چٹان
0

کمرتوڑمہنگائی اور نادان حکمران (حافظ مومن خان عثمانی)

 زمانہ بڑی تیزی سے گھوم رہاہے حالات کی تبدیلی میں کوئی زیادہ وقت نہیں لگتااچھے اور برے حالات انسانی زندگی کا حصہ ہیں،25جولائی 2018 ء سے قبل بڑی تعداد میں لوگ خصوصانوجوان طبقہ ڈھول کی تاپ پر تبدیلی کے گن گارہاتھا،ناچ ناچ کر تبدیلی کے ترانے گارہاتھا ”جب آئے گاعمران خان بدلے گاپاکستان“کے سروں نے لوگوں کو ایسامدہوش کررکھاتھا کہ بیٹاباپ،بیوی شوہر،بیٹی ماں اورشاگرد اُستاذکی بات سننے کے لئے تیار نہیں تھا،سب پر تبدیلی کا نشہ شراب کے نشے سے سوگناہ زیادہ سوار تھا،ہرگلی محلے میں ڈیگ بج رہے تھے،نوجوان ناچ رہے تھے،اور تبدیلی سرکار کے ڈائیلاگ سن سن کر مست ہورہے تھے،پڑھے لکھے اور سمجھدار لوگ بھی اس گنگامیں بہنے کو خوش قسمتی سمجھ رہے تھے،الیکٹرانک میڈیا تبدیلی کے اس ڈگڈگوسامری کے جادوسے زیادہ مسحورکن بناکر عوام کے سامنے پیش کررہا تھا،دعووں کی صدائیں مسلسل فضامیں گونج رہی تھیں،سادہ لوح عوام کے ساتھ ایلیٹ کلاس کے برگرزدہ لوگ بھی ان دعوؤں کو صوراسرافیل کی طرح یقینی سمجھ رہے تھے،جنون نے عقل کے سارے دروازے بندکررکھے تھے،جذبات نے سمجھ بوجھ پر گہرے پردے ڈال رکھے تھے،فہم وادراک کے تمام ذرائع مسدودہوچکے تھے،بڑے بڑے ذہین لوگ دھڑادھڑحلقہ بگوشِ پی ٹی آئی ہورہے تھے مسلم لیگ،ق لیگ،جماعت اسلامی، پیپلزپارٹی اور دیگرپارٹیوں کی شاخوں پر بیٹھے ہوئے ابن الوقت،ہوس پرست،اقتدارکے پجاری اور خانہ بدوش سیاست دان اُڑاُڑکر پی ٹی آئی کے سایہ تلے پناہ ڈھونڈنے اور اپنے نمبر بنانے میں مصروف تھے کیونکہ ہرشخص سمجھ بیٹاتھا کہ تبدیلی سرکار کے آتے ہی ملک میں شہداور دودھ کی نہریں جاری ہوجائیں گی،بے زورگاری صفرپر چلی جائے گی،پہاڑوں، جنگلوں،صحراؤں اور بیابانوں میں انڈسٹریاں کھل جائیں گے،ماں کے پیٹ سے نکلتے ہی بچے کے نام نوکری الاٹ ہوجایاکرے گی،ٹیکسوں کا خاتمہ ہوجائے گا،امیر وغریب کا فرق مٹ جائے گا،ارب پتی اور فقیر ایک ہی صف میں کھڑے ہوجائیں گے،درختوں پر پتوں کی جگہ ڈالر لگ جائیں گے،کنووں میں پانی کی جگہ تیل اور پٹرول ابلنے لگے گا،پہاڑوں کے پتھر سونے میں تبدیل ہوجائیں گے،ایک ایک بکری منوں کے حساب سے دودھ دینے لگ جائے گی،ایک بھینس کے دودھ سے پورا محلہ سیراب ہوگا،ایک روپے پر پوراگھرانہ سیر ہوکر عیاشی کرے گا اور بچاہواکھانا غریبوں میں تقسیم کرے گا،گاڑیاں اس قدر سستی ہوجائیں گی کہ ہر مزدور اور ریڑھی والالینڈکروزرواور ویکوگاڑی میں اپنے بیوی بچوں کو لے کر مری کاغان، سوات کالام،مدین،ہنزہ،گلگت اور چترال کے سیر سپاٹے کرتاپھرے گا،،گلی محلے میں بنے ہوئے کھوکے عظیم الشان دوکانوں اور دوکانیں بڑی بڑی فیکٹریوں کی صورت اختیار کرلیں گے،کھاتے پیتے گھرانے لگژری گھروں اور لگژری گاڑیوں میں ایسی عیاشیاں کریں گے کہ لندن،پیرس اور سوئٹز رلینڈ کے لوگ ان پر رشک کریں گے،ملک میں پیسہ اس قدرعام ہوجائے گا کہ ملک میں غریب اوربھیک مانگنے والاکوئی بھی نہیں رہے گا،روپیہ کی قدر اس قدر بڑھ جائے گا کہ ڈالر اس کی ترلے کرے گا،پاکستان اس قدر خوش حال ہوجائے گا کہ لوگ دنیا بھر سے نوکریاں ڈھونڈنے کے لئے پاکستان کا رُخ کریں گے،چنددنوں میں پاکستان اتنااوپر اُٹھ جائے گا کہ مریخ والے بھی سراُٹھااُٹھاکر پاکستان کو دیکھنے کی کوشش کریں گے،حکمران اس قدر سادگی پسند ہوجائیں گے کہ وزیراعظم سائیکل پر دفتر جائے گا،صدروزیراعظم سمیت تمام وزراء جھنڈی والی گاڑی اور پروٹوکول کو گدھے کے گوشت کی طرح حرام سمجھ کر ہمیشہ کے لئے ترک کردیں گے،وزیراور عام مزدور کی تنخواہ برابرہوجائے گی،پندرہ سے بیس افراد پر مشتمل مختصر سی کابینہ ہوگی اور ریاست مدینہ کے مطابق تمام وزراء رات بھر گشت کرتے ہوئے عوامی مسائل حل کرنے کی کوشش کریں گے،وزیراعظم ہاؤس سمیت تمام گورنرہاؤسزکو یونیورسٹیوں میں تبدیل ہوکرایسا اعلیٰ تعلیمی معیار قائم ہوجائے گا جس کے سامنے آکسفورڈ اور کیمرج جیسی یونیورسٹیوں کی کوئی حیثیت نہیں رہے گی،کوچے کوچے میں ہسپتالوں کا جال بچھادیاجائے گا،جس سے ملک میں کوئی شخص بیمار نہیں رہے گا،ملک میں انصاف کابول اتنابالاہوجائے گا کہ دنیاکے کونے کونے سے لوگ دادرسی کے لئے ہمارے پاس آئیں گے،باہر ملکوں میں چور سیاست دانوں کا لوٹے ہوئے دوسوارب ڈالرملک میں واپس آجائیں گے جس سے ملک پر چڑھائے گئے قرضے قرض خواہوں کے منہ پرماردئے جائیں گے،ملک کے اندر روزانہ بارہ ارب کی جوکرپشن ہوتی ہے اور منی لارڈرنگ ہوتی ہے وہ ختم ہوجائے گی جس سے ملک کے کونے کونے میں ایسی خوشخالی پھیل جائے گی کہ ہر شخص شہزادوں والی زندگی گزارنے لگے گا اور عرب شہزادے پاکستانیوں کے جوتے صاف کریں گے،مغرب کے گورے پاکستانیوں کے سامنے صف بستہ کھڑے رہیں گے،تین سوڈیم بنیں گے جن سے اس قدر بجلی پیداکی جائے گی کہ ہرشہری مفت بجلی استعمال کرے گا،ہرشہر قصبے اور گاؤں میں سٹریٹ لائٹیں لگائی جائیں گی جس کی وجہ پورا ملک بقعہ ئ نوربن جائے گا،صحراؤں اور سمندروں سے گیس پھوٹ پھوٹ کرنکلے گی اورہر گھرمیں اس کی لائینیں بچھادی جائیں گی،پانچ(اب تو دس ارب) ارب درخت لگانے سے پورا ملک سرسبزوشاداب ہوجائے گا،ہرشخص کو نوکری مل جائے گی،ہرپاکستانی کنالوں پر مشتمل عظیم الشان گھرتعمیر کرسکے گا،عالی شان گاڑی کو خرید سکے گا،نوکروں چاکروں اور خادموں کی ریل پیل ہوگی،یورپ کے گورے مرد اور عورتیں چوبیس گھنٹے خدمت کے لئے چاک وچوبندکھڑے رہیں گے،ہرگھرکے نیچے صاف وشاف پانی کی نہر گزرے گی، استحصالی نظام کو جڑوں سے اکھیڑدیاجائے گا،محرومیوں کا خاتمہ کردیاجائے گا،غربت کانام ونشان مٹادیاجائے گا،عیش وعشرت کی وہ موج مستیاں ہوں گی کہ لوگ جنت کی نعمتوں کو بھول جائیں گے۔ یہ وہ سپنے تھے جو کپتان نے نہ صرف ہرجلسے میں حاضرین کو سنائے بلکہ مغربی ممالک کی مثالیں دے دے کر انہیں دکھائے اور ایسے باور کرائے کہ پی ٹی آئی کا ہرورکرخوشخالی سے جھومنے لگا اپنے معاشرتی روایات واقدار سے بغاوت پر اُتر آیااور اپناسب کچھ تبدیلی سرکار پر قربان کرنے لگا مگر جب 25جولائی کے بعد عملی میدان میں قدم رکھوایاگیا تو معلوم ہوا کہ جس ماہر ٹیم کے دعوے کئے جارہے تھے اس کے تمام کھلاڑی اناڑیوں کے اناڑی نکلے،معیشت کے تخت پر ایک قادیانی ”میاں عاطف“ کو بٹھانے کی کوشش کی گئی مگر جب مذہبی لوگوں نے شدید احتجاج کیا تو وہ کمیشن ہی زندہ درگور کردیا گیا،پھر وزیراعظم ہاؤس کے بھینسوں اور گاڑیوں کو نیلام کرنے سے پاکستانی معیشت کو اُٹھانے کی زبردست کوشش کی گئی مگر 22کروڑ عوام کی معیشت کو چندبھینسیں اور گاڑیاں کیسے اُٹھاتیں؟لہذاپھر کٹوں،مرغیوں اور انڈوں کے ذریعے پاکستانی معیشت کو اُوپر اُٹھانے کی کوشش کی گئی مگر نومولود کٹوں،نسوانی ذات کی مرغیوں اور انڈوں میں اتنی طاقت کہاں تھی کہ22کروڑ عوام کی معیشت کواُٹھاتے،پھر لنگرخانوں کے ذریعے غربت کو زمین میں دفن کر کا منصوبہ بنایاگیامگر وہ بھی پی ڈی ایم کے کارکنوں کی وجہ سے ناکام ہوتا گیا،تبدیلی سرکار کے پاس معیشت کو اُٹھانے کے لئے یہی چند عجیب وغریب گھریلوٹوٹکے اورفارمولے تھے مگر 22کروڑ عوام کے لئے یہ فارمولے موثر ثابت نہ ہوسکے، پیرنی صاحبہ کے پاس بھی کوئی روحانی فارمولانہیں تھاکہ ایک چف سے پوری فضاکورنگین بنادیتی۔ بالآخر پھر پرانے پاکستان کے پرانے مستریوں کی طرف رجوع کرنے کی ضرورت محسوس کی گئی اور پرانی کند چھری سے ملک کے باشندوں کو ذبح کرنے کی کابے رحمانہ عمل شروع کیاگیاعالمی خونخوار بھیڑئیے”آئی ایم ایف“ کوہی نجات دہندہ سمجھاگیا اور اس کی شرائط پر ماچس سے لے کر کفن تک ہرچیزپر اس قدر ظالمانہ ٹیکس لگایاگیا کہ عوام کی چیخیں نکل گئیں،سب سے بڑے ڈاکو اور سب سے بڑی بیماری قراردئے جانے والے آصف علی زرداری کے ایک ایک وزیر کو لاکر کرسی اقتدار پربٹھادیاگیا کہ شائد یہی مسیحاثابت ہوجائے”مگر مرض بڑھتاگیا جوں جوں دواکی“پرانے ڈاکٹروں کے ذریعے نئے ٹیکے ایجاد ہوئے اورٹیکسوں پر ٹیکس لگاکر معیشت کو اوپر اُٹھانے کاعلاج تجویز کیاگیا،سوائے سانس لینے کے اور کوئی ایسی بڑی چھوٹی چیز نہیں چھوڑی گئی جس پر ٹیکس نہ لگایا گیا ہو تبدیلی سرکار کے ڈھائی سالہ دورمیں کارخانے،فیکٹریاں،دکانیں،مارکیٹیں بند کرکے عوام کوروڈوں پر نکل کر چیخناپڑرہا ہے کہ ان دودھ کے دھلوہوئے پارساؤں سے وہ پرانے ڈاکو،چور اور لٹیرے ہی بہتر تھے جن کی حکومت میں کم ازکم عوام کو دووقت کی روٹی تومیسر تھی جو ان دودھ کے دھلے ہوئے فرشتوں نے ان کے منہ سے چھین لی،ان سے وہ ڈاکوبہتر تھے جن کے دورحکومت میں کفن تو سستا تھا غریب آدمی آسانی سے مرتو سکتا تھا اب تو غریب آدمی نہ جی سکتا ہے نہ مرسکتا ہے، بڑے بڑے کروڑ پتی کنگلے ہوگئے،کاروبار ٹھپ ہوگیا،ایک کروڑ نوکریوں کا جھانسادینے والی تبدیلی سرکار نے کروڑوں لوگوں کو بے زورگارکر کے دربدرٹھوکریں کھانے پر مجبورکردیا،اب تو بے شمار محکموں کو ختم کرنے کی منصوبہ بندی ہورہی ہے تاکہ رہے بانس نہ بجے بانسری،پچاس لاکھ گھروں کا وعدہ کرنے والی تبدیلی سرکار نے لاکھوں بیواؤں یتیموں اور غریبوں کو بے گھر کرکے کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبورکردیا،آئی ایم ایف سے لئے گئے قرضے اس کے منہ پر مارنے کی دعویدار تبدیلی سرکار نے پوری قوم کو آئی ایم ایف کا غلام بنادیا،قرض نہ لینے کی دعویدار تبدیلی سرکار نے ڈھائی سالوں میں جو قرضے لئے کہ سابقہ تمام ڈاکوحکومتوں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا،،آج جب کوئی شخص بجلی یاگیس کابل جمع کرنے جاتا ہے تو اسے اپنی سابقہ ]تبدیلی[رائے پر شرمندگی نہ صرف محسوس ہوتی ہے بلکہ وہ چیخ چیخ کراپنی نادانی پر ماتم کرتا ہے،25جولائی 2018 ء سے پہلے ناچنے کودنے اور خوشیوں کے شادیانے بجانے والے آج خون کے آنسورورہے ہیں چیخ چیخ کر جھولیاں پھیلاپھیلاکر تبدیلی سرکار کو بددعائیں دے رہے ہیں اور مہنگائی کے پہاڑ تلے دب کر کراہ رہے ہیں لیکن اب پیچھے کی طرف دوڑنے کی سکت ہے نہ موقع۔یہ خبربھی ہمیں اس حکومت کیڈھائی سالہ کارکردگی میں پہلی مرتبہ ملی کہ پاکستان ایشیاء میں غریب ترین ملک کے طورپر سامنے آیا ہے اور کرپشن کے سکور میں بھی مزید ترقی ہوئی ہے،تاجر،صنعت کار،دوکاندار،ملازمین،مزدور الغرض تمام طبقات،کمرتوڑ مہنگائی،بے تحاشا بے روزگاری،افراتفری،لوٹ مار،اقرباپروری،نارواٹیکسوں کے ہاتھوں سراپااحتجاج بن کر سڑکوں پر آکر واویلاکررہے ہیں،مہنگائی دن بدن بڑھتی جارہی ہے،بے روزگاری کا طوفان انتہائی خوفناک منظر نامے کی طرف بڑھ رہاہے، مگر حکومتی محلات کی غلام گردشوں سے بڑی ڈھٹائی سے اب بھی یہی آوازیں آرہی ہیں،پاکستانیو!گھبرانانہیں۔کیونکہ اب تو جناب سری لنکا جاکر معیشت کو اوپر اُٹھانے کا گُر بھی سیکھ کر آئے گئے ہیں،اپنافارمولابھی آزمائیں گے اورزیتون کے باغات سے معیشت ایک دم اوپر اُٹھ جائے گی،آپ نے بالکل گھبرانا نہیں،کیونکہ ضمنی الیکشن میں بلوچستان اور سندھ میں بری برح شکست کھانے کے بعد پنجاب اور کے پی کے میں 2018ء کا پرانا گُر پھر استعمال کرنا پڑااور یہی گُر سینٹ کے الیکشن میں استعمال کیا جائے گا۔موجودہ حکومت کی ان طفل تسلیوں کو سن سن کراب ہرپاکستانی یہ کہنے پر مجبور ہے۔

شکریہ  اے  قبرتک  پہنچانے  والے  شکریہ                    اب  اکیلے  ہی چلے جائیں  گے  اس منزل سے ہم

You might also like
Leave A Reply

Your email address will not be published.