میانمار میں 1948 میں برطانوی سامراج سے آزادی کے بعد وہاں 1962 ء تک جمہوریت باقی رہی مگر پھر فوج نے اقتدار پر قبضہ کرکے برما سوشلسٹ پروگرام پارٹی کے تحت حکومت کی۔ اس دوران ملک میں نسلی خونریزی کا دور دورہ رہا اور اقوام متحدہ کے اندر انسانی حقوق کی پامالی پر مذمت ہوتی رہی۔ 2011 ء میں فوجی حکومت کا باقائدہ خاتمہ ہوا کیونکہ 2010 ء کے انتخاب میں کامیاب ہونے والی یونین سولیڈیریٹی اینڈ ڈیولیمنٹ پارٹی نے انتخاب جیت کر اقتدار پر قبضہ کیا تھا۔ یہ دراصل فوجیوں کی حمایت یافتہ جماعت ہے۔ سوچی کی نیشنل لیگ آف ڈیموکریسی نیچونکہ انتخابی دھاندلی کے پیش نظر بایئکاٹ کردیا تھا، اس لیے فوجی آمریت نے بہ آسانی جمہوریت کا چولا اوڑھ لیا۔۔ برطانوی سامراج کے مخالف آنگ سان نے اشتراکیت سے متاثر ہوکر کمیونسٹ پارٹی اور برما اور برما سوشلسٹ پارٹی قائم کی۔دوسری جنگ عظیم سے قبل وہ چین کی سوشلسٹ پارٹی کا تعاون حاصل کرنے کے لیے گئے مگر سوزوکی کیجی کی ترغیب پر جاپانی فوج میں شامل ہوگئے۔ جاپانیوں نے جب برما کو انگریزوں کے تسلط چھڑا لیا تو وہ ڈاکٹر باماو کی قیادت والی سرکار میں وزیر جنگ بن گئے۔ جنگ عظیم میں جاپان کی شکست کے بعد آنگ سان برطانیہ کے باجگذار بن کر برطانوی حکومت کے تحت برما نوآبادیات میں دوسال کے لیے سربراہ بن گئے۔ اینٹی فاشسٹ پیوپلس فریڈم لیگ بناکر انہوں نے 1947ء کے پہلے انتخاب میں زبردست کامیابی درج کرائی مگراس سے قبل ان کی کابینہ کے زیادہ تر ارکان سمیت انہیں قتل کردیا گیا۔آنگ سان کی زندگی میں رونما ہونے والے ان واقعات کی روشنی میں اگر ان کی بیٹی آنگ سان سوچی کے سیاسی زندگی کا جائزہ لیا جائے تو بلا کی مشابہت دکھائی دیتی ہے۔1988 ء میں سوچی اپنے والد کی مانند سبکدوش فوجیوں کو ساتھ لے کر این ایل ڈی نامی پارٹی قائم کرکے اس کی جنرل سکریٹری بن گئیں اور فوجی حکومت کے خلاف علم بغاوت بلند کردیا۔ باپ کی طرح بیٹی کے اس اقدام نے میانمار کی سیاست میں زلزلہ برپا کردیا۔ 1990 ء کے اندر منعقد ہونے والے قومی انتخاب میں ان کی پارٹی نے اپنے والد کی مانند 81%نشستوں پر کامیابی درج کرائی مگر فوج نے اسے کالعدم قرار دے کر اقتدار سونپنے سے انکار کردیا۔ اس بار فرق یہ ہوا کہ سوچی کو فوج نے والد کی طرح تہہ تیغ کرنے کے بجائے گھر میں نظر بند کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس کے بعد 2010 ء تک کے عرصے میں وہ 15سالوں تک گھر کی نظر بند ی کے سبب طویل ترین سیاسی قیدی قرارپائیں۔ 1991ء میں ان کو امن کا نوبل انعام دیا گیا۔ میانمار میں رواں برس یکم فروری کوفوج نے مداخلت کرکے آنگ سان سوچی کی حکومت کا تختہ پلٹ دیا۔ اس کام کی خاطرنئی پارلیمنٹ کا افتتاحی اجلاس کے دن کا انتخاب کیا گیا۔ فوج کا دعویٰ ہے کہ گزشتہ برس نومبر کے پارلیمانی انتخابات میں شفافیت نہیں تھی۔فوجی اقدام کے بعد سے میانمارمیں مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔ اس احتجاج میں طلبہ، نوجوان، اساتذہ، ڈاکٹرز، طبی عملہ اور سرکاری ملازمین حصہ لے رہے ہیں۔ بدھ مت کے بھکشوؤں نے بھی ینگون کی ایک احتجاجی ریلی میں شرکت کی۔ یہ احتجاج ملک کے دیگر شہروں میں بھی پھیلے اور وقت کے ساتھ فوج کا پیمانہ لبریز ہوگیا۔ اس کا ثبوت اس وقت ملا جب ملک کے دوسرے بڑے شہر منڈالے میں سکو رٹی فورسز نے مظاہرین پر ربڑ کی گولورں کے علاوہ براہ راست گولی بھی چلائی۔ اس طرح 20فروری 2021 ء کو قوت کا بیجا استعمال کرکے فوجی حکومت نے اپنے خوفناک ارادے ظاہر کردیئے۔۔ فوج اس کو بزور طاقت کچلنے میں کامیاب ہوجائے گی یا اس کے آگے ہتھیار ڈال کر اقتدار سے دستبردار ہوجائے گی؟اس سوال کا جواب قبل از وقت ہے لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ سوچی کے حوالے سے مسلمانوں کو جو توقعات وابستہ تھیں ان پر اوس پڑ چکی ہے۔ آنگ سان سوچی کے اقتدار میں آنے اور جانے سے جمہوریت کی حقیقت کھل چکی ہے۔ برما کی پارلیمان کا ایک چوتھائی اور طاقتور وزارتوں جن میں دفاع، داخلہ اور سرحدی امور کی وزارت شامل ہے، فوج کو ملتا ہے۔ یعنی جس کی مرضی حکومت آئے، پچیس فیصد اراکین پارلیمنٹ اور مذکورہ وزارتیں فوج کو ہی ملیں گی۔ اس سب کے باوجود فوج نے مارشل لاء لگا دیا، جو دنیا بھر کے ماہرین کے لیے حیرت کا باعث بنا ہے۔ برما الیکشن میں 80 فیصد ووٹ آنگ سانگ سوچی کی جماعت نے حاصل کیے تھے اور شراکت اقتدار کے معاہدے کو اسی طرح آگے بڑھنا تھا، جس میں فوج نے اپنے مفادات کا تحفظ کر لیا تھا۔ اس سب میں آنگ سانگ سوچی کو کچھ نہیں ملا۔
2017ء برما کے روہنگیا مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کر دیا گیا تھا۔ دہشتگردی کے خلاف آپریشن کے نام پر مسلمانوں کی بستوں کو تہس نہس کر دیا گیا، ایسا ظالمانہ فوجی آپریشن کیا گیا، جس کی بربریت کی مثال نہیں ملتی۔ یہ لوگ مسلمان آبادیوں کو آگ لگاتے اور مسلمان خواتین کی آبرو ریزی کرتے تھے۔ اس بربریت کے نتیجے میں ساڑھے سات لاکھ روہنگیا مسلمان برما سے ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے اور بنگلہ دیش کے کیمپوں میں مقیم ہیں۔آنگ سانگ سوچی نے میانمار کی فوجی کارروائی کا انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس میں دفاع کیا تھا اور اس نسل کشی کے مقدمے میں فوج کا ساتھ دیا تھا۔ آج اسی فوج نے ان کو گرفتار کر لیا ہے اور کسی بھی طور پر انہیں حکومت دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔ دنیا بھر سے آوازیں اٹھی تھیں کہ جس طرح برما کی فوج کے مظالم کو آنگ سانگ سوچی نے دفاع کیا، اس کے بعد ان سے نوبل پرائز کا اعزاز واپس لیا جائے۔ آنگ سانگ سوچی پانچ سال مسلسل حکومت کرتی رہیں، انہوں نے روہنگیا کے لیے کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا۔ ان کا خیال تھا کہ وہ اس طرح فوج کی خوشامد کرکے اپنے اقتدار کو طول دے سکتی ہیں۔ آج اقتدار چھِن چکا ہے اور وہ پھر سے قید تنہائی کا شکار ہوگئی ہیں۔ ان کے تمام ساتھی بھی گرفتار ہوچکے اور ان کی جماعت آمرانہ جبر کا شکار ہوگئی ہے۔ آنگ سانگ سوچی نے مظلوم مسلمانوں کے لیے آواز بلند کی ہوتی تو آج ان کی حالت یوں نہ ہوتی۔ یہ روہنگیا کے مظلوم مسلمانوں کے لہو کا انتقام ہے۔
”آنگ سان سوچی جیل میں:روہنگیا کے مظلوم مسلمانوں کے لہو کا انتقام!“ (حاجی محمد لطیف کھوکھر)
You might also like