حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ فضائل ومناقب (حافظ مومن خان عثمانی)

چٹان
0

حضرت امیر معاویہ ؓ جلیل القدر صحابی رسول ہیں آپ صلح حدیبیہ کے موقع پرمسلمان ہوئے،حضرت معاویہؓ رسول اللہ ﷺکے کاتبوں میں سے تھے اور بہت عمدہ کتابت کرتے تھے،آپ نہایت فصیح، بردبار اور باوقار شخصیت کے مالک تھے۔حضرت معاویہ آنحضرت ﷺکی طرف سے ان تحریررات کولکھا کرتے تھے جو آنحضرت ﷺ اور اہل عرب کے درمیان ہوتی تھیں اس میں وحی اور غیر وحی سب شامل ہیں۔قاضی عیاض ؒ فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے معاذبن عمران ؓسے پوچھا کہ عمربن عبدالعزیزاور حضرت معاویہ میں کیا فرق تھا؟اس بات پر حضرت معاذ ؓ کو غصہ آگیا اور انہوں نے فرمایا کہ نبی کریم ﷺکے صحابہ ؓپرکسی کو قیاس نہیں کیا جاسکتا۔معاویہ ؓنبی کریم ﷺکے صحابی تھے،آپ ؐکے سسرالی رشتہ دارتھے،آپؐکے کاتب تھے،اور وحی الہی پر آپؐ کے امین تھے۔حضرت عبداللہ بن مبارکؒ جن کی جلالت شان،امانت اور پیشوائی پر مسلمان متفق ہیں،وہ علم فقہ،ادب،نحو، لغت،شعروفصاحت،شجاعت،سخاوت اور کرم کے جامع ہیں،زہد،ورع،شب بیداری،کثرت حج،جہاد اور سخاوت میں مشہور ہیں۔انہیں عبداللہ بن مبارک سے پوچھا گیا کہ معاویہؓ افضل ہیں یا عمربن عبدالعزیزؒ؟عبداللہ بن مبارک ؒنے فرمایا:خداکی قسم!وہ غبار جو معاویہ ؓکے گھوڑے کی ناک میں رسول اللہ ﷺکی ہمراہی میں جاتاتھا عمربن عبدالعزیزؒسے ہزاردرجے بہترہے۔معاویہ ؓ نے رسول اللہ ﷺکے پیچھے نماز پڑھی تھی،حضور سمع اللہ لمن حمدہ ٗ پڑھتے تھے اور معاویہ ؓ ربنالک الحمد کہتے تھے،اس عظیم الشان شرف سے بڑھ کر اور کیا بندگی ہوسکتی ہے۔حضرت معاویہ ؓکے فضائل میں سب سے بڑی دلیل آنحضرت ﷺکی حدیث مبارک ہے،ترمذی کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے حضرت معاویہ ؓ کے لئے دعامانگی ”اے اللہ!معاویہ کو ہدایت کرنے والااور ہدایت یافتہ بنادے۔دوسری روایت میں آنحضرت ﷺنے فرمایا:معاویہ میری امت میں سب سے زیادہ بردباراور سخی ہیں۔ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: میری امت میں سب سے زیادہ رحیم ابوبکر ؓہیں،دین میں سب سے زیادہ قوی عمرؓہیں،حیامیں سب سے زیادہ عثمان ؓہیں،علم میں سب سے زیادہ علی ؓہیں،ہرنبی کے کچھ حواری ہوتے ہیں میرے حواری طلحہ ؓوزبیرؓ ہیں،جہاں کہیں سعدبن ابی وقاصؓ ہوں تو حق انہیں کی طرف ہوگا،سعید بن زیدؓ ان دس آدمیوں میں سے ایک ہیں جو رحمن کے محبوب ہیں،عبدالرحمن بن عوف ؓرحمن کے تاجروں میں سے ہیں،ابوعبیدہ بن الجراح اؓللہ ورسول کے امین ہیں،اور میرے رازدار معاویہ ؓبن ابی سفیان ؓہیں۔پس جو شخص ان لوگوں سے محبت کرے گا وہ نجات پائے گا اور جو ان سے بغض رکھے گا وہ ہلاک ہوگا۔ حضرت معاویہ فرماتے ہیں کہ حضور ﷺنے میری طرف دیکھا اور مجھ سے فرمایااے معاویہ! اگرتم کو حکومت ملے تو اللہ سے ڈرنااور انصاف کرنا۔حضرت معاویہ فرماتے ہیں کہ اس سے مجھے یہ امیدرہی کہ مجھے کہیں کی حکومت ملنے والی ہے۔یہاں تک کہ حضرت عمر ؓکی طرف سے مجھے شام کی حکومت ملی،پھر حضرت حسن ؓ کے خلافت ترک کردینے کے بعدخلافت حاصل ہوگئی۔ایک روایت میں ہے کہ آنحضرت ﷺنے ایک معاملہ میں حضرت ابوبکر ؓوعمرؓ سے مشورہ لیا،اور ان سے دومرتبہ فرمایا کہ تم مجھے مشورہ دومگر ہر باردونوں نے یہی کہا کہ اللہ ورسول خود واقف ہیں،پھر آپؐ نے حضرت معاویہ کو بلوایا،جب وہ آئے تو اور آپ ؐ کے سامنے کھڑے ہوگئے تو آپؐ نے فرمایا کہ وہ معاملہ معاویہؓ کے سامنے پیش کرو کیونکہ یہ قوی اور امین ہیں۔ایک روایت میں ہے کہ اللہ کے رسول ﷺنے دعامانگی کہ اے اللہ!معاویہ کو حساب وکتاب سکھادے اور شہروں پر ان کو قبضہ دے اور عذاب کی برائی سے ان کو محفوظ رکھ۔حضرت معاویہ ؓ کی شخصیت کایہ پہلو بھی قابل غور ہے کہ حضرت عمر فاروق اؓور حضرت عثمان ذوالنورین ؓکو حضرت معاویہ ؓپر اس قدر اعتماد تھا کہ حضرت عمر ؓ نے ان کو دمشق کا گورنرمقررکیا اور پھر تاحیات ان کو معزول نہیں فرمایا جبکہ حضرت سعدبن ابی وقاص ؓ جو حضرت معاویہ ؓ سے بدرجہاافضل تھے ان کو معزول کیا، مگر حضرت امیر معاویہ کو بدستور گورنررہنے دیا، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمرؓجیسے صاحب فہم وفراست کو ان کے جوہر حکمرانی پر مکمل اعتمادتھا۔حضرت عثمان ؓ کے زمانہ خلافت میں اکثر گورنروں کے خلاف شکایتیں ہوئیں مگر حضرت امیر معاویہ ؓواحدشخصیت تھے جن کے خلاف کسی نے کوئی شکایت نہیں کی، 20سال تک آپ اس عہدے پر فائز رہے مگر اس طویل مدت میں کسی کو آپ کے خلاف شکایت کرنے کاموقع ہی نہیں ملا۔حضرت علی المرتضیٰ ؓ اور حضرت معاویہ ؓکے اختلافات سے ساری دنیا واقف ہے مگر اس کے باوجود حضرت علی ؓ نے حضرت معاویہؓ کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا کہ میرے لشکر کے مقتول اور معاویہ ؓکے لشکر کے مقتول دونوں جنتی ہیں (طبرانی بسندصحیح)یہ بھی حضرت علی ؓ کا قول ہے کہ ہمارے بھائیوں نے ہم پر بغاوت کی۔بخاری شریف کی روایت ہے حضرت عکرمہ ؒ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے کہاکہ حضرت معاویہؓ ایک ہی رکعت وترپڑھتے ہیں۔حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا: وہ فقیہ ہیں دوسری روایت میں ہے انہوں نے فرمایا:وہ حضور ﷺکے صحابی ؓہیں۔ابن عم رسولؐ اور ابن عم علی ؓجس کو فقیہ قراردے رہے ہیں ان کی فقاہت کی اپنی شان ہوگی۔ حضرت امیرمعاویہ ؓکے متعلق حضرت عمر فاروق ؓ کا ارشادگرامی ہے کہ:حضرت عمر ؓ جب شام تشریف لے گئے وہاں حضرت امیر معاویہؓ اور ان کے لشکر کی کثرت اور جاہ جلال کو ملاحظہ فرمایا تو بہت خوش ہوئے اور فرمایا یہ (عظمت،سلطنت اور جاہ جلال کے اعتبارسے)عرب کا نوشیرواں ہیں۔ مشہور صحابی حضرت ابودرداءؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺکے بعد کسی کو نہیں دیکھا کہ اس کی نماز آپ ؐکی نمازکے مشابہ ہو،سوائے تمہارے اس سردار یعنی حضرت معاویہ ؓ کے۔حضرت امیر معاویہ کے دل میں خوفِ خداکس قدر تھا اس کا اندازہ اس واقعہ سے بخوبی لگایاجاسکتا ہے۔ایک دفعہ جمعہ کا خطبہ دیتے ہوئے انہوں نے فرمایا مال سب ہمارا ہے،غنیمت سب ہماری ہے،ہم جیسے چاہیں استعمال کریں۔مجمع میں سے کسی نے جواب نہیں دیا۔ دوسرے جمعہ کو پھر انہوں نے یہی ارشاد فرمایا پھر کسی نے کوئی جواب نہیں دیا۔تیسرے جمعہ کو پھر انہوں نے یہی بات دھرائی تو مجمع میں سے ایک شخص کھڑاہوگیا اور اس نے کہا ہرگزنہیں، مال سب ہمارا ہے اور غنیمت سب ہماری ہے،پس جو شخص ہمارے اور اس کے درمیان حائل ہوگا ہم اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنی تلوار سے اس کا فیصلہ کریں گے۔یہ سن کر حضرت معاویہ نے اپناخطبہ ختم کیا نمازکے بعد جب اپنی رہائش گاہ پر پہنچے تو اس شخص کو بلوایا۔لوگوں نے کہا اب یہ شخص ماراگیا۔اسی تجسس میں جب لوگوں وہاں پہنچے تو دیکھا کہ حضرت امیرمعاویہ ؓ اپنے تخت پر تشریف فرماہیں۔لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے حضرت امیر نے فرمایا:اس شخص نے مجھے زندہ کردیا اللہ اس کو زندہ رکھے۔میں نے رسول اللہ ﷺسے سنا ہے آپؐنے فرمایا: عنقریب میرے بعد چند اُمراء ہوں گے جب وہ کوئی بات کہیں گے تو (رعایامیں سے)کوئی اس کوردنہیں کرسکے گا (یعنی کسی میں یہ جرأت نہیں ہوگی کی بادشاہ کے سامنے کوئی حق بات کرسکے)وہ جہنم میں اس طرح گریں گے جس طرح کلیاں گرتی ہیں۔میں نے جب پہلے جمعہ میں یہ بات کہی اور کسی نے جواب نہ دیا تو مجھے خوف ہوا کہ کہیں میں بھی ان میں نہ ہوں۔پھر دوسرے جمعہ میں بھی میں نے کہا اور کسی نے کوئی جواب نہ دیا تو مجھے یقین ہوگیا کہ میں انہی میں سے ہوں۔پھر تیسرے جمعہ کو میں نے کہا تو یہ شخص کھڑاہوگیا اور اس نے میری بات کو رد کیا پس اس نے مجھے زندہ کردیا اللہ اس کو زندہ رکھے۔حضرت امیر معاویہ ؓ احادیث رسول ﷺکے جلیل القدر محدث ہیں۔انہوں نے آنحضرت ﷺسے 163حدیثیں روایت کی ہیں ان میں سے چار حدیثیں بخاری ومسلم کی متفق علیہ ہیں اور صرف بخاری شریف میں چار اور مسلم شریف میں پانچ روایتیں ہیں۔حضرت امیر معاویہؓ عالم اسلام کے عظیم فاتح اور زبردست حکمران گزرے ہیں جنہوں نے 64لاکھ 65ہزار مربع میل خطہ ئزمین پر نہایت ہی عدل وانصاف کے ساتھ 19سال تک بڑے شان وشوکت سے حکومت کی ہے۔حضرت امیر معاویہ ؓکے دور خلافت۲۴ھ میں حضرت حارث بن مُرہ عبدی ؓ نے پاکستان کے علاقہ قلات (بلوچستان)پر حملہ کیاجس میں وہ اپنے دیگر کئی ساتھیوں کے ہمراہ شہید ہوگئے۔اُن کے بعد حضرت عبداللہ بن سوار عبدیؓ کوبھیجاگیا جنہوں نے قلات،مکران کے علاوہ بلوچستان کے کئی علاقے فتح کئے،بغاوت کے بعد دوبارہ جب حضرت عبداللہ بن سوار قلات آئے تو مقامی لوگوں کے ہاتھوں اپنے دیگر ساتھیوں کے ہمراہ قلات میں شہید ہوگئے،اس لشکر میں متعددصحابہ کرام نے جام شہادت نوش کیا،جن کو قلات کے قبرستان میں ایک ہی جگہ دفن کیاگیا وہ گنج شہیداں آج بھی زیارتِ خاص وعام ہے۔ افغانستان وپاکستان کے اکثر وبیشتر علاقے حضرت امیر معاویہؓ دورخلافت میں فتح ہوئے،اسی دورمیں کئی صحابہ کرام پاکستانی علاقوں میں آئے اور ہمیشہ کے لئے یہاں آسودہ خواب ہوئے جن میں مذکورہ بالاصحابہ کرام ؓ کے علاوہ حضرت سنان بن سلمہ بن محبق ھُذلی،ؓمدفون پشاور،حضرت راشد بن عمرجُدیدی،ؓمدفون بلوچستان کے علاوہ کئی گمنام صحابہ کرام اور تابعین عظامؓ شامل ہیں۔ حضرت امیر ؓ کے عدل وانصاف،شجاعت وبہادی،تقویٰ وطہارت،اخلاص وللہیت،عفوودرگزر،ذہانت وفطانت کے بے شمار واقعات تاریخ کے مستندصفحات پر موجود ہیں۔آنحضرت ﷺکے ساتھ عشق ومحبت کا یہ عالم تھا کہ جب حضرت امیر معاویہ کی وفات کا وقت آیا تو اانہوں نے وصیت کی کہ مجھے کفن میں وہ کرتہ پہنایاجائے جو رسول اللہ ﷺنے میرے والد گرامی کو دیاتھا اور یہ کرتہ تمام کپڑوں سے نیچے میرے بدن سے ملاہوا رہے۔حضرت امیر کے پاس حضور ﷺکے ناخنوں کا تراشہ تھا اس کے متعلق وصیت فرمائی کہ ان کو گھس کر سرمہ بنایاجائے اور میری آنکھوں اور منہ میں بھردیاجائے۔یہ تمام کام کرکے مجھے ارحم الراحمین کے حوالے کردیاجائے۔جب موت کا وقت قریب ہوا تو فرمایا اے کاش!میں قریش کا ایک ایسا شخص ہوتا کہ مقام ”ذی طوی“ میں رہتا اور خلافت میں بالکل دخل نہ دیتا۔بیاسی سال کی عمر میں آپ دنیا سے رخصت ہوئے۔آپ کی وفات کے بارے میں مورخین کا اختلاف ہے۔بعض نے 4رجب 60 ہجری لکھا ہے بعض نے 22رجب لکھا ہے۔بعض نے 78ہجری اور بعض نے 86 ہجری لکھا ہے۔رضی اللہ عنہ

You might also like
Leave A Reply

Your email address will not be published.