مارچ میں خواتین کا عالمی دن منایا جاتا ہے جس میں زور و شور سے خواتین کے حقوق کے لیے آواز اٹھای جاتی ہے اس مقصد کے لیے تقاریب منعقد کی جاتی ہیں اور اب تو عورت مارچ ہوتا ہے جو آزادی مارچ نہیں بلکہ بربادی مارچ ہے جس میں اٹھاے پلے کارڈز ہر آنکھ کو شرمندہ کر دیتے ہیں ایک سوچی سمجھی سازش کے مطابق ہماری مسلمان عورت کو اس کے دائرے سے نکال کر تماشہ بنایا جا رہا ہے
سوال یہ ہے کہ مغرب کی عورت کو آزادی مانگ کر کیا ملا؟ رسوای۔بوجھ۔ مشقت اب وہاں عورت مرد کے برابر کام کرتی ہے مرد جتنا لوڈ اٹھاتی ہے اس کانتیجہ کیا نکلا ذہنی اور نفسیاتی ا مراض میں اضافہ اب ہماری عورت کو کون سی آزادی چاہیے چودہ سو سال قبل مرے دین نے ہر وہ آزادی دے ڈالی جس کے لیے مغرب کی عورت نے سر توڈ کوشش کی وہ عورت جس کو پیدا ہوتے ہی زندہ دفن کر دیا جاتا تھا جس کی کوی گواہی نہ تھی جس کا کوی درجہ نہ تھا جس سے کوی مشاورت نہ کی جاتی جو صرف اور صرف مرد کی دل بستگی کا سامان تھی اس کو دین اسلام نے مقدس رشتوں میں باندھ دیا
ماں کی صورت میں جنت
بیٹی کی صورت میں حیا
بہن کی صورت میں دعا
بیوی کی صورت میں مہر و وفا
سب سے پہلے اسے جینے کا حق دیا بیٹی کی پرورش پر جنت کی بشارت دے ڈالی پھر اسے رشتوں میں باندھ کر یہ بتلایا وہ باندی نہیں بلکہ مرد کی عزت ہے اور اسے ہر طرح کی آزادی دی جس میں
نکاح کی آزادی
تعلیم کی آزادی
طلاق کی آزادی
ملازمت کی آزادی
وراثت میں حق
گواہی کی آزادی
جو لوگ یہ کہتے ہیں اسلامی ممالک میں عورت کو کام کی اجازت نہیں وہ آزاد نہیں ان کے لیے عرض ہے ہماری پہلی امہات المومنین حضرت خدیجہ بہترین تاجر تھیں حضرت عائشہ بہترین معلمہ تھیں یہاں تک کہ انہوں نے جنگ بھی لڑی اس سے زیادہ آزادی تو آج کے نام نہاد آزاد دور میں بھی نہیں ہماری عورت اپنی حدود میں ہر طرح سے آزاد ہے اس کی مرضی کے بغیر شادی نہیں ہو سکتی اگر وہ کسی مرد کے ساتھ نہیں.
رہنا چاہتی تو صرف اس بات پر بھی علیحدگی اختیار کر سکتی ہے کہ اسے شوہر کی شکل پسند نہیں اس سے بڑھ کر کون سی آزادی ہے اور وہ لوگ جو کہتے ہیں اسلامی ممالک میں کم سن بچیوں کی شادیاں کر کیظلم کیا جاتا ہے کیا وہ نہیں جانتے جس معاشرے میں شادی جیسے مقدس بندھن کو جبر اور ظلم کہا جاتا ہے وہاں تیرہ چودہ سال کی بچیاں کنواری مائیں بن جاتی ہیں اسلامی معاشرے میں مرد کو عورت کے نان و نفقے کا پابند کر دیا گیا اور مغرب کی آزاد عورت مرد کے برابر کماتی ہے زرا سوچیے یہ کیسی آزادی حاصل کی عورت فطری بوجھ بھی ڈھو رہی ہے اور مرد کے حصے کے بھی مزہ تو تب آتا جیت تو تب کہلاتی جب ساڑھے چار ماہ بچہ مرد کی کو کھ میں رہتا اور ساڑھے چار ماہ عورت کی کوکھ میں جننے کا درد مرد بھی سہتا پھر تو ہوتی برابری عورت تو اپنا نقصان کر گی بچے کو دودھ مرد بھی پلاتا صرف عورت نہیں یہ تو آزادی کے نام پر مغرب کی عورت کے ساتھ گیم ہو گی ہماری عورت کو آزادی مارچ یا کسی حقوق کے لیے ریلی نکالنے کی ضرورت نہیں بلکہ چودہ سو سال پلے دیے گئے تمام حقوق سے آگہی کی ضرورت ہے ہماری عورت تو باپ اور شوہر دونوں کی وراثت کی حقدار ہے اس کی گواہی valid ہے یہاں تک کے بیوی بچے کو دودھ پلانے کا معاوضہ بھی شوہر سے طلب کر سکتی ہے
آخر میں ان لوگوں کو آءئنہ دکھانا چاہوں گی جو مسلم ممالک کی اور مشرقی عورت کو مظلوم کہتے ہیں جس کے قدموں تلے رب کائنات نے مرد کی جنت رکھ دی وہ مظلوم کیسے ہو سکتی ہے وہ تو ملکہ کی طرح رہتی ہے ہماری عورتوں کو خبردار رہنا چاہیے ایسے۔مارچوں اور ریلیوں سے جو عورت سے اس کی نسائیت چھین کر اس کا شیرازہ ایک سوچی سمجھی سازش کے مطابق اغیار کے کہنے پر چھننا چاہتے ہیں کیونکہ یہ آزاد یونا چاہتی ہیں نکاح کے بندھن سے اور یہ آزادی زناء کی راہ ہموار کرتی ہے یہ آزادی چاہتی ہے بچوں کے جھنجھٹ سے اور یہ راستہ جاتا ہے نسل کشی کی طرف یہ آزادی چاہتی ہیں شرم و حیا سے تا کہ مر د و عورت کے اختلاط سے معاشرہ بے راہ روی کا شکار ہو جاے اگر آج ہم نے اس کو نہ روکا تو ہماری نسلیں اس کا خمیازہ بھگتیں گی۔