہے،پیرباباؒکے مزار پر جاکر دیکھو لوگوں کاہجوم ہے کہ گزشتہ پانچ سوسالوں سے تھمنے کانام ہی نہیں لیتااور یہی حال حضرت اخونددرویزہ باباؒکا ہے،مگر پیرتاریک کی قبر کی جگہ بھی کسی کو معلوم نہیں کہ کہاں دفن ہے؟ یہ خدائی تقسیم ہے جن لوگوں نے خالص اللہ تعالیٰ کی رضااور اس کے دین کی اشاعت کے لئے قربانیاں پیش کی ہیں،مناظرے کئے ہیں،میدان جہاد کو گرم کیاہے،لوگوں کے طعنے سن کر بھی دین کی خدمت سے پیچھے نہیں ہٹے ان کی تعلیمات آج بھی زندہ ہیں اور ان کے ساتھ آج بھی لوگوں کی عقیدت ہے۔پیرتاریک کو کوئی بھی عقل مندپسند نہیں کرتا سوائے چندسطحی سوچ رکھنے والے دین بیزارلوگوں کے، اور اس قسم کے لوگ تو ہر جگہ پائے جاتے ہیں اگر آج کچھ لوگ مرزاغلام احمدقادیانی جیسے غلیظ شخص کو اپنا رہبر اور پیغمبرمانتے ہیں،تو بایزید کے ماننے والے بھی تو ہوسکتے ہیں،اگر آج دنیا میں کچھ لوگ شیطان اورانسانی آلہ تناسل کی پوجا کرنے کو عبادت اورسعادت سمجھتے ہیں تو بایزید پھر بھی انسان تھا اس کے پیروکاروں کا وجود کوئی اچھنبے کی بات نہیں۔ پیرتاریک اگر واقعی پیر ہوتا،یا وہ پختونوں کا سچا خیرخواہ ہوتا تو تحرکیں قربانیوں سے بڑھتی ہیں ختم نہیں ہوتیں،بایزیدکے بیٹوں اور پوتوں کی قربانیوں سے تحریک ختم نہ ہوتی بلکہ اس میں ایک نیا جذبہ،جوش اور ولولہ پیداہوتا،تحریک آگے بڑھتی۔تاریخ اسلام پر نظردوڑائی جائے تو صاف نظرآئے گا کہ جس تحریک میں تحریک والوں کا خون بہہ جائے ان کی زندگیاں کام آجائیں تو وہ تحریکیں وقتی طورپر تو دب سکتی ہیں لیکن ختم نہیں ہوتیں،بشرطیکہ وہ تحریک نظریاتی طورپردرست ہو،اگر معترضین اپنے دعووں میں سچے ہیں پھر تو آج پیربابا ؒاور اخوند درویزہؒ کی جگہ پورے صوبہ میں بایزید اور اس کے بیٹوں کے چرچے ہوتے ان کا احترام ہوتا لوگوں میں ان کی عقیدت پائی جاتی،اس کے عقائد کی شہرت ہوتی مگر معاملہ اس کے برعکس ہے بلکہ روس کے کمیونسٹ انقلاب تک تو پیرتاریک کانام لینے ولابھی کوئی نہیں تھا،کمیونسٹوں کے ایماپر قوم پرستوں نے چارسو سال بعد اسے بھولے بسرے گڑھے سے نکال کر قوم پرستوں کے سامنے رکھا،اس کی کتاب خیرالبیان جو تاریکی تحریک کی اساس وبنیاد تھی وہ بھی پاکستان وافغانستان کے تمام پختونوں میں سے کسی کے پاس بھی نہیں تھی،یہ تو قیام پاکستان کے بعدپشتو اکیڈمی پشاور کے مولاناعبدالقادر جرمنی میں کسی لائبریری کے کسی کونے سے نکال کرلائے اور پشتو اکیڈمی پشاور سے شائع کرکے پیرتاریک کو ایک بارپھر زندہ کرنے میں کامیابہوگئے ورنہ پیرتاریک تو تاریخ کی تاریکیوں میں ایسا ڈوب گیا تھا کہ اسے کوئی جانتا تک نہیں تھا۔جس صاف معلوم ہوتا ہے کہ پیرباباؒاور اخوندباباؒ حق پر تھے،ان کے ساتھ اللہ کی نصرت شامل حال تھی کہ ایک طرف ایک منظم گروہ اور دوسری طرف چند علماء جو بے سروسامانی کے عالم میں تھے مگر اس منظم گروہ پر غالب آگئے اور اس کا نام ونشان تک مٹاڈالا۔ اخونددرویزہ ؒاور ان کے پیر مرشد حضرت پیرباباؒ کے بارہ میں آج صدیوں بعد بھی لوگ گواہی دیتے ہیں کہ وہ دنیادار اور ہوس پرست نہیں تھے بلکہ وہ اللہ والے لوگ تھے اور ایسے لوگ حق کے مقابلہ میں بادشاہوں کو تو کجا اپنے ماں باپ کی بھی پرواہ نہیں کرتے۔کسی حکمران یا دولت مند شخص کی ایجنٹی یا تو حکمرانی کے حصول کے لئے کی جاتی ہے یا مال ودولت اور جائیداد بنانے کے لئے،حضرت اخونددرویزہ کے داداشیخ سعدی کو شیخ ملی کی تقسیم کی تیس آدمیوں کے برابر جائیداد دی گئی تھی اور ان کے بیٹے شیخ شرف الدین گدائی باباجب چغرزئی کے علاقہ میں منتقل ہوگئے تو وہاں ان کو دس آدمیوں کے برابر حصہ دیا گیا،یہ ملاکر چالیس آدمیوں کے حصہ کے برابر جائیداد بنتی ہے۔اگر عام آدمی کے پاس دو سوکنال زمین تھی تو اخونددرویزہ کو جوجائیداد وراثت میں ملی تھی وہ آٹھ ہزار کنال پر مشتمل تھی۔جو شاید پوری یوسف زئی قوم میں چند لوگوں کے علاوہ کسی اور کے پاس نہیں تھی،پھر اخونددرویزہ کو کیا ضرورت پڑی تھی کہ وہ کسی بادشاہ کی ایجنٹی کرتے؟ساڑھے چار سوسالہ تاریخ میں پورے ہندوستان کے تمام علماء اس بات پر متفق ہیں کہ اخونددرویزہؒ جیسا ظاہری وباطنی علوم کا ماہر، متقی، پرہیزگار،جرار وبہادر،حق گو اور حق پرست عالم دین پختونوں میں کوئی اور نہیں گزرا،جبکہ حق گو اور حق پرست اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے علاوہ کسی اورکی ایجنٹی نہیں کرتے،اخونددرویزہؒ تو وہ شخص تھے جو حق بات کے اظہار میں کسی کی پرواہ نہیں کرتے تھے،یہاں تک کہ پیربابا جو ان کے پیر ومرشد اورجان سے بھی زیادہ عزیز،محترم ومکرم شخصیت تھے مگر سماع کے مسئلہ میں ان کو بھی ٹوکا۔آخری بات یہ ہے کہ یوسف زئی قوم اکبر بادشاہ کی مخالف تھی اگر اخونددرویزہ ؒاور پیر بابا ان کی مخالفت میں اکبر بادشاہ کے لئے کام کررہے تھے تو یوسف زئی قوم نے ان کی مخالفت کیوں نہیں کی؟وہ تو آج تک ان بزرگوں پر مرمٹنے کے لئے تیار ہیں۔